لطافت علی صدیقی کی کتاب: ہزاروں انکشافات


لطافت علی صدیقی کی کتاب  ’ہزاروں انکشافات‘  کا ذیلی عنوان ہے، سازشیں، سیاہ راتیں، قاتل و مقتول کی داستانیں۔ لطافت علی صدیقی کا تعلق منہاج برنا اور نثار عثمانی کے قافلے یعنی بقول احفاظ صحافیوں کی اس کھیپ سے ہے جو درد مند دل اور صاف ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنے پیشیکی حرمت کا بھی احساس رکھتے ہیں۔ ا ب وہ کینیڈا کی شہریت اختیار کر چکے ہیں۔ کورونا نے دنیا میں جتنی بھی تباہی مچائی ہو لیکن لاک ڈاؤن کی بدولت لطافت علی کو اپنی صحافیانہ زندگی کے تجربات و مشاہدات قلم بند کرنے کا وقت مل گیا اور ہمیں پاکستان کے اہم واقعات کو ایک صحافی کی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ظاہر ہے ان واقعات کا تعلق ان کے عہد جوانی سے ہے جب آپ ہر قسم کا ایڈونچر کرنے اور بلا خطر آتش نمرود میں کودنے کو تیار رہتے ہیں۔

کتاب کا پیش لفظ اشفاق حسین نے لکھا ہے۔ پہلے باب میں لطافت صاحب نے کتاب لکھنے کی وجہ اور اپنی یادداشتوں کا ذکر کیا ہے۔ دوسرا باب قائد اعظم کی موت کے بارے میں ہے کہ آیا بابائے قوم زیارت میں ہی دم توڑ چکے تھے؟ 1975 میں لطافت کو دو اور صحافیوں کے ہمراہ کوئٹہ ریذیڈنسی میں رہنے کا موقع ملا اور وہاں ایک بوڑھے ملازم سے انہوں نے اس حوالے سے معلومات حاصل کیں۔

تیسرا باب ہے ”فاطمہ جناح کو کسی نے خاموشی سے خاموش کر دیا“۔ لطافت اس وقت جو نئیر رپورٹر تھے۔ وہ پہلے رپورٹر تھے جو پولیس کے ساتھ دروازہ ٹوٹنے کے بعد محترمہ کے کمرے میں پہنچے اور ان کے سوالات پر پولیس والے نے انہیں دھمکایا کہ اگر وہ وہاں سے نہ گئے تو ان کی بھی لاش وہاں پڑی ہو گی۔

چوتھا باب نصرت بھٹو اور بے نظیر کی بھٹو سے اخری ملاقات کے بارے میں ہے جس کا احوال بے نظیر نے خود لطافت کو سنایا۔  ”اچھا تو آج تم دونوں کو ایک ساتھ ملاقات کرانے کے لئے میرے پاس لایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ آج کی رات مجھے پھانسی دی جائے گی“ یہ تھے ذوالفقار علی بھٹو کے وہ الفاظ جو انہوں نے اپنی شریک حیات نصرت اور اپنی عزیز ترین بیٹی بینظیر کو اچانک اپنی موت کی کوٹھری میں دیکھ کر کہے تھے۔

پانچواں باب فضائی حادثے میں ضیاالحق کی موت کے بارے میں ہے۔  ”ضیاالحق کو تو انہیں مارنا ہی تھا۔ بیرونی قوتوں نے ان سے جو کام لئے تھے، وہ سب راز ضیا الحق کے پاس ہی تو تھے۔“

چھٹا باب اندرا گاندھی کے بارے میں ہے۔ مصنف کی رائے میں اندرا گاندھی سرد جنگ کی نذر ہو گئیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ہمارے اس زمانے کے احفاظ اور میرے دوست صبیح الدین غوثی کے ساتھ لگائی جانے والی شرط کا بھی ذکر کیا ہے۔ غوثی نے امریکہ کے ایک جریدے کی ہیڈ لائن دیکھ کر کہا تھا  ”سنو مائی گئی“۔ لطافت اور ان کے درمیان شرط لگ گئی اور لطافت ہار گئے۔

ساتواں باب حسین شہید سہروردی کے بارے میں ہے جو بیروت کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے تھے۔

آٹھواں باب جنرل آصف نواز جنجوعہ کی موت کے بارے میں ہے۔

نواں باب ایک بے روزگار صحافی کی موت اور عبدالستار ایدھی کے بارے میں ہے۔

دسواں باب لطافت کی ان سچی خبروں کے بارے میں ہے جو شائع نہ ہو سکیں۔

باب گیارہ میں لطافت نے اپنی کہانی اپنی زبانی سنائی ہے جب ایک سٹے باز نے لندن میں لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح کے بعد انہیں نوٹوں سے بھرا بریف کیس دینا چاہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔

باب بارہ میں انہوں نے ڈرگ مافیا سے ٹکر لینے کی کہانی سنائی ہے۔ ویسے تو بہت سے صحافیوں کی طرح لطافت کو بھی اکثر پولیس نے تھانوں میں بند کیا اور ڈنڈے بھی مارے مگر اس باب میں انہوں نے اس دن کی کہانی سنائی ہے جب ہیروئن کا کاروبار کرنے والوں نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

باب تیرہ خان عبدالولی خان اور مفتی محمود کے ان انٹرویوز کے بارے میں ہے جو بر وقت شائع نہ ہو پائے۔

باب چودہ عمران خان کی باتوں کے بارے میں ہے۔

باب پندرہ کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے لٹل ماسٹر محمد حنیف کو زبردستی ریٹائر کروانے کے بارے میں ہے۔

ان سارے ابواب سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ لطافت ایک دھانسو قسم کے رپورٹر تھے مگر ایک اور بات بھی پتہ چلتی ہے کہ وہ ایک معصوم سے شوہر بھی رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ان ہی کی زبانی:

 ”دسمبر 1977 میں شادی کی غرض سے ہندوستان گیا۔ واپس آیا تو پتہ چلا کہ ایک اور تحریک کا اعلان ہو چکا ہے۔ (جس کے بارے میں احفاظ نے سب سے بڑی جنگ کے نام سے کتاب لکھی)۔ میرے دوست صبیح الدین غوثی صاحب نے بتایا کہ آزادی صحافت کے لئے اس جیل بھرو تحریک میں دس دن کے بعد مجھے بھی گرفتاری دینی ہو گی۔ برنا صاحب پہلے ہی جیل جا چکے تھے۔ جیسے ہی میں نے بیگم کو جیل جانے والی بات بتائی تو انہوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی تحریک کے لئےجیل جانا معیوب نہیں ہوتا۔ اس پر انہوں نے کہا میں آپ کی بات سمجھتی ہوں لیکن اگر آپ جیل گئے تو میرے باپ کیا سوچیں گے۔ وہ یہی کہیں گے نا کہ جس لڑکے کے ساتھ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی، وہ تو کسی جرم میں جیل چلا گیا۔“

اگلے دن لطافت نے اپنے جیل جانے والے کسی ساتھی کے ذریعے برنا صاحب کو پیغام بھیجا کہ وہ گرفتاری دینے کی بجائے انہیں کوئی اور کام سونپ دیں۔ جواب میں کہا گیا تم ہر روز گرفتاری دینے والوں کے ساتھ ریگل چوک جایا کرو اور ایک پریس ریلیز کی شکل میں ہر روز اخبارات کو خبر بھیجا کرو ”

ہائے کیسے پیارے نرم دل لیڈر اور کیسے معصوم کارکن۔ دونوں کو سرخ سلام!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments