ناصر کاظمی کی ”پہلی بارش“


(4)
آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں
تو نہ ملتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے
(ب س ک)

’پہلی بارش‘ محض دو اشخاص کے ملنے اور بچھڑنے کی کہانی نہیں ہے۔ ’میں‘ اور ’تو‘ علامتیں ہیں داخل اور خارج کی؛ نمائندے ہیں فرد اور معاشرے کے۔ ”انسان کو معاشرے اور تنہائی دونوں کی ضرورت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے زوج ہیں یا اس کی زکا دونوں کی صحیح ترکیب ہی سے ممکن ہے۔ شاید اسی لیے انسان دوسرے انسان سے جدا ہو کر، تنہا ہو کر، رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں۔ وہاں وہ خود اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ وہاں ان کو عجیب عجیب باتیں سوجھتی ہیں جن تک ان کے شعور کی رسائی نہیں ہوتی۔ مارٹن لوتھر نے اس امر کا اعتراف کیا ہے۔ محبت کی پرورش کے لیے بھی تنہائی اور خاموشی کی ضرورت ہے۔“ (اقتباس از ’ناصر کاظمی: ایک دھیان‘ از شیخ صلاح الدین)

لیکن عام آدمی تو تنہائی سے بھاگتا ہے۔ وہ اسیر بزم ہوتا ہے۔ ”تنہائی عام آدمی کو اس لیے ڈراتی ہے کہ اس میں دنیا کے ہنگاموں کا شور ماند پڑ جاتا ہے اور کان خاموشی کا نغمہ سننے کی تاب نہیں لا پاتے، اس کے لیے دل کے کان کھولنے پڑتے ہیں۔ عام آدمی کو یہ عمل حالت نزع کے ممثل نظر آتا ہے۔ وہ گھبرا جاتا ہے، تنہائی سے نکل بھاگتا ہے اپنے آپ کو ہجوم میں گم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔“ (ایضاً)

چنانچہ خیالات اور جذبات کی پرورش کے لیے قدرت نے انسان کو لازماً بلکہ جبراً تنہائی اور خاموشی کے لمحات میں ڈالنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ حادثات، بیماریاں، پیاروں کا بچھڑنا وغیرہ، ایسے واقعات ہیں جو اسے درد سے آشنا کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف اور کٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ لوگوں کی صحبت میں اس کا جی نہیں لگتا۔ بعض اوقات تو اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ درد اسے کانٹے کی طرح مسلسل، ہمہ وقت چبھتا رہتا ہے۔ زندگی بوجھل اور کٹھن ہوجاتی ہے۔ ایسے میں یا تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے اور موت کے راستے پر چل نکلتا ہے یا پھر اس کے اندر کا تخلیقی انسان جسے ناصر کاظمی ’شاعر‘ کہتے ہیں، بیدار ہوتا ہے ؛ اس کی بہت سی خفتہ اور نہفتہ صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں، اور وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے :

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے
درد کی خامشی کا سخن پھول ہے
(دیوان)

ناصر کاظمی کے ہاں شاعری کے معنی بہت وسیع تھے۔ اپنے اسی آخری انٹرویو میں کہتے ہیں : ”مجھے غزل، قطعہ، رباعی، آزاد نظم وغیرہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ تمھیں پتا ہے کہ شاعری صرف مصرعے لکھنے کا نام نہیں۔ شاعری تو ایک نقطہ ¿ نظر ہے زندگی کو دیکھنے کا، چیزوں کو دیکھنے کا؛ ان کو موزوں طریقے سے بیان کرنے کا نام شاعری ہے۔“ اسی گفتگو کا ایک اور ٹکڑا ملا حظہ ہو:

ناصر: آپ یہ دیکھیے کہ بعض لوگ مختلف شعبوں میں پڑے ہیں اور وہ شاعر ہیں، تخلیقی لوگ ہیں۔ ننھے ننھے مزدور۔ میں نے تو دفتروں میں بعض کلرکوں کو دیکھا ہے اور بعض ریڈیو میں، بعض ادھر ادھر اور اداروں میں ؛ وہ بڑے تخلیقی لوگ ہیں ؛ وہ بڑے خاموش خادم ہیں۔ اس سے بڑا کون شاعر ہے۔ انجن ڈرائیور سے بڑا، جو کتنے ہزار اور کتنے سو مسافروں کو لاہور سے کراچی لے جاتا ہے اور کراچی سے واپس لاتا ہے۔ مجھے یہ آدمی بہت پسند ہے۔ اور ایک کانٹے والا، پھاٹک بند کرنے والا؛ یہ بھی شاعر ہیں، میری برادری کے لوگ۔ اپنا اپنا role ہے۔ آپ کو پتا ہے اگر وہ پھاٹک کھول دے، جب گاڑی آ رہی ہو، تو کیا قیامت آئے؟ بس شاعر کا بھی یہی کام ہے کہ کس وقت پھاٹک بند کرنا ہے ؛ جب گاڑی گزرتی ہے، اس وقت۔

انتظار: لیکن ایسے شاعر بھی تو تم نے دیکھے ہوں گے کہ جب پھاٹک کو بند رہنا چاہیے، اس وقت کھول دیتے ہیں اور جب کھولنا چاہیے، بند کر دیتے ہیں۔

ناصر: کیونکہ وہ صرف اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ شاعر جو ہے وہ ساری انسانیت کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جب اوروں کا بھلا ہو گا تو اس کا اپنا بھلا خودبخود ہو گا۔ ”

گویا انسان جو بھی، جہاں بھی ہو، تخلیقی ہو سکتا ہے ؛ اسے تخلیقی ہونا چاہیے، یہی اس کی معراج ہے۔ لیکن اس معراج کو پانے کے لیے اسے تنہائی کے جوکھم سے گزرنا پڑے گا۔ ناصر کاظمی نے اپنے ایک ریڈیو فیچر، ’شاعر اور تنہائی‘ (مطبوعہ ’خشک چشمے کے کنارے‘ ) میں لکھا تھا: ”روز ازل سے تنہائی شاعر کا مقدر ہے ]یہاں مقدر سے مراد مجبوری نہیں بلکہ اس کے قرآنی معانی پر توجہ دینا ہوگی۔ (اللہ نے ہر شے پیدا کی اور اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ مقرر کر دیا) ۔ ہر شے کے خواص اور امکانات اس کی تقدیر ہیں۔ اقبال کے ہاں بھی یہ لفظ انھیں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔[ تخلیق کی لگن اسے خلوتوں میں لیے پھرتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسانی تہذیب کا سورج تنہائی کے غاروں ہی سے طلوع ہوا۔ اس لیے تنہائی تخلیقی زندگی کے لیے ایک ناگزیر مرحلہ ہے۔ تخلیقی انسان زندگی کے لیے تنہائی کے دکھ اٹھاتا ہے اور جب اس بھری دنیا میں وہ اکیلا رہ جاتا ہے تو اپنے معبود حقیقی کے حضور یوں فریاد کرتا ہے :

تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو

انسان اپنے چار سو سے باہر نہیں نکل سکتا۔ آزادی انسان کی ازلی آرزو ہے لیکن تنہائی سے عہد نامہ کیے بغیر یہ آزادی ممکن نہیں۔

دنیا کی ہر شے تنہائی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اس عالم کی تمام مخلوقات تنہائی کے پردوں ہی میں نشوونما پاتی ہیں۔ انسان شعور رکھتا ہے، اس لیے وہ تمام مخلوقات کے مقابلے میں سب سے زیادہ حساس ہے۔ شعور و آگہی کا یہ آشوب اسے آسمان و زمین کی وسعتوں میں حیران و سرگرداں لیے پھرتا ہے۔ شاعر کی تنہائیوں نے اس دنیا کے گوشے گوشے کو ایک حیات تازہ بخشی ہے اور اس کی تنہائی کا یہ سفر ابد تک جاری رہے گا ”

’پہلی بارش‘ کے مرکزی کردار کی زندگی میں بھی ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب اس کے اندر کا شاعر بیدار ہوتا ہے اور اسے ایک نئی دنیا تخلیق کرنے پر؛ ایک نیا طرز زیست دریافت کرنے اور اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ ”پچھلی رات کی تیز ہوا میں / کورا کاغذ بول رہا تھا۔“ وہ جب تک غیر تخلیقی زندگی بسر کرتا رہا، کمزور، خوف زدہ اور محتاج رہا؛ تنہائی اس کے لیے دوزخ تھی جس میں وہ ”لکڑی کی طرح جلتا تھا“ ، لیکن جب اسے شعور ملا، اس کا احساس جاگا، اس کے اندر تخلیقی سوتے پھوٹے، وہ قوی، جرات مند اور خودمختار ہو گیا؛ اس نے اپنی جنت کو پا لیا، لیکن کہیں باہر نہیں بلکہ:

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی مرے دل کی جنت
میں تنہا ہوں میں تنہا تھا

(کتاب کے تیسرے ایڈیشن کا دیباچہ جو اگست 1983 ءکو پہلی بار شائع ہوا تھا۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments