لوڈ شیڈنگ کے پرمسرت نغمے


کل گرو دت کی پروڈکشن میں بننے والی ہندی فیچر فلم کالا پانی دیکھنے کا موقع ملا۔ فلم میرے تبصرے اور ستائش کی قطعاً محتاج نہیں، پچاس کی دہائی میں گرو دت ایک بڑا نام تھے اور بہت سے لوگ انہیں اپنے وقت سے آگے بھی بیان کرتے ہیں۔ یہ فلم البتہ راج کھوسلا کی ڈائریکشن میں بنی تھی۔ محمد رفیع کی آواز اور دیو آنند پر پکچرائز ہوئے اس فلم کے گانے \”ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے\” نے مجھے یکدم بے خود کر دیا اور اٹھا کر لاہور میں اپنے گھر میں لوڈ شیڈنگ کی تاریکی میں گزارے اوقات کی یادوں کے بیچ لا بٹھایا۔

سن 2007-8 سے پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ اس بحران کی وجہ سے کمرشل اور ڈومیسٹک سیکٹر کو گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ ایسے بھی سال آئے ہیں کہ عوام اس لوڈ شیڈنگ کے جن کی وجہ سے بے حال ہوگئے۔ ایک طرف کارخانے بند ہوئے اور روزگار کے سامان محدود ہوتے گئے تو وہیں شدید گرمی میں سارے دن کی محنت کے بعد تھکے ہارے گھروں کو آئے لوگ ساری ساری راتیں لوڈ شیڈنگ میں پسینہ بہاتے اور بے چین ہوتے گزارتے رہے۔

غرض اس بحران نے جہاں لوگوں کی معاش کو متاثر کیا ہے وہیں اس سے معاشرت پر بھی گہرے اثر پڑے ہیں۔ کم از کم سن 2014 تک بجلی کا بحران اپنے زوروں پر تھا۔ چھ سات سال تک جب ایک پریشانی مسلسل جھیلنی پڑے تو لوگ منورنجن کے طریقے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ زندگی ایسے نہیں گزاری جا سکتی؛ ہر وقت روٹھے ہوئے، حالات سے مسلسل ناراض اور بے حال۔ کسی قریبی عزیز کے جنازے پر بھی کسی بے مقصد بات پر بے اختیار مسکراہٹ آ ہی جاتی ہے، ایسے میں تنبیہ سننے کو ضرور ملے گی کہ \”دھیان کرو جنازہ ہے\” مگر دل سے پھوٹتی مسکراہٹ کو کون روک پاتا ہے۔ ہم پاکستانی بہت زیادہ دیر تک افسردہ رہنے والے واقع نہیں ہوئے ہیں۔ دنیا بار بار ہمارے بلند ہمت ہونے کا حوالہ دیتی ہے۔ ایسی بلند ہمتی کہ خوشی تو ہم نے تب بھی ڈھونڈی جب چاروں طرف بموں کے دھماکے گونج رہے تھے اور فضا میں سڑے ہوئے خون کا تعفن پھیلا ہوا تھا۔ 2009 میں ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کی جیت کے بعد نوجوانوں اور خاندانوں کو جیت کی والہانہ خوشی مناتے اور بیچ سڑک بھنگڑے ڈالتے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ہر سال گرمیوں کے موسم میں گرمی سے بچنے کے لئے نہر میں نہاتے لاہوریوں کے مناظر آپ اخباروں میں دیکھتے ہی ہوں گے۔

غرض گھنٹوں پر محیط لوڈ شیڈنگ نے بھی ہماری زندگیوں پر جہاں بہت سے منفی اثرات چھوڑے وہیں بہت سے مثبت اثرات بھی پڑے۔ ٹی وی بند ہوا تو گفت و شنید شروع ہوگئی۔ گھروں میں اور محلوں میں گپیں لگانے کی محفلیں بحال ہوئیں۔ تھڑے زندہ ہوئے۔ گلیاں گھروں میں گرمی سے تنگ ہوکر چہل قدمی کو نکلے خاندانوں سے آباد ہوئیں۔ ایک نئی ثقافت کا آغاز ہوگیا۔ شام کی پے در پے لوڈ شیڈنگ میں بھی زندگی نے چہکنے کا سامان نکال ہی لیا تھا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ زندگی ندی کے پانی کی طرح مسلسل جاری رہتی ہے اور اپنا راستہ مشکل سی مشکل رکاوٹوں سے بھی نکال ہی لیتی ہے۔ زیست مصائب میں گھرے ہوئے بھی نامساعد حالات سے کسی نہ کسی طرح خوشی کشید کرنے کا نام ہے، بے معنویت کی گھڑیوں میں اپنوں کا ساتھ خون جما دینے والی ٹھنڈی ہواؤں کے مقابل نرم دھوپ کی تمازت کا احساس دیتی ہے۔

ایسے ہی رات کی تاریکی میں جب لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے زندگی ٹھہر سی جاتی تو پرانے ہندی و پاکستانی گانوں کا ایک دور چلتا تھا۔ انٹرنیٹ کی سہولت لوڈ شیڈنگ کے باوجود موجود ہوتی اور لیپ ٹاپ بھی ہم نے چارج کر کے رکھا ہوتا تھا۔ اپنے والدین کے ساتھ مل بیٹھ کر باتیں کرتے اور گانے سنتے گھنٹہ در گھنٹہ گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا، پھر چاہے وہ شدید سردی ہو یا شدید گرمی۔ \”ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے\” سے قریب ہی گزرے ہوئے ایک خوش گوار زمانے کی یاد ذہن کو معطر کرنے لگ گئی۔

دل کو گھلانے والا یہ گیت سنا تو خیال گزرا کیوں نہ ایسے چند گیتوں کی ایک فہرست قارئین کے ساتھ بانٹی جائے تاکہ جو لطف میں حاصل کر رہا ہوں اس میں کچھ آپ کا حصہ بھی ہو!

شروعات \”ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے\” سے ہی کرتے ہیں۔ 1958 میں ریلیز ہونے والی فلم کالا پانی کا یہ گانا سچن دیو برمن (SD Burman) کی موسیقی، محمد رفیع کی آواز اور مجروح سلطان پوری کی شاعری سے مزین یہ گانا دیو آنند اور نالنی جے ونت پر پکچرائز ہوا۔

1949 میں ریلیز ہونے والی فلم دلاری کا یہ گانا \”سہانی رات ڈھل چکی ہے\” سریش اور مدھو بالا پر پکچرائز ہوا۔ محمد رفیع کی گائیکی میں کے ایل سیگل کی چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔ فلم کی موسیقی موسیقار اعظم نوشاد نے دی اور گانے شکیل بدایونی نے لکھے۔ اس فلم کی ڈائرکشن اے آر کاردار نے دی۔ کاردار صاحب وہی ہیں جنہوں نے 1928 میں لاہور میں پہلی پروڈکشن کمپنی یونائیٹڈ پلیئرز کارپوریشن بنا کر لاہور میں فلم انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔

1952 میں گرو دت کی ڈائرکشن میں بننے والی فلم \’جال\’ کا یہ گانا \”یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں\’ دیو آنند اور گیتا بالی پر پکچرائز ہوا۔ یہ گانا ہیمنت کمار نے گایا اور اس کے بول ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے جب کہ موسیقی ایس ڈی برمن نے دی تھی۔ جال سے متعلق دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب یہ فلم لاہور میں نمائش کے لئے پیش ہوئی تھی تو لاہور کی فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے ستاروں نے میکلوڈ روڈ پر واقع ریجنٹ سینما کے باہر فلم کی نمائش کے خلاف احتجاج کیا۔ یہ تحریک جال ایجیٹیشن کے نام سے مشہور ہوئی تھی اور اس احتجاج کے نتیجے میں متعدد فلمی ستاروں کو حوالات کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ اس ایجیٹیشن کے نتیجے میں حکومت نے فلم کے بدلے فلم کی پالیسی نافذ کی۔

1958 میں بننے والی فلم \’سولہواں سال\’ کے لئے ہیمنت کمار کے گائے گئے اس گیت کی موسیقی ایس ڈی برمن نے دی، بول مجروح سلطان پوری نے لکھے اور یہ دیو آنند اور وحیدہ رحمان پر پکچرائز ہوا۔ یہ گیت میرے والد صاحب کو بہت پسند ہے۔ بار بار ہم سے کہہ کر لگواتے تھے، اب بھی سنتے ہیں۔ ان کے لئے آل ٹائم فیورٹ تو محمد رفیع ہی ہیں مگر ہیمنت کو بھی بہت پسند کرتے ہیں۔ ہیمنت کی آواز میں یہ چلبلا سا گیت سنئے۔

یہاں تک آکر آپ لوگوں کو لگنے لگا ہوگا کہ میں شاید دیو آنند اور ایس ڈی برمن کے سوا کہیں اور دیکھنے کا قائل نہیں ہوں۔ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ اتفاقا ہی یہ گانے یاد آتے گئے اور ترتیب یوں بن گئی۔ لیجئے طلعت محمود کی آواز میں راجندر کرشن کا لکھا ہوا گیت \’\’یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی/ تیری اک ادا پر نثار ہے\’۔ واقعی محبوب کی اداؤں پر تو سب کچھ ہی نثار ہوتا ہے۔ فلم سنگ دل کے اس گیت میں دلیپ کمار اپنے جوبن پر نظر آتے ہیں۔

1963 میں ریلیز ہونے والی فلم \’تیرے گھر کے سامنے\’ کا یہ گانا \’دل کا بھنور کرے پکار، پیار کا راگ سنو رے\’ حسرت جے پوری کا لکھا ہوا ہے۔ اس گانے کی موسیقی ایس ڈی برمن نے دی ہے اور یہ دیو آنند اور نوتن پر پکچرائز ہوا ہے۔ یہ گانا خصوصی طور پر میری والدہ کی پسند تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیا لوڈ شیڈنگ کے دوران دکھی گانے لگاتے رہتے ہو، کوئی ہنسی خوشی کے گیت سناؤ، سو ایک اور ہنستا مسکراتا ہوا گیت پیش خدمت ہے۔

والدہ کی ہی ایک اور پسند دوبارہ پیش خدمت ہے، فلم کالا پانی کا یہ گانا بھی انہیں بہت پسند ہے، روٹھے ہوئے دیو آنند کو مناتے ہوئے اس گیت میں مدھو بالا نے بہت اوریجنل اداکاری کی ہے۔

1961 میں دیو آنند کی موسیقی میں بننے والی فلم \’ہم دونوں\’ کا گیت \’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا\’ بھی انہی گیتوں میں سے ایک ہے جو روز ہم سنتے۔ دیو آنند پر پکچرائز ہونے والا یہ گیت محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔ بول ساحر لدھیانوی نے لکھے۔ گانے کی شروعات میں سگریٹ سلگاتے دیو آنند کا پانی میں محبوب کی شبیہ کو دیکھ کر چونکنا مجھے ہمیشہ ہی لبھاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ مجھ پر دیو آنند کے گانوں کی لسٹ بنانے کا الزام لگ جائے فلم بیجو باورا کا یہ گیت شامل کیے دیتے ہیں۔ مینا کماری میری آل ٹائم فیورٹ تو محمد رفیع اور نوشاد والد صاحب کے، سو یہ گانا ہر دوسرے روز ضرور چلایا جاتا تھا۔

کچھ پاکستانی گانے بھی ہوجائیں، خواجہ خورشید انور میرے ہمیشہ ہی پسندیدہ موسیقار رہے ہیں۔ فلم زہر عشق کے کوثر پروین کے گائے اس گانے \’پل پل جھوموں، جھوم کے گاؤں\’ کے بول قتیل شفائی نے لکھے ہیں اور یہ مسرت نذیر اور حبیب پر پکچرائز ہوا تھا۔ مسرت نذیر کے بارے میں میرے والد صاحب کا فتوی ہے کہ یہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی سب سے بہتر ایکٹریس تھیں۔ میں اس پر کوئی ماہرانہ رائے نہیں رکھتا۔

خواجہ خورشید انور کا ذکر ہو، پاکستانی فلموں کے گانوں کی بات ہو اور پنجابی گھرانہ ہو اور نور جہاں اور فلم ہیر رانجھا کے گانوں کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پاکستانی فلم انڈسٹری کی موسیقی کا جب بھی ذکر آئے تو ان دو گانوں کے بغیر یہ ذکر ہمیشہ نامکمل رہے گا۔

میرے والد صاحب کا اس فلم کے کرداروں کے بارے میں تبصرہ رہا ہے کہ فردوس مجسم ہیر تھی اور اس فلم میں اعجاز مجسم رانجھا لگتا تھا۔

آخر میں شاید میرا آل ٹائم فیورٹ گانا بھی شامل کر لینا چاہئے۔ میڈم میری پسندیدہ ترین پلے بیک سنگر ہیں، میری رائے میں تو برصغیر کے تین بڑے سنگرز، رفیع، لتا اور میڈم میں سب سے بہترین میڈم ہی تھیں… بہرحال یہ تو ذاتی پسند کی بات ہے، جیسے میرے والد صاحب کے خیال میں اتنا میلوڈیس گانا اس کے ریلیز کے بیس سال آگے اور پیچھے نہ بنایا گیا۔

یہ تو تھا ہماری لوڈ شیڈنگ کے دوران گزارے ہوئے وقت کا احوال… آپ بتایئے آپ کیسے یہ اوقات گزارتے تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments