صدیوں پر پھیلی رات


شام ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ گہرے بادل گزشتہ رات سے ہی چھائے ہوئے تھے۔ ہوا کے چلنے سے سردی مزید بڑھ گئی تھی ساتھ ہی بارش بھی شروع ہو گئی تھی جو آہستہ آہستہ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ ایسے میں پندرہ گاڑیوں پر مشتمل سیکورٹی فورسز کا ایک کانوائے گوٹھ کہلائے جانے والی اس دو صدیوں پرانے علاقے میں پہنچ گیا تھا۔ یہاں اس وقت بھی ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا جب اوپر کے علاقے سے آنے والے ایک مسلح گروہ نے خطے میں اپنی حکومت قائم کر کے یہاں ریاست بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گوٹھ اب شہر کا حصہ بن چکا تھا۔ چہ جائیکہ یہ ریاست کئی دہائیوں قبل ایک نئے بننے والے ملک میں شامل ہو چکی تھی لیکن لوگ اب بھی اس سابق ریاست کے بڑے شہر کو نوابوں کا شہر کہتے تھے۔

زیادہ گاڑیاں تو پولیس کی تھیں لیکن کچھ گاڑیاں ایسی تھیں جن کے شیشے کالے تھے جن میں پتلون شرٹ میں ملبوس، سیاہ عینکیں لگائے کچھ افسران بیٹھے تھے اور باہر سے گزرنے والوں کو بالکل پتہ نہیں چلتا تھا کہ اندر کون بیٹھا ہے۔ پولیس والوں نے گاڑیوں سے اترتے ہی کچے پکے بنے ہوئے گھروں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔

لیڈیز پارک میں روزانہ آنے والی خواتین کی زیادہ تعداد فجر کی نماز کے بعد ہی آجاتی تھی۔ کچھ دیر واک کرتی تھیں پھر خواتین کا ایک گروہ ایک جگہ بیٹھ جاتا اور اماں سکینہ کا درس شروع ہو جاتا۔ کچھ خواتین ایسی بھی تھیں جو اس درس میں بیٹھنا پسند نہیں کرتی تھیں، ان کا خیال تھا کہ اماں سکینہ معاشرے میں چلے آنے والے بہت سارے رسم و رواج پر یہ کہہ کر تنقید کرتی ہیں کہ یہ لوگوں نے اپنے اوپر بوجھ بنائے ہوئے ہیں اور یہ کہ لوگ ان خود ساختہ نام نہاد پابندیوں سے خود کو آزاد کرا کے اپنی زندگیوں کو آسان کیوں نہیں بنا لیتے۔ خالہ جگنو کا کہنا تھا کہ کیا اماں سکینہ کے کہنے پر ہم شادی اور مرگ پر ہونے والی رسموں کو اس لیے چھوڑ دیں کہ یہ باقاعدہ مذہب کا حصہ نہیں۔

اماں سکینہ کہتیں، ”خود محنت کر کے نہ کھانے والے نام نہاد مذہبی اور روحانی رہنماؤں نے اپنی جیب اور اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر کچھ باتوں اور رسموں کو مذہب کے طور پر پیش کرنا شروع کیا اور پھر یہ لوگوں کی زندگی میں ایسے گھس گئیں کہ کسی ایسے گھر میں بھی فوتگی ہو جاتی ہے جہاں رات کو کھانا نہ ملنے کی وجہ سے بچوں کو بھوکا سونا پڑتا ہو تو بھی اس خاندان کو قرضہ اٹھا کر مرگ پر ہونے والے رسم و رواج کو ادا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ رشتہ داروں اور ارد گرد کے لوگوں کے طعنوں سے خود کو بچا سکیں“ ۔

خالہ جگنو اپنی سرائیکی زبان میں کہتیں، ”بھلا اساں فوتگی تے شادی تے اتے تھیون آلی انھاں رسماں تے ریتاں تے خرچ کرن چھوڑ دیووں جیڑہیاں سادے پیو دادے توں آنیاں پئیاں ہن“ (کیا اب ہم فوتگی اور شادی کے موقع پر ادا ہونے والی ان رسموں اور ریتوں پر خرچ کرنا چھوڑ دیں جو ہمارے باپ دادا کے وقت سے چلی آ رہی ہیں ) ۔

اعلی افسران کی میٹنگ جاری تھی جس میں مختلف فورسز اور اداروں کے حکام شامل تھے۔ میٹنگ کی صدارت کرنے والے ایک بارعب افسر کہہ رہے تھے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ تھانوں میں کرایہ داری کے کوائف کا جمع نہ کیا جانا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گرد کرایہ کا مکان حاصل کر کے وہاں رہائش رکھ لیتے ہیں اور پھر موقع ملنے پر شہر میں بم دھماکہ یا اندھا دھند فائرنگ کر کے بے گناہوں کو مار دیتے ہیں۔ ایک محکمے کا افسر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چھاپوں میں کرایہ دار اور مالک مکان دونوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے جس سے پورے ملک میں دہشت گردی ہمیشہ کے لیے ختم ہونے کی پو ری امید ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیاں ایک مہنگے علاقے سے گزر رہی تھیں جہاں بنی ایک مذہبی درسگاہ کے باہر بیٹھے کچھ افراد جدید آتشیں اسلحہ لے کر بیٹھے تھے۔ سب سے آگے والی گاڑی میں بیٹھے افسر نے اپنے ساتھی افسر سے کہا کہ اگر چہ مغربی میڈیا اس درسگاہ کو چلانے والی تنظیم کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے لیکن ہمارے لیے یہ لوگ قابل احترام ہیں۔ ہم انھیں دہشت گرد نہیں سمجھتے۔

آج اماں سکینہ کے درس میں خالہ جگنو بھی آ کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ رو رہی تھیں۔ پولیس والے گزشتہ رات ان کے شوہر اور مکان کی اوپر کی منزل میں رہنے والی کرایہ دار فیملی کے سربراہ کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ تھانے میں کرایہ داری کے کوائف جمع نہیں کرائے گئے۔ خالہ جگنو بتا رہی تھی کہ پو لیس والے کہہ رہے تھے کہ وہ تفتیش کریں گے کہ آیا کرایہ دار دہشت گرد یا دہشت گردوں کا سہولت کار تو نہیں۔ درس میں بیٹھی باجی شفق جو خواتین کے ایک کالج میں پڑھاتی تھیں، بولیں،

”پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ دہشت گرد بنے کیسے؟“ ۔

”لڑائی تو امریکا اور روس کی ہو اور ہمارے نوجوانوں کو یہ کہہ کر وہاں مرنے کے لیے بھیج دیا جائے کہ یہ مذہب کی لڑائی ہے اور یہ کہ اگر وہ اس جنگ میں شامل نہ ہوئے تو مرنے کے بعد وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے“ ۔ باجی شفق نے سوال اٹھایا۔

ساتھ بیٹھی شمائلہ جو کالج میں پڑھتی تھیں کہنے لگی کہ ہمارے نوجوانوں کا ذہن تو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اب وہ اپنے استاد کو بھی یہ کہہ کر قتل کر دیتے ہیں کہ وہ مذہب کا گستاخ ہے۔ شہر کے ایک کالج میں ایک طالب علم نے ایک استاد کو گستاخ مذہب سمجھتے ہوئے چھری کے وار کر کے قتل کر دیا۔

”ہاں جب مذہب میں امن اور رحم کے سبق کو نظر انداز کر کے نئی نئی باتیں شامل کر کے مذہب کا ایک نیا رخ اپنا لیا جائے تو پھر معاشرے میں نوجوانوں کی حیثیت اس بارود کی سی ہو جاتی ہے جسے جب چاہو، جہاں پھینکو، اس نے پھٹنا ہی ہوتا ہے“ ، شکیلہ نے شمائلہ کو جواب دیا۔

شمائلہ نے زیر لب شعر پڑھا،
کیسا سایہ ہے ارواح خبیثہ کا دیس پہ اکبر میاں
رات پھیلی ہے صدیوں پہ سویرا کیوں نہیں آتا
۔ ۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ سردی میں شدت آ گئی تھی۔ تھانے میں ایک افسر اور کچھ عملہ اپنے کمروں میں لوہے کی انگیٹھیوں میں انگارے جلا کر سردی کی شدت سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تھانے کے مرکزی دروازے کو بند کر کے وہاں تعینات سنتری نے بھی اپنے آگے ایک انگیٹھی رکھی ہوئی تھی۔ وہ موبائل فون پر کسی کو بتا رہا تھا کہ آج تو غضب کی سردی پڑ رہی ہے، نمی والی ٹھنڈک ہڈیوں میں گھستی جا رہی ہے، آگ کی تپش جسم پر بھی کام نہیں کر رہی۔

سعدیہ کافی دیر سے نوٹ کر رہی تھی کہ اس کا شوہر پولیس انسپکٹر منظور بالکل خاموش بیٹھا ہے جبکہ وہ ایک باتونی آدمی تھا اور زیادہ دیر تک خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ سعدیہ اور منظور دونوں شہر سے چند کلومیٹر باہر نہر او ر ریلوے لائن کے درمیان صحرائی ٹیلوں کو گرا کر بنائی جانے والی ایک بہت ہی خوبصورت یونیورسٹی میں کلاس فیلو رہے تھے۔ پھر دونوں میں محبت کا رشتہ پروان چڑھا اور دونوں نے شادی کرلی۔ منظور نے ملازمتوں کا سرکاری امتحان پاس کر کے پولیس کے محکمہ میں ملازمت اختیار کر لی۔

سعدیہ نے پلیٹ میں اپنے شوہر کے لیے سہانجنے اور گوشت سے بنا سالن ڈالا اور رنگین چنگیر میں توے سے اتاری گئی گرم گرم روٹیاں ڈالیں اور منظور کے سامنے میز پر رکھ کر وہیں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ منظور نے کوئی بات کرنے کی بجائے خاموشی سے روٹی کے نوالے کو توڑا۔ سعدیہ نے محسوس کیا کہ اس کا شوہر کسی گہری سوچ میں ہے۔

”شمع دا پیو اج تساں بہوں دیر توں چپ چپ بیٹھے ہیوے، میں گاہلی توں کوئی غلطی تھی گئی ہے کیا، کیا گال ہے دسا تاں سہی؟“ (شمع کے ابو، آج آپ کافی دیر سے چپ چپ بیٹھے ہو، مجھ پاگل سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا، بولو کیا بات ہے ) ، سعدیہ نے کہا۔

منظور جو گہرے خیالوں میں کھویا ہوا تھا، بیوی کی بات سن کر اچانک چونک سا گیا۔ وہ کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا اور پھر بولا،

”میری جنت، تم تو میری خوشی اور میری نامکمل ذات کا تکمیل کرنے والا حصہ ہو، تم سے بھلا مجھے کیا ناراضگی ہو سکتی ہے“ ۔

”تو پھر اس قدر خاموش اور اداس اداس سے کیوں ہیں آپ؟“ ، سعدیہ نے کہا۔

”جان منظور، آج ہم سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران ایسا کام ہو گیا جس نے دل کو بے چین سا کر دیا ہے۔ گوٹھ میں کرایہ داروں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں ہمیں ایک اسی سال سے زائد عمر کی بوڑھی عورت کو گرفتار کر کے تھانے لانا پڑا۔ علاقے کے لوگ بتا رہے تھے کہ اس عورت کا ایک ہی بیٹا تھا جو اپنے کام کی جگہ سے اپنے پرانے موٹر سائیکل پر سوار واپس اپنے گھر آ رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے جسے ایک کم عمر لڑکا چلا رہا تھا، اس کے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور کار بھگا کر لے گیا۔

سڑک کے ساتھ واقع دکانوں میں بیٹھے دکاندار دوڑے اور زخمی کو ہسپتال لے جانا چاہا لیکن زخموں اور چوٹوں کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ وہ سڑک پر ہی دم توڑ گیا۔ اپنے بیٹے کی وفات کے بعد کہ شوہر تو بہت پہلے ہی اس دنیا سے جا چکا تھا، یہ بوڑھی عورت لاوارث ہو گئی۔ محلے کے ایک خدا ترس شخص نے اپنے ایک پرانے مکان کے ایک کمرہ میں اسے رہنے کی جگہ دے دی اور محلے کے لوگوں نے ہی اس کے کھانا کی ذمہ داری اٹھا لی۔ میں نے ڈی ایس پی صاحب کو کہا، اسے چھوڑ دیں، وہ ایک بار تو مان گئے، پھر مڑ کر کالے شیشے والی گاڑیوں کی طرف دیکھا اور کہا نہیں، بڑھیا کو اٹھا لو، اوپر سے سخت احکامات آئے ہوئے ہیں، ملک سے دہشت گردی کو ہر قیمت پر ختم کرنا ہے۔ سعدیہ، ڈی ایس پی صاحب کی پروموشن بھی تو ہونے والی تھی“ ، منظور نے یہ سب بتا کر ایک مرتبہ پھر خاموشی اختیار کر لی۔ سعدیہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ وہ اٹھی اور کمرے کے اندر چلی گئی۔

سنتری دوڑتا ہوا سب۔ انسپکٹر انور کے کمرے میں آیا اور ہانپتے ہوا بولا، جناب غضب ہو گیا۔ بڑھیا جسے کرایہ داروں کے خلاف آپریشن کے دوران گرفتار کر کے لایا گیا تھا، سردی کی شدت کی وجہ سے حوالات کے فرش پر مری پڑی ہے۔

انور جو مسلسل 24 گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے کی وجہ سے نیند سے اونگھ رہا تھا، ایک دم کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تو وہ سپاہی کو گھورتا رہا جب اسے بات کی سمجھ آئی تو وہ فوراً کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ سپاہی کو ایک ننگی گالی دی اور کہا، بڑھیا نیند میں ہو گی یا زیادہ سے زیادہ بے ہوش پڑی ہو گی اور تم نے آ کر میری نیند خراب کر دی، معلوم ہے میں کل رات سے سو نہیں پایا۔ یہ کہہ کے وہ سپاہی کے ساتھ حوالات کی طرف چل پڑا۔

حوالات کا دروازہ کھولا گیا، بڑھیا کو ہلایا گیا لیکن وہ تو اس دنیا سے جا چکی تھی۔ انور کے چہرے پہ پریشانی کی لہریں سی آ گئیں۔ اس نے محرر سے پوچھا، روزنامچہ میں بڑھیا کی گرفتاری تو نہیں ڈالی گئی تھی۔

”نہیں سر، ہاں پینسل والی کچی رپورٹ میں اس کے بارے میں لکھا تھا“ ، محرر نے جواب دیا۔

انور نے کہا یہ تو اچھا کیا۔ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا، پھر اپنے موبائل فون پر ایک بڑے افسر کو کال ملائی۔ انور کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چل رہا تھا کہ نیند سے جگانے پر اسے بڑے افسر سے گالیاں پڑ رہی ہیں۔ تاہم تھوڑی دیر بعد اسے ہدایات مل گئی۔

انور نے سپاہیوں سے کہا بڑھیا کی لاش کو پولیس کی پٹرولنگ وین میں ڈال کے شہر کی کسی سڑک کے کنارے پھینک آؤ۔ پھر محرر کو کہا، کچی رپورٹ کو بھی مٹا دو۔ ساتھ ہی پوچھا، ویسے کچی رپورٹ میں بڑھیا کا نام کیا لکھا تھا؟

”سر، ہیڈ کانسٹیبل سرفراز نے بتایا تھا کہ جب بڑھیا کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو محلے والے اسے اماں سکینہ کہہ رہے تھے۔ کچی رپورٹ میں وہی نام لکھ دیا ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments