ٹائپ ون ذیابیطس کے میدان میں نئی پیش رفت



ذیابیطس کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ذیابیطس ٹائپ ون انسانی جسم کے دفاعی نظام کے اپنے ہی جسم کے غدود پر حملے کے باعث ہوجاتی ہے۔ یہ خلل جینیاتی طور پر ماں باپ سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ ذیابیطس کی پہلی قسم کا علاج صرف انسولین سے ممکن ہے۔ اس میدان میں کافی تحقیق ہو رہی ہے۔ 2021 میں محض چند ماہ پہلے ہی Vertex Pharmaceuticals نے اعلان کیا ہے کہ اس کی تحقیقاتی اسٹیم سیل سے ماخوذ متبادل تھراپی اور امیونوسوپریسیو تھراپی کے ساتھ کلینیکل ٹرائل میں مریضوں میں لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کو دوبارہ پیدا کرنے میں مدد کر رہی ہے۔

اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ڈگلس میلٹن ہیں جن کے دو بچے ہیں۔ ان دونوں بچوں کو ٹائپ ون ذیابیطس ہے۔ ان کے بیٹے میں جب ٹائپ ون تشخیص ہوئی تو وہ صرف چھ ماہ کا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر میلٹن نے ذیابیطس کے میدان میں تحقیق شروع کی۔ اس سے پہلے وہ مینڈکوں کی نشو و نما پر تحقیق کر رہے تھے لیکن اپنے بچوں میں ذیابیطس کی تشخیص کے بعد انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر یہ علاج اگلے بڑے کلینکل ٹرائلز میں بھی کامیاب رہا اور اس کے کوئی نقصان دہ سائڈ افیکٹ نہ ہوئے تو اس سے ذیابیطس کی پہلی قسم کے لاکھوں مریضوں کی زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ان مریضوں کی روز انسولین کے ٹیکوں سے بچت ہوگی۔

حالانکہ ذیابیطس کے بارے میں ہم ہزاروں سالوں سے باخبر تھے لیکن 1921 تک اس کا غذا اور ورزش کے علاوہ کوئی علاج دریافت نہیں ہوا تھا۔ ہر سال لاکھوں افراد ٹائپ ون ذیابیطس سے مر جاتے تھے۔ ایک ٹائپ ون ذیابیطس کے مریض کی اوسط عمر انسولین کے بغیر محض 12 مہینے ہے۔ انسولین نے بہت سی جانیں بچائی ہیں۔ اب بہت صاف اور بہتر انسولین دستیاب ہیں لیکن سوچیں کہ اگر انسولین بنانے والے خلیے دوبارہ سے پیدا کیے جاسکیں تو اس سے کتنے انسانوں کی زندگی آسان ہو جائے گی۔

آج کے مضمون کو لکھنے کے لیے ڈاکٹر ڈگلس میلٹن کے حالیہ انٹرویو سے معلومات شامل کی گئی ہیں جو انہوں نے ہارورڈ گزٹ کو دیا۔ گزٹ کے ساتھ بات چیت میں، ڈاکٹر میلٹن نے حالیہ پیشرفت کے پیچھے سائنس، آگے آنے والے چیلنجز، اور اپنی تحقیق کے ذاتی پہلو پر تبادلہ خیال کیا۔ ڈاکٹر میلٹن اس پراجیکٹ پر قریب پندرہ سال سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ پانچ سال لگیں گے لیکن اس کے لیے توقع سے زیادہ پیسے اور افراد کی ضرورت پڑی۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ماں کے بیضے اور باپ کے سپرم سے مل کر ایمبریو بنتا ہے۔ یہ ایمبریو ایک خلیہ ہوتا ہے جو لاکھوں خلیوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ جسم کے مختلف اعضاؑ اور غدود مختلف طرح کے کام کرتے ہیں۔ سائنسدانوں نے اس بات پر سوچ بچار کی کہ کس طرح یہ ایک خلیہ ان تمام لاکھوں مختلف خلیوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کچھ خلیے بنتے رہتے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے نہیں بنتے رہتے۔ جیسا کہ خون کے سرخ یا سفید جسیمے ہڈیوں کے گودوں سے مستقل بن کر نکلتے رہتے ہیں۔ پرانے خلیے مرتے جاتے ہیں اور نئے خلیے ان کی جگہ لیتے ہیں۔ لیکن لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیے جب ٹائپ ون مریضوں میں تباہ ہو کر ختم ہو جاتے ہیں تو ان کی جگہ نئے خلیے پیدا نہیں ہوتے۔

سائنسدانوں نے سوچا کہ ان کو یہ ابتدائی سطح کے خلیے استعمال کر کے ان کو اپنی مرضی کے خلیوں میں بدلنے پر کام کرنا چاہیے۔ ان ابتدائی سطوحات کے خلیوں کو اسٹیم سیلز کہتے ہیں۔ اسٹیم سیلز ایمبریو سے بھی لیے جا سکتے ہیں اور بالغ انسانوں سے بھی۔ اس کے علاوہ بچے کو ماں سے جوڑنے والی امبلیکل کورڈ سے بھی یہ خلیے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اسٹیم سیل ایک خام مال کی طرح وہ خلیے ہوتے ہیں جو مختلف طرح کے خلیوں میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بالغ انسانوں میں یہ خلیے ہڈیوں کے گودے اور چکنائی کے خلیوں سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

جن جوڑوں میں انفرٹیلیٹی کا مسئلہ ہو، ان میں اسپرم اور بیضے کو لیبارٹری میں جوڑ کر ایمبریو بنائے جاتے ہیں۔ اس طریقے سے پیدا ہوئے بچوں کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کہا جاتا ہے۔ ایک حمل ٹھہرانے کے لیے کئی ایمبریو بنائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک یا دو ہی رحم میں داخل کیے جاتے ہیں۔ ان بقایا بچے ہوئے ایمبریو سے یہ سیل حاصل ہوسکتے ہیں لیکن اس بارے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور کافی لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک ایمبریو کے خلیوں کو اس طرح استعمال کرنا غیر اخلاقی ہے۔

صدر بش جونیئر نے ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں ان کے ساتھ کچھ بچے کھڑے تھے۔ یہ سب بچے ٹیسٹ ٹیوب بچے تھے جنہوں نے کہا کہ وہ دوسرے لوگوں کے لیے ایکسٹرا پرزے یا باڈی پارٹس نہیں ہیں۔ اس سوال پر اب تک بحث جاری ہے کہ کیا ایک ایمبریو جو نہ ہی ابھی مکمل انسان ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا، کیا اس کو دوسرے بیمار انسانوں کی زندگی اور صحت کے لیے استعمال کرنا درست ہو گا؟

ڈاکٹر میلٹن نے کہا کہ ان کا یہ سارا کام نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی روایتی مدد کا استعمال کرتے ہوئے بالکل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سب سے پہلے، NIH گرانٹس سخت پابندیوں کے ساتھ آتی ہیں اور دوسری بات، اس طرح کا ایک طویل المدتی پروجیکٹ ایک سے تین سال کے پروجیکٹ کے لیے دی جانے والی ابتدائی گرانٹ سپورٹ سے مکمل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں ہمیشہ کے لیے شکر گزار ہوں اور خوش قسمت محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک نجی ادارے میں ہوں جہاں انسان دوستی نہ صرف مددگار تھی، بلکہ اس سے تمام فرق پڑا۔

اس مضمون میں صرف ذیابیطس اور لبلبے کے انسولین بنانے والے جزائر کے بارے میں بات کی گئی ہے، لیکن ان تمام دیگر بیماریوں کے بارے میں سوچیں جن میں لوگ مبتلا ہیں۔ اس شعبہ میں فیکلٹی اور طلباء موجود ہیں جو دل، اعصاب، پٹھوں، دماغ، اور دیگر اعضاء پر کام کر رہے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر کہ کس طرح سیل اور ٹشو کی نشوونما اس بات پر اثر انداز ہوتی ہے کہ ہم کون ہیں اور بیماری کس طرح کی ہے۔ یہ شعبہ انتہائی دلچسپ ہے کیونکہ یہ کچھ ایسے سوالات کے جواب تلاش کر رہا ہے جیسے آپ اعضاء کو دوبارہ کیسے تخلیق کر سکتے ہیں؟ اس شعبہ کی بنیاد اس خیال کے ساتھ رکھی گئی تھی کہ نہ صرف آپ کو فطرت کے بارے میں سوالات پوچھنے اور جواب دینے چاہئیں، بلکہ یہ نتائج مختلف بیماریوں کے نئے ممکنہ علاج کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر میلٹن کی ٹیم نے اسٹیم سیل سے ماخوذ ریپلیسمنٹ تھیراپی خلیے اس پہلے مریض میں ڈالے ہیں جس سے پہلے اس مریض کو ایسی دوائیں دی گئیں جو جو مریض کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ بیرونی خلیوں کو ہمارا مدافعتی نظام تباہ کر دیتا ہے اسی طرح وہ ہمیں بیماری سے بچاتا ہے۔ اب یہ سائنسدان کوشش میں ہیں کہ کس طرح جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے ایسے خلیات بنانے کا طریقہ تلاش کریں جنہیں ہمارا مدافعتی نظام بیرونی نہ سمجھے۔

ایسا ہونا ممکن ہے۔ جب ایک عورت کے ہاں بچہ ہوتا ہے، تو اس بچے میں جین کے دو سیٹ ہوتے ہیں۔ اس میں انڈے سے، ماں کی طرف سے جینز ہوتے ہیں، جنہیں ”خود“ کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، لیکن اس میں باپ کے جینز بھی ہیں، جو کہ ”غیر خود“ ہوں گے۔ ماں کا جسم ان بیرونی جینز کو رد کیوں نہیں کرتا؟ اگر ہم اس کا پتہ لگا سکتے ہیں، تو اس سے ہمیں یہ سیکھنے میں مدد ملے گی کہ ہمارے سٹیم سیل سے حاصل ہونے والے خلیوں میں کون سے جین تبدیل کیے جائیں تاکہ وہ کسی بھی شخص میں جا سکیں۔ یہ صرف ذیابیطس کے لیے ہی نہیں، بلکہ ان خلیوں کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا جنہیں آپ جگر یا دل کی پیوند کاری کے لیے ٹرانسپلانٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امیون سسٹم کو دبانے کی دواؤں کی فکر نہ کرنی پڑے۔ اس فیلڈ میں سامنے آنے والے نتائج بیماریوں کے علاج کے طریقوں کا دھارا بدل سکیں گے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کا تعارف:

امریکن ایسوسی ایشن آف کلینکل اینڈو کرنالوجسٹس (AACE) سے 2021 میں ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے سندھ یونیورسٹی، چانڈکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس (MBBS) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سول ہسپتال لاڑکانہ میں سائیکائٹری (Psychiatry) میں ہاؤس جاب کی۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف پٹسبرگ مرسی ہسپتال میں انٹرنل میڈیسن میں ریزیڈینسی کی۔ ریذیڈنسی مکمل کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف اوکلاہوما سے اینڈوکرینالوجی میں 2010 ءمیں فیلوشپ مکمل کی۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے 2014 میں ہارورڈ میڈیکل اسکول سے جی سی ایس آر ٹی (Global clinical research scholar training program۔ GCSRT) کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔ وہ انٹرنل میڈیسن اور اینڈوکرنالوجی، ذیابیطس اور میٹابولزم (Endocrinology، Diabetes and Metabolism) میں امریکن بورڈ سرٹیفائیڈ ہیں اور آج کل نارمن ریجنل ہسپتال (Norman Regional hospital) میں اینڈوکرنالوجسٹ اور ذیابیطس اسپیشلسٹ ہیں۔ وہ لن انسٹیٹیوٹ (Lynn Institute) کے ساتھ ریسرچ کے میدان میں بھی کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کلینکل پروفیسر بھی ہیں۔ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے کئی آرٹیکل لکھے ہیں جو میڈیکل جرنل اور میگزین میں چھپ چکے ہیں۔ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا آج کل امریکی ریاست اوکلاہوما کے شہر نارمن میں رہائش پذیر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments