رحمت للعالمین اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز اکرم کون ہیں؟


اعجاز اکرم
’ڈاکٹر اعجاز اکرم آخر ہیں کون؟ کیا ان کی بائیو شیئر کر سکتے ہیں تاکہ ہم بھی ان کے بارے میں کچھ جان پائیں؟‘

یہ سوال ٹوئٹر پر ایک خاتون صارف نے وزیر اعظم کے معاون ڈاکٹر ارسلان خالد سے اس وقت پوچھا جب ان کی جانب سے ڈاکٹر اعجاز اکرم کو رحمت للعالمین اتھارٹی کا چیئر پرسن تعینات کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔

اس اعلان پر کچھ لوگ اس خاتون کی طرح ان صاحب کے بارے میں جاننے کے لیے مشتاق نظر آئے، تو کچھ ان کی ذہانت اور قابلیت کی تعریف کرنے لگے۔

اعجاز اکرم ہیں کون؟

اعجاز اکرم لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں مذہب اور سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر رہے ہیں۔

وہ مذہب اور مسلم دنیا کی بین الاقوامی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے امیریکن یونیورسٹی کے سکول آف انٹرنیشنل سروسز سے تقابلی اور علاقائی علوم میں ایم اے کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

انھوں نے دنیا بھر میں کئی فورمز میں لیکچر دیے اور سنہ 2000-2002 تک امیریکن جرنل آف اسلامک سوشل سائنسز کے منیجنگ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

رحمت للعالمین اتھارٹی کیا ہے؟

پاکستان کے وزیر اعظم نے عمران خان نے 12 ربیع الاول کو رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس کے ذریعے بچوں اور بڑوں کو سیرت النبی پڑھانے کا طریقہ کار طے کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے اتھارٹی کی نگرانی خود کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کے بہترین مذہبی اسکالر کو چیئرمین بنایا جائے گا جو اسلام سے متعلق دنیا کو آگاہ کرے گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اس اتھارٹی کے ذریعے اسکولوں کے نصاب کی نگرانی کی جائے گی۔

پاکستان کے صدر عارف علوی کے جاری کردہ آرڈیننس کے مطابق رحمت اللعالمین اتھارٹی ایک چیئرمین اور چھ ارکان پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کا مشاورتی بورڈ سہ ماہی بنیادوں پر کم از کم ایک بار اجلاس کرے گا۔

سرکاری طور پر بتائی کی تعریف کے مطابق یہ اتھارٹی ہے نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے سیرت النبی اور احادیث پر تحقیق کرے گی۔ اس کے علاوہ سیرت نبوی کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے اتھارٹی متعلقہ ماہرین سے مشاورت کرے گی اور اسے دنیا کے سامنے اسلام کی وضاحت کا کام بھی سونپا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

حقانی اگر قبیلہ نہیں تو کون ہیں؟ عمران خان کی طرف سے ان کو ’پشتون قبیلہ‘ کہنے پر شدید بحث

اقتصادی مشاورتی کونسل کے ایک اور رکن احتجاجاً مستعفی

اعظم خان کون ہیں؟

سوشل میڈیا پر رد عمل

سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کے خیال میں ڈاکٹر اعجاز اکرم ایک قابل انسان ہیں جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے نظریات اور خیالات کی وجہ سے محض ‘زید حامد کا انگریزی ورژن ہیں۔’

کچھ صارفین نے ان کے پرانے کلپس اور مضامین شیئر کر کے ان کے نظریات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی۔

ان کلپس میں سے ایک میں انھیں پاکستان کی مختلف قوم پرست تحریکوں کو ‘فنڈڈ’ قرار دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تقریب کے دوران خطاب میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ‘پاکستان کے دشمن سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو تھوڑا تھوڑا کر کے توڑتے رہیں گے حتی کہ کچھ باقی نہیں رہے گا۔ پختون علاقوں میں پی ٹی ایم ہے، جنوبی پنجاب میں میں لوگ ہیں جو کہتے ہیں یہ ایک مختلف علاقے اور ریاست سے جغرافیائی طور پر، اور جئے سندھ موومنٹ ہے، یہ سب کسی نہ کسی کی جانب سے فنڈڈ ہیں۔’

کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ نئی اتھارٹی کے چیئر مین کے خیال میں ‘چین میں اویغور مسلمانوں کا دبایا جانا محض مغربی پروپیگینڈا ہے۔’

https://twitter.com/MJibranNasir/status/1468489574523584517

ایک دوسرے ویڈیو کلپ میں وہ ایک انٹرویو کے دوران کہتے ہیں ‘ملک میں بہت گھناؤنے جرم ہو رہے ہیں، ملک کو لوٹ کر کھایا گیا ہے، ان کا براہ راست تعلق ہے لوگوں کی قدروں کے ساتھ، ان کے عقائد اور اقدار کے ساتھ، جیسے آپ دیکھیں ہانگ کانگ میں ہوا چین کے ساتھ، جیسے تائیوان میں ہوا۔ ایک علاقہ ان سے چھین لیا گیا چین کا۔ جیسے سکنکیانگ میں ہوا، باہر کی قوتیں اس میں کردار ادا کر رہی ہیں جو غلط معلومات کے ذریعے سیاسی نتائج حاصل کر لیتی ہیں۔ یہ ایک سکیورٹی رسک بھی ہے۔‘

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اعجاز اکرم جمہوری حکومت کے حامیوں میں شامل نہیں ہیں۔ ان کا ایک مضمون بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں انھوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ فوج کو سویلین سیاستدانوں کی حمایت کرنے کے بجائے خود اقتدار چلانا چاہیے۔

اعجاز اکرم کے نظریات سے ناخوش صارف امتیاز احمد نے سابقہ تدریسی ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ‘ ہم سمجھتے تھے کہ لمز میں بڑے بڑے دماغ پڑھاتے ہوں گے۔۔۔ اس سے تو جامشورو پھاٹک کے چائے والے بھی سیاست اور جغرافیہ کو بہتر سمجھتے ہیں۔’

جمشید حسن نامی صارف کے خیالات بھ کچھ ایسے ہی تھے، ان کا کہنا تھا ‘ایک شخص پی ایچ ڈی کر سکتا ہے اور پھر بھی احمق رہتا ہے۔ یہ بات آج سمجھ آئی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments