تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی


گزشتہ کالم میں، میں نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے لکھا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 91 میں سے 32 حکومتی جامعات کی کارکردگی، ایک مخصوص معیار کے حوالے سے غیر تسلی بخش ہے۔ یہ خبر خاصی چونکا دینے والی تھی جسے تمام ملکی اخبارات نے بڑی بڑی سرخیوں میں شائع کیا۔ دو دن بعد ، غالباً انہی 32 جامعات میں سے چند ایک کے دباؤ پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک تفصیلی پریس ریلیز کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی 32 یونیورسٹیوں کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

یہ رپورٹ صرف کارکردگی کے چند پہلووں کے بارے میں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پریس ریلیز کے ذریعے معاملے کی وضاحت کے بجائے اسے مزید الجھا دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمیشن کے ماہرین نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں غیر مبہم طور پر اپنا موقف کیوں نہیں دیا۔ کیا وجہ ہے کہ وہاں موجود تمام رپورٹرز نے ایک ہی طرح کی رپورٹ دی۔ خود قائمہ کمیٹی کے سرکاری اعلامیہ میں یہی حقائق بیان کیے گئے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی الجھاؤ یا کنفیوژن پیدا ہوا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری خود کمیشن کے عہدیداروں پر عائد ہوتی ہے۔

اس سے قطع نظر کہ 32 جامعات کی کارکردگی کس اعتبار سے غیر تسلی بخش ہے، لمحہ فکریہ یہ ہے کہ قوم کے مستقبل سے تعلق رکھنے والی اتنی بڑی خبر پر کیا رد عمل سامنے آیا۔ کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا کہ اس بارے میں ملک کے کسی بڑے یا قابل ذکر اخبار نے کوئی اداریہ رقم کیا ہو۔ کسی وزیر یا متعلقہ حکام کی طرف سے ایسا کوئی ردعمل نہیں آیا جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ حکومت تعلیم میں بہتری کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ مجھے کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں بھی اس انکشاف پر بحث و مباحثہ کا کوئی پروگرام دکھائی نہیں دیا۔ سول سوسائٹی کی طرف سے یا تعلیم کے نام پر باہر سے ڈالرز کی صورت میں بھاری رقوم وصول کرنے والی کسی این۔ جی۔ او کی طرف سے بھی کوئی آواز نہیں اٹھی۔ گویا ہمارا مجموعی قومی ردعمل انتہائی سرد مہری کا تھا۔ ایسا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

جب ہم باہر کی یونیورسٹیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سر ندامت سے جھک جاتا کہ ہم کن پستیوں کا شکار ہیں۔ نیچے سے اوپر تک ہماری تعلیم کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ہماری تعلیم کی کوئی سمت ہی نہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمیں کس طرح کے افراد پیدا کرنے ہیں۔ ہمیں انجینئرز چاہئیں یا ڈاکٹر؟ انجینئر چاہئیں تو کس کس شعبے میں مانگ بڑھنے کی توقع ہے۔ ڈاکٹرز چاہئیں تو کون کون سی مہارتوں کے حامل ہوں۔

حال ہی میں ایک سٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے ہاں نفسیاتی معالجین کی شدید کمی ہے۔ نتیجہ یہ کہ نفسیاتی الجھنوں کے شکار مریض پیروں، فقیروں، خانقاہوں اور تعویذ گنڈا فروشوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح شاید ہی متعلقہ وزارت، ایچ۔ ای۔ سی یا کسی یونیورسٹی نے یہ مشق کی ہو کہ نئے دور کے تقاضوں کے مطابق، قومی ضروریات کا تعین کیا جائے اور اپنے نوجوانوں کو ایسی تعلیم یا ایسے پیشہ وارانہ ہنر سے آراستہ کیا جائے جو انہیں حصول روزگار میں مدد دے۔ پرائمری سے اعلیٰ تریں تعلیم تک کسی بھی طالب علم کے ذہنی رجحان، طبعی ساخت یا فطری اہلیت کا جائزہ لینے کا کوئی نظام ہمارے ہاں متعارف نہیں ہو سکا۔

آئین کسی بھی ملک کی بنیادی اور اہم تریں دستاویز ہوتا ہے۔ ملک کا پورا نظام اسی کے مطابق چلتا اور تمام ادارے اسی کی طے کردہ حدود میں کام کرتے ہیں۔ ہمارا آئین بھی اس سلسلے میں کوئی زیادہ خوش نصیب نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 25۔ A کہتا ہے ”ریاست، 5 سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لئے لازمی مفت تعلیم کا بندوبست کرے گی“ ۔ یہ ذمہ داری براہ راست، ریاست پر ڈالی گئی ہے۔ یعنی خود حکومت پاکستان نے اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ اس عمر کا کوئی بچہ سکول سے باہر نہ ہو۔

دوسری طرف اس مضحکہ خیز صورتحال پر نگاہ ڈالئے کہ خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ عمر کے اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ آپ نے آج تک کوئی ایسی خبر نہیں پڑھی ہو گی کہ موجودہ، یا سابقہ کسی بھی حکومت نے بچوں کو لازمی مفت تعلیم دینے کی آئینی ذمہ داری کے حوالے سے کوئی اقدام کیا ہو۔ میں نے گزشتہ کسی کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ اس تعداد میں کمی کے بجائے، مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اگر ہماری آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2050 تک ہم چالیس کروڑ آبادی کا ملک بن جائیں گے۔ اللہ نہ کرے، اگر موجودہ صورت حال جاری رہی اور لازمی تعلیم اسی طرح مذاق بنی رہی تو اس وقت سکول سے باہر بچوں کی تعداد چھ کروڑ سے زائد ہو جائے گی۔ آج بھی ہم اس حوالے سے نائیجیریا کے بعد دوسرا بد ترین ملک ہیں۔

خواتین کی تعلیم کا معاملہ اور بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ سکول سے باہر بچیوں کی تعداد، لڑکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کل ملکی آبادی کا صرف 18 فی صد ان خواتین پر مشتمل ہے جنہوں نے میٹرک کی سطح کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ یعنی 82 فی صد وہ ہیں جن کی تعلیمی سطح میٹرک سے بھی کم ہے یا وہ سرے سے ان پڑھ ہیں۔ آج کل ہم افغانستان کے حوالے سے بڑے حساس ہیں کہ وہاں بچیوں کے سکول نہیں کھولے جا رہے۔ یہ حساسیت اپنی جگہ درست ہے۔ لیکن ہمیں خود اپنی زبوں حالی کی کچھ خبر نہیں۔ ایک عالمی ادارے ”گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ“ کے مطابق لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلیمی تفاوت کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کے آخری دو بد تریں ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

اس اعتبار سے پاکستان کو زبردست انسانی سرمایہ رکھنے والا ملک خیال کیا جاتا ہے ہمارے ہاں 30 سال سے کم عمر نوجوانوں کی تعداد آبادی کے 64 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ اگر ہم اپنے اس سرمائے کو بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے میدان عمل میں اتاریں تو حقیقی انقلاب آ سکتا ہے۔ لیکن اس 64 فی صد آبادی کو بھی ہم نے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ قوم کے نوجوانوں کی بڑی تعداد سکولوں میں نہیں جاتی۔ کچھ میٹرک کے بعد تعلیمی میدان سے باہر ہو جاتے ہیں۔

کچھ ہائیر سیکنڈری سکول سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یونیورسٹی کی سطح تک پہنچنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس نمک کے ساتھ بھی ہم جو سلوک کر رہے ہیں، وہ نہایت افسوسناک ہے۔ ایک بار پھر بلوچستان یونیورسٹی کے محترم وائس چانسلر کا جملہ دہرانا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس تو لیبارٹری ٹیسٹس کے لئے کیمیکلز خریدنے کے بھی پیسے نہیں۔ ہمیں ہر حال میں کچھ مدات سے پیسے نکال کر ان کا رخ تعلیم کی طرف موڑنا ہو گا، ورنہ خدانخواستہ ہمارا مستقبل، ہمارے حال سے بھی تاریک ہو گا۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments