ناصر کاظمی کی ”پہلی بارش“


(8 دسمبر ناصر کاظمی کا یوم پیدائش ہے)

(1)

میں سکول میں پڑھتا تھا۔ نیا نیا شعر کہنا شروع کیا تھا۔ ایک محبوب مشغلہ پاپا کی غیرموجودگی میں، ان کے کمرے میں، ہر قسم کے نئے اور پرانے رسالے ’کھنگالنا‘ تھا (غیرنصابی کتابیں پڑھنے کا دور ابھی نہیں آیا تھا) ۔ ایک روز ’نیا دور‘ کے دو مختلف شماروں میں پاپا کی کئی غزلیں ایک ساتھ ملیں۔ ان کے بارے میں انوکھی بات یہ تھی کہ یہ سب کی سب ایک ہی زمین میں تھیں۔ حیرت ہوئی کہ پاپا، جو ایک غزل میں ایک ہی قافیہ ایک سے زائد بار باندھنے سے گریز کرنے کو کہا کرتے تھے، خود ایک ہی زمین میں اتنی غزلیں لکھ گئے، اور کئی قافیے کئی کئی دفعہ استعمال کیے۔ اچنبھے کی دوسری بات یہ تھی کہ ان غزلوں کی زبان اتنی سادہ تھی کہ ’پہاڑ اور گلہری‘ اور ’گائے اور بکری‘ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی اور لب و لہجہ روزمرہ گفتگو کے اتنا قریب کہ لگتا تھا جیسے نثر کو اوزان کا پابند کر دیا گیا ہو۔ شعر کہنا بہت آسان دکھائی دینے لگا۔ کئی بار تو بے اختیار ہنسی بھی آ گئی:

سینے پر دو کالی کلیاں
پیٹ کی جھیل میں کنول کھلا تھا

پاپا ریڈیو سٹیشن سے لوٹے تو میں نے انھیں دیکھتے ہی کہا، ”کچھ غزلیں پڑھیں آج۔ اوپر آپ کا نام تھا۔ آپ ہی کی ہیں؟“

’ہاں ہاں میری ہیں۔ بالکل میری۔ کیوں؟ ”انہوں نے رسالے دیکھتے ہوئے کہا اور سٹپٹا کر مجھے دیکھنے لگے۔ پہلے تو انھیں خیال ہوا کہ شاید میں مذاق کر رہا ہوں لیکن پھر مجھے انتہائی سنجیدہ پا کر انھیں تشویش ہونا شروع ہوئی کہ کل تک تو برخوردار بھلا چنگا تھا۔

”بہت سیدھی سیدھی غزلیں ہیں۔ پھیکی پھیکی۔ کچھ زیادہ ہی آسان اور سادہ“ میں نے ڈرتے ڈرتے کہنا شروع کیا۔ ’کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ بات نہیں بنی۔ ”

اب سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ ناصر کاظمی سے یہ بات اور وہ بھی ’پہلی بارش‘ کے بارے میں، اس انداز سے۔ میں نے کہہ دی؟ پھر اپنی جہالت کو معصومیت کا نام دے کر دل کو تسلی دیتا ہوں۔ نابالغ، نماز روزے کے علاوہ بھی بہت سی پابندیوں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے حدود میں رہنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ وہ حدود سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ جہاں تک بیباکی کا تعلق ہے تو ناواقفیت بھی اس کا اتنا ہی اہم منبع ہے جتنا کہ علم (اگرچہ جو جرات لاعلمی سے پھوٹے وہ گستاخی اور ہٹ دھرمی کہلاتی ہے اور جو علم کے نتیجے میں پیدا ہو وہ خوداعتمادی اور یقین کی علامت خیال کی جاتی ہے ) ۔ پھر نابالغوں اور ناواقفوں کو ایک اور رعایت بھی تو حاصل ہے۔ علم کا باب وا کرنے کی ایک کلید بیباکی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جاننے اور سیکھنے میں شرم محسوس نہ کرو۔ پاپا بھی یہی تلقین کیا کرتے تھے۔ سوالوں کے جواب چاہو اور جواب سن کر سوال کرو۔ سوال کتنے ہی مضحکہ خیز اور بچگانہ کیوں نہ ہوں۔

تو ذکر تھا ’پہلی بارش‘ کی غزلوں کا۔ میری بات پر پاپا کا ردعمل ایسا تھا گویا وہ کچھ بتانے یا سمجھانے بلکہ کچھ بھی کہنے کو بے سود سمجھ رہے ہوں۔

مذکورہ واقعے کے کئی برس بعد اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے جب پاپا نے اپنا کلام اکٹھا کر کے ترتیب دینا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک ڈائری کے پہلے صفحے پر ’پہلی بارش‘ جلی حروف میں لکھا ہوا تھا اور اگلے اوراق میں ویسی ہی ہم زمین غزلیں۔ پاپا یہ غزلیں ایک پرانی ڈائری (جو میرے پاس اب بھی محفوظ ہے) سے نقل کر رہے تھے۔ اس پرانی ڈائری میں یہ غزلیں من و عن اسی طرح لکھی ہوئی تھیں جیسے میں رسالے میں پڑھ چکا تھا۔ مگر اب کئی اشعار قلم زد یا تبدیل کیے جا چکے تھے، کچھ نئے اشعار کا اضافہ کر دیا گیا تھا اور دو تین غزلیں خارج کر دی گئیں تھیں۔ اب مجھے محسوس ہوا کہ یہ مجموعہ غزلوں کے ان مجموعوں سے بہت مختلف تھا جن سے میری آشنائی تھی۔ میں نے پاپا سے کہا کہ وہ اسے چھپوا کیوں نہیں دیتے تو ان کا جواب صرف اتنا تھا، ”ابھی لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔“

پاپا اکثر ہم سے، ہماری عمر کے اس دور کے مطابق جس سے ہم گزر رہے ہوتے، سوال کیا کرتے، ہمارا امتحان لیا کرتے۔ ایک روز رات کو اپنے لکھنے پڑھنے کے اوقات میں مجھے بلایا اور کہا، ”اس شعر کے کیا معنی تمھاری سمجھ میں آتے ہیں؟“

دل کی صورت کا اک پتہ
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا

میں سوچنے لگا۔ پان کا پتہ میرے ذہن میں آ رہا تھا لیکن غزل کے شعر کے معنی، ایک پہیلی کے حل کی طرح بتاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔

”دل کی صورت کا پتہ نہیں دیکھا کبھی؟“
”پان!“ میں نے فوراً جواب دیا۔
”ٹھیک۔ اب اس شعر کو دیکھو:
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا ”
”سگریٹ۔ ماچس۔“
”خوب اب یہ شعر:
چاند کے دل میں جلتا سورج
سورج کے دل میں کانٹا تھا ”
یہ ’پہیلی‘ میں نہ بوجھ سکا۔ آخر انھوں نے خود ہی بتایا: ’فرائڈ انڈا‘ ۔
میں بہت محظوظ ہوا۔ ”تو کیا یہ پہیلیاں ہیں؟“
”ہاں۔ پہیلیاں بھی۔“ وہ مسکرانے لگے۔

یہ ’بھی‘ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ میرے لیے اہم سے اہم تر ہوتا چلا گیا۔ ہر شے اپنے علاوہ (یعنی جو کچھ وہ دکھائی دیتی ہے یا سمجھی جاتی ہے، اس کے علاوہ) اور ’بھی‘ بہت کچھ نظر آتی۔ پاپا کا یہ شعر ہر وقت ذہن میں پھرنے لگا:

پھول کو پھول کا نشاں جانو
چاند کو چاند سے ادھر دیکھو

پھر ایک روز دل کی صورت کا پتہ ایک ہتھیلی پر رکھا دیکھا۔ سربکف لوگوں کے بارے میں تو سنا تھا، دل بدست بھی دیکھ لیا۔ پھر ’چاند‘ کے دل میں جلتا سورج، ’سورج‘ کے دل میں کانٹا، کاغذی پیکر کے دل میں چنگاری اور ’خس‘ کی زباں پر انگارہ بھی دیکھا۔ اب ان اشعار میں پہیلیاں کم اور کہانیاں زیادہ نظر آنے لگیں۔ میری حیرت کے صحرا میں ’پہلی بارش‘ سے نت نئے گل ہائے معانی کھلے۔ جن باتوں پر پہلے ہنسی آتی تھی، اب آنسوؤں کے دریا بہتے۔ میر پر پاپا کا مضمون جو کبھی ’سویرا‘ میں شائع ہوا تھا (اور اب ان کے نثری مجموعے، خشک چشمے کے کنارے میں شائع ہوا ہے ) ، پڑھا۔ اس شعر: ’یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر/ اپنی ٹکی لگائے جاتا ہے‘ کے حوالے سے پاپا کی خیال آرائی پڑھ کر مجھے اپنا پہلی بار ’پہلی بارش‘ پڑھنا بہت یاد آیا۔ لکھتے ہیں : ”بظاہر یہ شعر آدمی کے سستے اور عمومی جذبات کو اس قدر برانگیختہ کر سکتا ہے کہ معقول قاری بھی ان کی رو میں بہہ کر اس طرح قہقہے لگانے لگے کہ اسے اپنے مبتذل ہونے پر کوئی شک نہ رہے، ردعمل کے طور پر ایسا معقول قاری بالکل ویران ہو سکتا ہے اور انھی ویران لمحوں میں یہ شعر اپنا آپا دکھاتا ہے۔ اس میں بھونڈے قہقہوں کی گونج کے ساتھ وہ المناک تجربہ اپنی پوری شدت کے ساتھ سمویا ہوا ہے جس پر دھاڑیں مار مار کر رویا بھی جا سکتا ہے۔“

’پہلی بارش‘ ، دوبارہ، سہ بارہ پڑھی۔ یوں لگا جیسے کتاب اب سمجھ میں آ گئی۔ جس طرح کسی غزل کے اشعار اپنا جداگانہ وجود رکھتے ہوئے بھی آپس میں کسی طور منسلک ہوتے ہیں اسی طرح ’پہلی بارش‘ کی غزلیں بھی انفرادی طور پر مکمل غزلیں ہونے کے ساتھ ساتھ مل کر ایک وحدت کو تشکیل دیتی دکھائی دیں۔ یہ وحدت طویل نظم کے قریب کی کوئی چیز معلوم دی۔ ہر غزل گویا اس نظم کا ایک بند تھی جس کے اشعار ایسے مربوط نظر آئے جیسے کسی زینے کے مدارج یا کسی منزل کے مراحل۔ ایسا محسوس ہوا گویا شاعر کوئی کہانی سنا رہا ہو۔ بار بار پڑھنے پر یہ کہانی واضح ہوتی چلی گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments