تین مذاہب کا مرکز – قسط اول


ڈاکٹر مشتاق احمد مانگٹ کی کتاب ”بنی اسرائیل سے اسرائیل تک“ قسط وار مضامین کی صورت میں پیش کی جا رہی ہے۔ یہ کتاب اسرائیل کی قدیم تاریخ سے جدید دور تک کا ایک مختصر احاطہ کرتی ہے۔

حرف آغاز

فلسطین ایک قدیم خطے زمین ہے جہاں انسان نے صدیوں پہلے رہنا شروع کیا تھا۔ اس خطے کی تاریخ اور موجودہ دور میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے مسائل کا ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔

میں نے فلسطین کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے جن میں پہلا قبل مسیح کا دور ہے جب پہلی مرتبہ اس علاقے میں یہودیوں کی ریاست قائم ہوئی۔ دوسرا دور پہلی صدی عیسوی سے ساتویں صدی عیسوی تک کاہے۔ یہ وہ دور ہے جب فلسطین پر رومی عیسائی حکمران تھے۔ تیسرا دور وہ ہے جب یروشلم کو مسلمانوں نے فتح کیا اور اس پر تیرہ صدیوں تک حکومت کی، یہ دور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک کا ہے۔ چوتھا دور وہ ہے جب یہ علاقہ انگریزوں کے قبضے میں آیا اور یہودیوں کے یہاں آ کر آباد ہونے سے موجودہ جنگی صورت حال تک۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ انگریزوں کے دو رسے پہلے تک اس سارے خطے کو فلسطین کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1948 میں پہلی مرتبہ فلسطین کے دو حصے کر کے ایک کو اسرائیل کا نام دیا گیا۔ اس لیے میں اس خطے کی تاریخ بیان کرتے ہوئے 1948 سے پہلے کے واقعات کو بیان کرنے کے لیے فلسطین کا لفظ ہی استعمال کروں گا۔

فلسطین سے پہلے بھی اس خطے کے کئی نام تھے جن کا ذکر اس مختصر مضمون کے احاطے سے باہر ہے۔ مولانا مودودیؒ نے بھی سورہ روم کی تشریح کرتے ہوئے اس علاقے کا نام فلسطین ہی لکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو تاریخ کی طرف لے کر جاؤں میں آپ کو اس علاقے کے جغرافیے کا کچھ احوال بتانا چاہوں گا۔ اس علاقے کے قرب و جوار کا علم آپ کے لئے اس علاقے کی تاریخ سمجھنے میں مفید ثابت ہو گا۔

حدود اربعہ فلسطین

اگر آپ دنیا کے نقشے کو دیکھیں تو آپ کو ایشیاء کے مغربی حصہ میں ایک بہت بڑا جزیرہ نظر آئے گا۔ جسے جزیرہ عرب بھی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ سعودی عرب کا تعارف کرواتے ہوئے اسے جزیرہ نما عرب کے نام سے بھی متعارف کرواتے ہیں۔ اس جزیرے کے مشرق میں خلیج فارس اور مغرب میں بحیرہ قلزم ( جسے بحیرہ احمر (Red Sea) بھی کہتے ہیں ) موجود ہے۔ اس کے جنوب میں بحیرہ عرب جبکہ شمال میں بحیرہ روم (Mediterranean Sea) واقع ہے۔ اس خطے کو عام طور پر مغربی ایشیاء بھی کہا جاتا ہے۔ یاد رہے ایشیاء کو جغرافیائی طور پر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ؛ مشرقی ایشیاء، جس میں چین سے جاپان تک کے ممالک آتے ہیں، شمالی ایشیاء جس میں روس واقع ہے، جنوب مشرقی ایشیاء، جس میں بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور افغانستان ہیں، مغربی ایشیاء جو ایران سے شروع ہو کر عرب ممالک سمیت اسرائیل تک ہے۔ پانچواں حصہ وسط ایشیاء پر مشتمل ہے جس میں قازقستان اور ازبکستان وغیرہ واقع ہیں۔ انھیں وسطی ایشیائی ریاستیں بھی کہا جاتا ہے۔

جزیرہ عرب کے مشرق میں خلیج فارس، خلیج کے دوسری طرف ایران، مغرب میں بحیرہ احمر اس کے پار مصر اور سوڈان جبکہ شمال میں عراق، شام، بیروت، اردن، اسرائیل اور فلسطین کے ممالک واقع ہیں۔ یہ ممالک ایک طرف سے براعظم افریقہ، یورپ اور ایشیاء کے سنگم پر واقع ہیں۔

اگر آپ فلسطین اور اسرائیل کے علاقوں کو دیکھیں تو آپ کو بھی یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہی لگے گا۔ فلسطین کے مشرق میں دریائے اردن اور بحیرہ مردار (Dead Sea) موجود ہے۔ مغرب اور شمال مغرب میں بحیرہ روم واقع ہے۔ جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے (جس کے ساتھ شرم الشیخ واقع ہے، جو کہ مصر کا ایک مشہور سیاحتی شہر ہے۔ )

فلسطین افریقہ اور ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے۔ یورپ اور اس کے درمیان بحیرہ روم موجود ہے۔ ایک طرح سے اسے دنیا کا مرکزی حصہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ فلسطین کی لمبائی 470 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 130 کلومیٹر ہے۔ شمال اور جنوب میں اس کی چوڑائی بہت کم ہو جاتی ہے۔

اس مختصر تذکرے سے آپ کو یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ فلسطین ایشیاء کے انتہائی مغرب میں واقع ہے اور ایشیاء کا ہی حصہ ہے جبکہ اس کے چاروں اطراف عرب ممالک واقع ہیں

فلسطین اور اسرائیل کے اہم شہر

فلسطین اور اسرائیل کے چند شہروں کا تذکرہ بھی اس خطے کی تاریخ سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

یروشلم:ایک قدیم اور مقدس شہر

یروشلم اس علاقے کا ایک اہم ترین شہر ہے اور اس خطے کے مرکز میں واقع ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں قبلہ اول یعنی مسجد القدس موجود ہے۔ یہودیوں کے نزدیک مقدس ترین مقام (دیوار گریہ) اور عیسائیوں کا ایک اہم اور تاریخی گرجا گھر بھی یہیں موجود ہے۔

یہ شہر بحیرہ روم اور بحیرہ مردار کے درمیان جو ڈین پہاڑی پر واقع ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ واحد شہر جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والے تینوں مذاہب؛ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مقدس مقامات موجود ہیں۔ ماضی میں ان تینوں مذاہب کے ماننے والوں نے اس شہر پر قبضے کے لیے آپس میں کئی جنگیں بھی لڑیں ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس شہر کی آبادی آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ اس کا کنٹرول مشترکہ طور پر فلسطین اور اسرائیل کے پاس ہے۔ ایک طرح سے یہ ایک انٹرنیشنل شہر بھی مانا جاتا ہے۔

یروشلم میں پائے جانے والی مختلف عمارتوں اور کھنڈرات سے ماہرین یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس شہر میں دو ہزار سے تین ہزار قبل مسیح تک لوگ آباد تھے۔ کئی ہزار سال قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں پہلا ہیکل ( عبادت کی جگہ ) تعمیر کیا گیا جسے ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ اس کی باقیات میں سے ایک دیوار کو دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آپ کو یہودی بیٹھے نظر آتے ہیں۔ یہ مقام آل یہود کے نزدیک ایک مقدس ترین مقام ہے۔

ہیکل سلیمانی کو کئی بار تباہ کیا گیا اور بار بار بنایا بھی گیا۔ اس کی ایک طویل تاریخ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ قبل مسیح کے دور میں یروشلم یونانی حکمرانوں کے تحت بھی رہا اور بخت نصر کے لوگ بھی اس پر حکمران رہے۔ پھر ایک وقت آیا جب پہلی صدی عیسوی میں یہ شہر اہل روم کے قبضے میں آ گیا۔ اسی دور میں یہاں پر ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کیا گیا۔ تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس دور میں شہر میں کئی اہم عمارتیں بھی تعمیر کی گئیں۔ جن میں سے اکثر اب بھی موجود ہیں۔

یروشلم کا تبوک سے فاصلہ پونے پانچ سو کلومیٹر، قاہرہ سے ساڑھے سات سو کلومیٹر، عمان سے دو سوبیس کلومیٹر، بیروت سے چار سو تیس کلومیٹر اور دمشق سے یہ شہر سوا تین سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اردن اور فلسطین کی سرحد کے درمیان دریائے اردن بہتا ہے جو اڑھائی سو کلومیٹر طویل ہے۔ یہودی اسے ایک مقدس دریا بھی سمجھتے ہیں۔

اسی شہر میں مسجد اقصی (مسلمانوں کا قبلہ اول جو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے ) بھی مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔ قرآن مجید کی سورت الاسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر کیا ہے۔ جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے :

”وہ پاک ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے“ ۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔

احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شامل ہیں۔ یہی وہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جس کی طرف نماز کی فرضیت کے بعد 16 کئی ماہ تک مسلمان اپنا رخ اسی طرف کر کے ہی نماز ادا کرتے تھے۔ پھر ایک دن دوران نماز تحویل قبلہ کا حکم آیا اور مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہو گیا۔

میں نے اس شہر کی تفصیل جاننے کی کوشش کی تو مجھے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر زبیر احمد صاحب کا ایک مضمون، جس کا عنوان تھا ”اسرائیل جہاں فصیل کے اندر الگ دنیا آباد ہے“ جو فروری 2018 کو شائع ہوا، ملا اس مضمون کی مدد سے میں جو کچھ سمجھ سکا پیش خدمت ہے۔

یروشلم کے دو حصے ہیں ؛ ایک پرانا شہر جو فصیل کے اندر ہے جہاں جانے کے لیے آٹھ دروازے بنائے گئے تھے۔ اکثر مقدس مقامات یہیں پر موجود ہیں۔ اس کی مثال اندرون لاہور کی سی ہے جبکہ دوسرا بیرونی علاقہ ایک جدید شہر کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اندرون شہر کی تنگ گلیاں اس کے طرز تعمیر کی نشاندہی کرتی ہیں۔ تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ گیارہویں صدی میں جب صلیبی جنگجو اس شہر میں داخل ہوئے تو انہوں نے ساٹھ ہزار سے زائد مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس علاقے میں ایسے مکانات بھی پائے جاتے ہیں جو عرب اسرائیل جنگ سے قبل نصف اسرائیل اور نصف اردن میں تھے۔ یروشلم دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے نزدیک صدیوں سے مقدس رہا ہے۔ اس لیے دنیا بھر سے یہاں پر زائرین کی ایک بڑی تعداد آتی ہے۔ دنیا بھر سے تینوں مذاہب کے ماننے والے سیاح یروشلم آتے ہیں۔

ایک مدت سے اسرائیل کا یہ کہنا ہے کہ یروشلم پر ان کا حق ہے اور یہ شہر اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے ان کے مطالبے کی حمایت بھی کی لیکن ابھی تک یہ معاملہ حل نہیں ہوا۔ اس طرح فی الحال یروشلم پر فلسطین اور اسرائیل دونوں کا قبضہ ہے۔ مشرقی حصہ فلسطین کے اور مغربی حصہ اسرائیل کے پاس ہے۔ فلسطین کے لوگوں کو اسرائیل جانے کے لیے اسرائیلی حکومت کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےبنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز: قسط نمبر 3

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments