جوتا


انسان ایک ایسا حیوان ناطق ہے جو ایک شے کے کئی استعمالات سیکھ جاتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے۔ جوتا بنیادی طور پر پاؤں میں پہننے کے کام آتا ہے تاکہ پتھریلی زمین، گرم اور سرد سے پیر کو بچا سکے لیکن ہم نے جوتے کے کئی استعمال نکال لیے ہیں۔

جوتے کا پہلا ثانوی استعمال ہم یہ کرتے ہیں کہ اس میں دال بانٹی جاتی ہے (معذرت) باتوں میں بات آ گئی کہ ہم اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جوتی کا بطور ہتھیار استعمال ہم اپنی ماں سے سیکھتے ہیں جب بچپن میں وہ دور سے ہم پر جوتی مار کر ہمارا شکار کرتی ہیں یا جوتی کے ساتھ ہماری پھینٹی لگاتی ہیں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ جوتی بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ من چلے سیاستدانوں کی پھینٹی لگانے کے لیے بھی جوتے کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ جوتا بطور راکٹ بھی کام کرتا ہو گا اور ہاتھ میں ڈنڈے کے طور پر بھی اس لیے اگر شکار دور ہو تو آپ جوتا اتار کر اس کا نشانہ بناتے ہیں۔ پنجاب پولیس میں ملزموں کے لیے ایک بڑا جوتا، جس کو لتر کہتے ہیں اور اس کے استعمال کو لتر پریڈ کہتے ہیں، کے ذریعے سچ اگلوایا جاتا ہے۔ سڑکوں میں بھی عام طور پر لڑائی کی جاتی ہے، اس میں بھی جوتا بطور ہتھیار خوب استعمال ہوتا ہے۔

جوتے کا دوسرا ثانوی استعمال کھیل ہے۔ شادی کے خوب صورت موقع پر دولہے کی سالیاں، دولہا کا جوتا چھپا لیتی ہیں جسے جوتا چھپائی کہتے ہیں اور پھر منہ مانگے پیسے لے کر جوتا واپس کرتی ہیں۔ حالانکہ اکثر پیسے جوتے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ دولہے کو چاہیے کہ کم پیسوں میں نیا جوتا منگوا لے اور بچت کرے لیکن جس نے بھی ایسا کیا ہے پھر اس نے تمام عمر بیوی سے ’لتر پولا‘ کھایا ہے۔

پنجاب کے اندر ایک اور کھیل جوتے کے ساتھ کھیلا جاتا ہے جو کہ ’باندر کلہ‘ (بندر قلعہ) کہلاتا ہے جس میں تمام جوتیاں ایک قلعہ کے ساتھ رکھ دی جاتی ہیں اور ایک شخص باندر (بندر) بن جاتا ہے اور جوتیوں کی حفاظت کرتا ہے اور دوسرے لوگوں نے جوتیاں اٹھانی ہوتی ہیں۔ اکثر چور نمازیوں کی جوتیوں کے ساتھ بھی کھیل کھیلتے ہیں جب نمازی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو چور ان کی جوتی چرا لے جاتا ہے۔ یہ کھیل جمعہ نماز اور نماز عیدین پر اکثریت سے کھیلا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے جوتیاں ہاتھ میں پہن لیتے ہیں۔ اور بڑی تیزی سے چور کی لنگوٹی پکڑ کر کہتے ہیں بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔

پاؤں میں جوتا نہیں ہے، پیٹ میں روٹی نہیں
لے کے کیا چاٹے گا خالی نیک نامی آدمی

اکثر جوتی کو عزت کا پیمانہ بھی بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے ’جوتی کی نوک کے برابر نہ ہونا‘ یا جوتی کے برابر نہ سمجھنا وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

کس کو مطلب ہے کہ اب ان سے ملاقات کرے
ایسے خود غرضوں سے پاپوش مری بات کرے

ہماری دیسی جوتیاں مثلاً کھسہ، کھیڑی، چپل وغیرہ ہیں۔ اگر ان کی ساخت پھر غور کریں تو آپ جان پائیں گے کہ ان کو پہن کر آپ دوڑ نہیں لگا سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے لوگ آرام پسند اور سکون سے رہنے والے ہیں۔ ان کو تیزی، پھرتی اور کام سے شدید نفرت ہے یا پھر یہ تیزی پھرتی کے کام کے وقت جوتی کا استعمال کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور ننگے پاؤں بھاگ نکلتے ہیں۔ ہم نے جب بھی دیسی جوتی کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کی ہے یا تو جوتی توڑ بیٹھے ہیں یا زخم کروا لیا ہے۔ اس لیے دیسی جوتی پہن کر نہ دوڑیں، اگر آپ کو دوڑنے کا شوق ہے تو ولایتی جوگر پہن کر دوڑیں یا پھر جوتی اتاریں اور دوڑ جائیں۔

ہماری جوتیاں بھی امیر غریب ہوتی ہیں۔ امیر جوتا اے سی والی دکان میں ملتا ہے اور غریب جوتا فٹ پاتھ پر نیچے پڑا ہوا ملتا ہے۔ امیر جوتا نرم، ملائم، خوب صورت، رنگین اور دیرپا ہوتا ہے جبکہ غریب جوتا کھردرا، بدصورت اور کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی اوقات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دیسی امیر جوتے سلمیٰ ستارے کی کڑھائی سے دلفریب بنائے جاتے ہیں اور ان کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے دلہن ابھی ابھی تیار ہو کر نکلی ہو۔ جبکہ دیسی غریب جوتوں کی شکل دھوپ میں کھڑے مزدور کی طرح مرجھائی ہوئی ہوتی ہے۔

نوٹ: آج کل جوتے کی مدد سے جن بھگانے کا کام بھی تسلی بخش کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments