قائد کی عینک اور دیگر چوریاں


وہاڑی کے ڈپٹی کمشنر کمپلیکس میں قائد اعظم کے مجسمہ سے کسی نے عینک چرا لی۔ جب اس چوری کا انتظامیہ کو علم ہوا تو فوری ایکشن ہوا اور عینک چوری کی ایف آئی آر درج کی گئی اور مجسمے پر عینک دوبارہ لگا دی گئی۔ جس نے بھی یہ نازیبا حرکت کی ہے اس کو تلاش کر کے قانون کے مطابق سزا دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ مگر ہماری تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی ہے ملک بننے سے اب تک بہت سی اہم چیزوں کو چرا لیا گیا یا دانستہ چھپا دیا گیا مگر افسوس اس پر کسی نے نوٹس نہیں لیا اور نا ہی کوئی کارروائی ہو سکی۔ اب اگر عینک کی تلاش شروع کردی گئی ہے تو لگے ہاتھوں ماضی کی گمشدہ دیگر اشیا کی بھی تلاش کا حکم جاری ہو جائے تو پوری قوم مشکور ہوگی۔

مرتضیٰ سولنگی 2012 میں ریڈیو پاکستان کے ڈی جی بنے تو علم ہوا کہ قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کی آڈیو ریکارڈنگ غائب ہے۔ بہت تلاش کیا گیا اس ضمن میں بی بی سی، آل انڈیا ریڈیو سے بھی رابطہ کیا گیا مگر قائد کی آڈیو ریکارڈنگ نا مل سکی۔ مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ ”11 اگست کی تقریر یہ بتاتی ہے کہ جب نئی ریاست کی تشکیل ہو رہی تھی تو ریاست کے بانی کے ذہن میں اس کا نقشہ کیا ہے۔

وہ اسے کیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں، لیکن مجھے کامیابی نہیں ملی۔ ملتی بھی کیسے کیونکہ قائد جو نئی ریاست تشکیل دینا چاہتے تھے وہ ہمیں منظور نہیں تھی ہم جو بنانا چاہتے تھے وہ ریاست بنائی، آج ہماری فکر کے مطابق تشکیل کردہ ریاست پھل پھول رہی ہے بس فرق یہ ہے کہ اس ریاست کے پھل اور پھول مخصوص لوگوں کے لیے مختص ہیں جبکہ قائد کی فکر کے مطابق تشکیل کردہ ریاست کا فائدہ بہرحال عوام کو ہونا تھا۔

اسی سبب غالب گمان یہی ہے کہ جنہوں نے قائد کی آڈیو ریکارڈنگ چوری کی ان ہی لوگوں نے ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم کی ایمبولینس کا پٹرول چوری کر لیا۔ اور بیمار قائد شدید گرمی میں سڑک پر کھڑی ایمبولینس میں بے یارو مدد گار لیٹے رہے۔ ائرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس کا 9 میل کا فاصلہ دو گھنٹے میں طے ہوا۔ بالآخر قائد اس دن دنیا سے ہی رخصت ہو گئے۔ لگے ہاتھوں اس ایمبولینس سے پٹرول چوری کرنے والے نامعلوم چوروں کے خلاف بھی مقدمہ درج کر دیا جائے۔ کیوں نا ایک ہی بار انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے کر قائد کے مجسمے کی عینک، آڈیو ریکارڈنگ اور ایمبولینس کے پٹرول کو چوری کرنے والوں کو تلاش کیا جائے کیونکہ یہ سارے چور ایک ہی سوچ کے مالک ہیں ایک ہی طریقہ واردات ہے ہو سکتا ہے تحقیقات ہوں کھرا بھی ایک سمت کو نکل پڑے۔

اگر اس انوسٹی گیشن ٹیم کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار بڑا کر دیا جائے تو لگے ہاتھوں ان چوروں کو بھی تلاش کیا جائے جنہوں نے لیاقت علی خان قتل کیس کی فائل پولیس ریکارڈ سے چوری کرلی تھی۔ ہماری سیاسی تاریخ سنگین جرائم سے بھری ہوئی ہے ہر دور میں کوئی نا کوئی ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ ایک معذور شخص کو گورنر جنرل بنا دیا گیا جس کی زبان صرف ایک خوبرو حسینہ کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ایک ایسا معذور جس کو علاج کی ضرورت تھی اس کو ملک کا گورنر جنرل بنانے کا جرم ناقابل معافی ہے کیوں نا اس جرم کا بھی مقدمہ درج کر لیا جائے اور مجرم سے پوچھا جائے کہ کیا سوچ کراس نے یہ فیصلہ کیا۔

ملک بھر میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ انتخاب جیتنے کے لیے ریاستی مشینری کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ ہر حربہ آزمایا گیا بات اگر انتخابات اور طریقہ انتخاب کی ہے تو یہ قابل معافی جرم ہے کہ ہر بار ایسا ہی ہوتا رہا ہے مگر انتخابی مہم کے دوران قائد کی ستر سالہ بوڑھی ہمشیرہ پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ کم سے کم ان الزام لگانے والوں کے خلاف مقدمہ ضرور درج ہونا چاہیے۔ انتخابات تو ہر قیمت پر خودساختہ فیلڈ مارشل نے جیتنے تھے تو پھر یہ بھونڈا الزام کیوں لگایا گیا کس کے کہنے پر لگایا گیا۔ لگے ہاتھوں جنرل رانی کے وسیع اور بے پناہ اختیارات پر بھی ایک عدد انکوائری ہو جانی چاہیے۔ صدارتی محل کے اس گارڈ کے خلاف بھی مقدمہ درج ہونا چاہیے جس نے اداکارہ ترانہ کی صدر ہاؤس سے واپسی پر سلیوٹ کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ اب آپ قومی ترانہ ہیں۔ گارڈ کو قومی ترانہ کی توہین پر سزا ملنی چاہیے۔

آئین کی پامالی اور توہین تو ہر طاقتور آمر کے مزاج کا حصہ رہا ہے۔ اس لیے اس پر سوال بنتا نہیں کیونکہ آفاقی حقیقت ہے کہ طاقت کے اپنے اصول و ضوابط اور منوانے کا طریقہ ہوتا ہے۔ لہذا متواتر پامالی ہوتی رہی اور ہر بار نظریہ ضرورت کے تحت اس کو قانونی تحفظ بھی ملتا رہا۔ بقول غالب بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ، کچھ نا سمجھے خدا کرے کوئی، مگر گزشتہ عام انتخابات میں قائد کے پاکستان کی تعمیر و ترقی کی بجائے ایک عدد نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔

گویا پرانے پاکستان کے نقش کہن کی طرح مٹا دیا گیا۔ اور جو کچھ نیا دیا گیا وہ اتنا اذیت ناک ہے کہ بیان مشکل ہے۔ اس عظیم کارنامے پر کس کو الزام دیں کس سے منصفی چاہیں۔ نئے پاکستان کا تجربہ ناکام ہو چکا اور ہائبرڈ نظام زمین بوس ہو گیا۔ کھیلوں کے میدان کا فاتح سیاست کے میدان میں چاروں شانے چت ہو گیا۔ قوم کے پانچ سال ایک تجربے کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔ اب تو کوئی امید نظر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی، ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو ابھی، کچھ ہماری خبر نہیں آتی۔

کیا اس تجربے سے متعلق بھی کوئی باز پرس ہوگی۔ پلٹن کے میدان کے بعد حالیہ معیشت کے سرنڈر ہونے تک کی نصف صدی کے اندر ہونے والے جرائم کا محاسبہ ضروری ہے۔ لگے ہاتھوں ان پچاس سالوں کے لیے بھی ایک انوسٹی گیشن ٹیم بنا دی جائے ممکن ہے کوئی گنہگار مل ہی جائے۔ تحقیقات ہی کرالیں بے شک مفاد عامہ میں اس رپورٹ کو پانامہ کے والیم ٹین یا حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کی طرح شائع نا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments