آفتاب جاوید کے گیان


Dr Shahid M shahid

شعر و سخن میں ابھرتا ہوا ایک تابندہ نام آفتاب جاوید کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی علمی و ادبی حلقوں میں شاعری کے حوالے سے جو پہچان ہے وہ قابل ستائش اور قابل رشک ہے۔ جس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے وہ علم و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں جو ان کے شعور کی پختہ علامت ہے۔

ان دنوں میرے زیر مطالعہ ان کی کتاب گیان تھی جسے پڑھ کر احساس ہوا کہ قدرت نے ہر ادیب کے اندر الگ الگ اصناف کا چراغ جلایا ہوا ہے۔ ان گیان کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان کے اندر کسی فلاسفر کی روح گھسی ہوئی ہے جو انہیں ادب کے فن پارے تراشنے پر اکساتی رہتی ہے۔ انہوں نے شب و روز کی ریاضت کر کے

جو گیان لکھے ہیں وہ اذہان و قلوب پر پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کے گیان حکمت و دانائی کا وہ زیور ہیں جن کی چمک و پکار نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ روحانی طور پر بھی قابل ستائش ہے اور خاص طور پر ان گیان کو جو صحت بخش زبان دی گئی ہے وہ قاری کے مطالعاتی تجسس کو بے اختیار بڑھا دیتی ہے۔

اگر کسی فن پارے میں تفسیر و تاثیر کی توانائی نہ ہو تو وہ کیمیائی وحدت سے محروم ہو جاتا ہے۔ پھول وہی دل کو آسودگی بخشتا ہے جس میں خوشبو ہو یہی ادبی لطافت کی خوبی ہوتی ہے اگر اس میں تراکیب، روانی و سلاست، شگفتہ بیانی، اسلوبی ہیبت، اور تاثراتی کرامات کے عناصر شامل نہ ہو وہ بوریت اور تھکان کا سبب بنتی ہے

اور اس سے بڑھ کر جو فن پارہ دعوت فکر کی حدود متعین نہ کرے وہ مطالعاتی تجسس کی بھوک و پیاس بڑھا نہیں سکتا ہے اگر اس بات کا فکری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کے کارخانے میں حکمت و دانش روز اول سے ہی موجود ہے جسے امثال کی کتاب میں پڑھا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ خصوصیات اپنی فضیلت و کرامات میں مکاشفائی بھیدوں سے مزین نظر آتی ہے جس کی ضرورت ہر کس و ناکس کو ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خدا سے حکمت کو مانگیں جو سب کو فیاضی سے دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ فقط سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا مانگنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ یہ بات سچ ہے کہ جب تک انسان خدا سے کچھ مانگتا نہیں وہ اس وقت تک اپنی بخشش جاری نہیں کرتا۔

حضرت سلیمان کی زندگی کا سیاق و سباق ضرب الامثال سے مزین ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خدا اپنے مانگنے والوں کو ضرور دیتا ہے کیونکہ جو مانگتا ہے اسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈ تا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جاتا ہے۔ سلیمان نے تو خدا سے صرف حکمت مانگی تھی لیکن خدا نے انعام کے طور پر انہیں دولت بھی عطا کر دی۔

جو ادب حکمت سے تخلیق ہوتا ہے اس کی ضرورت اور اہمیت زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ جاتی ہے اسی طرح جو الہی ادب انبیاء کے قلم سے تخلیق ہوا ہے وہ ہماری سماجی، معاشرتی اور روحانی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ بلاشبہ حکمت کی تعریف و توصیف کا اطلاق زندگی کے ہر شعبہ پر ہوتا ہے خواہ ہمارے ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی، سماجی مشکلات ہوں یا معاشرتی علم و فہم کے معاملات ہوں یا عام روزمرہ زندگی کہ، خاندانی اثاثوں کا مسئلہ ہو یا شجرہ نسب کا، عادات و اطوار کا مسئلہ ہو یا انسانی جبلت کا، حکمت و دانائی کی ضرورت عملی زندگی میں ضرور پڑتی ہے۔

فاضل دوست کے گیان کچھ ایسے ہی اشاروں اور حکمت کے سانچے میں لکھے گئے ہیں جو عصر حاضر سے لے کر مستقبل قریب تک ہماری زندگیوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں نمونہ کے طور پر ان کے چند گیان قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔

”یہ کم بخت دولت نہ ملے تو مانگنے پر مجبور کر دیتی ہے اور مل جائے تو مغرور کر دیتی ہے“

انہوں نے مذکورہ گیان میں دولت کے دونوں رخ دکھائے ہیں کہ اس کے ملنے اور نہ ملنے پر انسان کی سرشت میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ گیان احساس کمتری اور احساس برتری کے درمیان حکمت سے معمور ہے جو ہماری توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے کہ دولت کا مل جانا خدا کی شفقت کی علامت ہے اور اس سے بڑھ کر مشکل کام اس کے استعمال کا پیمانہ ہے۔ لوگ اس راز کو ہاتھ کی ریکھاؤں میں ڈھونڈتے ہیں پھر بھی یہ نہیں ملتا یہ اکثر و بیشتر تڑپاتا اور رلاتا ہے۔ ہم سب اس دولت کے بت کے سامنے اپنی بے بسی کے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔

آفتاب جاوید کے گیان روحانیت کی تصویر بھی دکھاتے ہیں ان کے اس گیان کو بغور پڑھیں!
”عمل کے بغیر دعا قبول ہونے کی امید ایسے ہے جیسے کوئی مزدوری کے بغیر اجرت کا طلب گار ہو“

ہما ری دعا بھی اس وقت قبول ہوتی ہے جب وہ عمل کے دائرے میں مقید ہوتی ہے کیونکہ بغیر عمل کے ہمارا ایمان بھی مردہ ہے انہوں نے کتاب پر بھی ایک خوبصورت گیان تراشا ہے جو کتاب پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔

”جن گھروں میں کتابیں نہیں ہوتیں لگتا ہے کہ زندگی نے وہاں رک کر سانس بھی نہیں لیا“

میں آفتاب جاوید کو خوبصورت کتاب ”گیان“ لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ وہ مزید تخلیقی و تحقیقی ادب تخلیق کرتے رہیں اور خدا انہیں علمی و ادبی حلقوں میں عزت و توقیر کا مزید شرف بخشے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments