اب کشور کشائی تلوار سے نہیں علم سے ہوتی ہے


\"\"

کوئی 26 لاکھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ ایک مفکر جب ایک ہرن کے پیچھے دوڑ دوڑ کر نڈھال ہو گیا تو یاس و حسرت کے عالم میں اس نے پاس پڑا نوکیلا پتھر اٹھا دور بھاگتے ہرن کو دے مارا۔ نوکیلا پتھر ہرن کی جلد میں پیوست ہوا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ مفکر قریب گیا اور پتھر اٹھا کر غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس کے نوکیلے سرے کو دو چار مرتبہ ہرن کو مارا تو ہر مرتبہ ایک نیا گھاؤ لگا۔ یوں پتھر کا زمانہ شروع ہوا۔ اس موجد نے پتھر کی کلہاڑی خنجر وغیرہ بنائے اور شکار پر گزارا کرنے والے انسانی قبائل کے ہاں گوشت کی خوب افراط ہوئی اور ان کی نسل بڑھنے لگی۔ اس پتھریلے انقلاب سے انسانی نسل ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔

بیس لاکھ سال یونہی گزر گئے۔ اب پتھر کے اوزار بنانے کی صنعت ایسی باریک ہوئی کہ ڈینٹسٹ حضرات کے لئے بھی پتھر کے اوزار تیار ہونے لگے۔ جونہی پتھر سے مارے شکار کا کچا پکا سا گوشت کھا کر کسی شریف جنگلی آدمی کے دانت جواب دیتے تو پتھر کا بنا ہوا ہائی پریسیژن ہتھوڑا مار کر اس شخص کے دانت کا درد دور کر دیا جاتا۔ اسے پتھر کا آخری زمانہ کہا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں ایک نیا انقلاب آیا۔

کوئی دس ہزار سال قبل ان جنگلی پھل ڈھونڈ کر کھانے اور جنگلی جانوروں کا شکار کرنے والے انسانوں نے دریافت کیا کہ زمین میں اگر کسی شے کا بیج ڈال دیا جائے تو وہ اگ کر پودا بن جاتا ہے۔ یوں زرعی انقلاب شروع ہوا۔ انسان نے فصلیں اگانے پر مہارت حاصل کی اور گاؤں اور شہر بسانے لگے۔ اب پرانے انسان تو سارا دن بھاگ دوڑ کر کے پیٹ پوجا کا بندوبست کیا کرتے تھے، مگر یہ زرعی انسان ہفتہ دس دن لگا کر فصل بو دیتے اور تین چار مہینے بعد جا کر کاٹ آتے اور سال بھر کے کھانے کا بندوبست ہو جاتا۔ اب ان کے پاس وقت کی فراغت ہوئی تو وہ الٹی سیدھی باتیں سوچنے لگے اور یوں ان میں دانشور پیدا ہوئے۔ کوئی دانشور موجد بن گیا اور کسی نے فلکیات کا علم پایا اور کوئی شامان بن گیا اور مختلف دیوی دیوتاؤں سے ویسے ہی عوام الناس کو ڈرانے لگا جیسا کہ آج کل ٹی وی اینکر ڈراتے ہیں۔

زرعی انقلاب سے خوراک بڑھی اور اس کے نتیجے میں انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔ فارغ انسان نے مختلف تجربات کیے اور یوں دنیا پتھر کے زمانے سے دھاتی دور میں پہنچ گئی۔ اب کچھ انسان نہایت نکمے اور بے صبر تھے۔ وہ فصل بونے کاٹنے کی بجائے اپنے دھاتی ہتھیار اٹھا کر لشکر بناتے اور ان قریوں اور شہروں پر حملہ کر کے ان کا ذخیرہ کیا ہوا اناج اور اناج کے پاس گھروں میں ذخیرہ کی ہوئی خواتین کو اٹھا کر لے جانے لگے۔ یوں سلطنتیں وجود میں آئیں اور انسانی تہذیب نے ایک نیا موڑ لیا۔

اب ہوتا یوں کہ چین یا روم یا ایران یا ہندوستان کی سلطنتیں خوب محنت سے فصلیں اگاتی اور مصنوعات بناتیں اور مختلف صحراؤں سے وحشی قبائل آتے اور ان کو لوٹ کر لے جاتے۔ اگر کسی سبب سے قبائل کو لوٹ مار کرنے میں دیر ہوتی تو یہ سلطنتیں خود ہی ایک دوسرے پر حملہ کر کے مال غنیمت سے خود کو امیر کرتیں اور اپنی نسل بڑھاتیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح آج کے نوجوان ’کال آف ڈیوٹی‘ وغیرہ نامی کمپیوٹر گیمیں کھیل کر ایڈوینچر کا شوق پورا کرتی ہیں ویسے پرانے زمانے میں نوجوان اصل لوٹ مار کر کے دولت اور عزت حاصل کرتے تھے۔

کبھی صحرائے عرب سے قبائل نمودار ہوتے اور کابل سے قرطبہ تک کی دولت لوٹ کر اپنے استعمال میں لاتے تو کبھی صحرائے گوبی سے چنگیز خان اٹھتا اور بغداد پہنچ کر راحت افزا سامان یعنی مال و دولت اور کنیزیں وغیرہ استعمال میں لاتا اور بے کار قسم کی چیزوں مثلاً کتابوں وغیرہ کو جلا کر پارٹی کرتا۔

ابھی یہ موج میلا جاری ہی تھا کہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ نامی ایک انقلابی تبدیلی آنے لگی۔ طے شدہ امور کے منکر ایجادات کرنے پر تل گئے اور علم بڑھانے لگے۔ کرنا خدا کا یوں ہوا کہ گٹن برگ نامی ایسے ہی ایک شریر انسان نے اسی زمانے میں مشینی چھاپہ خانہ ایجاد کر لیا اور یوں ہر قماش کے لوگ کتابیں لکھنے پڑھنے لگے اور اپنا علم ایک دوسرے کو سکھانے پر تل گئے۔

تنیجے میں ایک اور انقلاب آیا جسے سائنسی انقلاب کہتے ہیں۔ الٹی سیدھی ایجادات بھی ہونے لگیں تو ہر ایرا غیرا فلسفی اور مفکر بھی بن گیا۔ ایک صاحب زمین کو زبردستی سورج کے گرد گھمانے لگے تو دوسرے نے انسانوں میں دوران خون دریافت کیا۔ تیسرے نے آکسیجن دریافت کی تو چوتھے نے حکم لگایا کہ ہر عمل کا رد عمل اسی عمل جتنی قوت کا ہوا کرتا ہے۔ ایک صاحب نے تو چائے ابالتے ابالتے سٹیم انجن ہی بنا ڈالا۔

یوں اگلا انقلاب آیا جسے صنعتی انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب ایسے کام مشینوں کی مدد سے کیے جانے لگے جو پہلے انسان ذاتی طور پر ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ یوں مشینی مصنوعات کو دوسرے ملکوں میں بیچ بیچ کر ان سے دولت کمائی جانے لگی اور لشکروں کو بھی جدید مشینی ہتھیار تھما کر دنیا فتح کرنے پر لگا دیا گیا۔

اب انسانوں کو لونڈی غلام بنانے کا رواج تو کم ہونے لگا تھا مگر قوموں اور ملکوں کو غلام بنایا جاتا تھا۔ کسی جگہ افیم اعلی کوالٹی کی ملتی تھی تو اس ملک پر قبضہ کر کے افیم کی پیداوار پر اجارہ حاصل کیا جاتا تھا اور دوسرے ملک کو زبردستی افیم بیچ کر اس سے چائے، چینی کے نفیس برتن اور ریشمی کپڑے وغیرہ لے لئے جاتے تھے۔ یوں ہندوستانی افیم کے صدقے دنیا جدید اور مہذب ہونے لگی۔

سب اچھا چل رہا تھا کہ ہٹلر نامی ایک فسادی نے دنیا بھر میں جنگ چھیڑ دی اور عجیب عجیب مشینیں بنا دیں جن کے کوڈ کیے ہوئے پیغام سمجھنا آسان نہ تھا۔ اس کی مخالف طاقتوں نے حسد میں آ کر ان پیغامات کو سمجھنے کی کوشش میں جوابی مشینیں بنانی شروع کر دیں۔ یوں کمپیوٹر ایجاد ہوا اور بنی نوع انسان کو اب معلوماتی انقلاب سے دوچار ہونا پڑ گیا۔ سنہ ستر کی دہائی میں یہ کمپیوٹر عام انسانوں کی میزوں پر آیا تو سنہ نوے کی دہائی میں یہ موبائل فون کی صورت میں ان کے ہاتھوں میں آ گیا۔

اب مال دولت کمانے کا ذریعہ جنگی ہتھیار نہ رہے بلکہ کمپیوٹر اور علم یہ وسیلہ بن گیا۔ ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھ کر اینگری برڈ بناتا اور دنیا بھر کے لوگوں سے اربوں روپے کما لیتا۔ دوسرا شخص اس کی مدد سے اوبر اور کریم ٹیکسی سروس بناتا اور پنجاب حکومت اس پر پابندی لگا دیتی۔ اب امیر ہونے کے لئے شرط یہ قرار پائی کہ جس قوم کے پاس علم ہو گا، وہی روپے پیسے میں بھی کھیلے گی اور اسی کی فوج بھی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہو گی اور وہ سپر پاور کہلائے گی۔

زمانے کی ہوا ایسی بدلی کہ ایک طرف جوش و جذبے سے لیس ہزاروں رستموں کا گروہ کسی ترقی یافتہ ملک کو فتح کرنے نکلتا تو وہ ملک ایک ننھے سے کمپیوٹر کے پیچھے بیٹھے موٹا سا چشمہ پہنے اپنے مخنچو سے فوجی کو اس لشکر سے نمٹنے کا حکم دیتا جو ڈرون طیارے کے ذریعے ان رستموں کو ایک بٹن دبا کر صفحہ ہستی سے مٹا ڈالتا۔

ایک دوسرا شخص اپنا جدید علم کام میں لا کر انوکھا برگر بناتا اور علم کو کام میں لاتے ہوئے دنیا بھر کی قوموں کو بیچ ڈالتا اور سال کے اربوں روپے کماتا۔ ایک تیسرا شخص کوکا کولا بناتا اور دیس دیس کے بچے کو دیوانہ بنا دیتا اور ان کی جیبیں خالی کروا لیتا۔

تو صاحبو، بات بس یہ ہے کہ اب بہادری اور سرفروشی کا دور رخصت ہوا، اب علم و معیشت کا دور ہے۔ تمہارے پاس علم ہے تو تمہاری فوج بھی اعلی ترین ہو گی اور تمہیں جنگ لڑے بغیر بھی دشمن کو شکست دینے کی اہلیت حاصل ہو گی۔ اگر تم آج کے زمانے میں بھی شجاعت سے مغلوب ہو کر بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کی ضد کرتے رہو گے تو پھر تم ایسے ہی ڈوبو گے جیسا کہ ڈوبنے کا حق ہے کہ اب کشور کشائی تلوار سے نہیں علم سے ہوتی ہے۔ اب جسموں کو نہیں ذہنوں کو تسخیر کرنے کا دور ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments