تقریب پذیرائی سے پہلے ضروری تھا


وزیراعظم نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سری لنکن انجینئر کی جان بچانے والے پاکستانی شہری ملک عدنان کے اعزاز وزیراعظم ہاوٴس میں منعقد کی جانے والی تقریب پذیرائی کی ستائش ہر کوئی کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے ملک عدنان کی جوانمردی، جگر کاوی اور بے مثال بہادری کی بجا تعریف کی۔ ملک کے بیشتر حلقے اس بہادر جوان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ وزیراعظم نے اس موقعے پر ایک جذباتی خطاب بھی فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں مذہب کا انتہائی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا قیامت ہے کہ کوئی بھی کسی پر گستاخی کا الزام لگا کر موقعے پر عدالت لگا دیتا ہے اور اسے اذیت ناک طریقے سے قتل کر کے مذہبی نعرہ بازی شروع کر دیتا ہے۔ آئندہ جس نے بھی مذہب کا سوئے استعمال کیا میں اس کو نہیں چھوڑوں گا۔

ہم وزیراعظم کی اس بات سے سو فیصد متفق ہیں کہ مذہب کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم یہ دھمکی نما اعلان کرنے سے قبل دو کاموں سے علانیہ تائب ہو جاتے۔ ایک یہ کہ اپنی گفتگو سے ”میں“ کے لفظ کی تکرار ختم کر کے دھمکی آمیز بیانات سے اجتناب کرنے کا وعدہ کرتے۔ وزیراعظم انانیت، تکبر، احساس برتری، خود سری اور نرگسیت کے مرض میں بری طرح مبتلا ہیں۔ ورلڈ کپ جیتنے پر بھی انہوں نے اس کامیابی کا سہرا پوری ٹیم کے سر باندھنے کے بجائے یہی کہا تھا کہ آخر کار ”میں“ نے ورلڈ کپ جیت لیا۔

اپوزیشن میں تھے تو اس وقت بھی پولیس والوں، آئی جی اسلام آباد اور سیاسی مخالفین کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کے اعلانات کرتے تھے۔ رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر گھسیٹنے اور وزیراعظم نواز شریف کو وزیراعظم ہاوٴس سے خود باہر نکالنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ جو بڑھکیں انہوں نے دھرنے کے دوران میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر لگائی ہیں ان سے کون واقف نہیں۔ حکومت ملنے کے بعد بھی ان کا اسلوب نہیں بدلا اور اسی طرح نعرہ زن رہے۔

نوے دن میں کرپشن ختم کروں گا۔ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا۔ دو سو ارب ڈالر واپس لاوٴں گا۔ نواز خاندان کو نہیں چھوڑوں گا۔ چوروں، ڈاکووٴں کو سر عام لٹکاوٴں گا۔ اس طرح کی شیخیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ موصوف کو کوئی یہ بتا دے کہ مہذب اور قانون پسند معاشرے میں اس طرح کے کام ایک منصفانہ کارروائی سے گزر کر ادارے انجام دیتے ہیں۔ امریکہ، سویڈن، برطانیہ، یو اے ای اور دوسرے یورپی و مغربی ملکوں کے سربراہان کو ایسی بڑھکیں ہانکنے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے کہ وہاں ادارے اپنا کام دیانتداری سے کر رہے ہیں۔

کاش وزیراعظم ملک عدنان کو شاباش دینے سے قبل قانون ہاتھ میں لینے والی اپنی بڑھک بازی پر قوم سے معافی مانگتے۔ کاش وہ تحریک لبیک کے دھرنے کو روکنے کی کوشش میں شہید ہونے والے آٹھ پولیس اہلکاروں کے لواحقین اور زخمی ہونے والے سو کے قریب پولیس اہلکاروں کو بھی تقریب میں مدعو کرتے اور انہیں بھی تمغۂ شجاعت دینے کا اعلان فرماتے۔

وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ وہ مذہب کا غلط استعمال کر کے کسی کی جان لینے والے کو نہیں چھوڑیں گے۔ مگر کاش اس تقریب کے انعقاد سے قبل وہ پوری دیانتداری سے ماضی اور حال میں خود مذہب کے بھونڈے استعمال پر قوم سے معافی مانگتے اور مستقبل میں ایسا نہ کرنے کا عہد کرتے کیونکہ جنرل ضیا الحق کے بعد موجودہ حکومت نے مذہب کے استعمال کا سب سے زیادہ اور بھونڈا طریقہ اختیار کیا۔ یوں تو ہر کمزور حکمران مذہب کا استعمال کرتا ہے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیکولر حکمران نے بھی اس وقت سیاسی دباوٴ کے تحت مذہب کا سہارا لیا تھا لیکن جس برے طریقے سے مرد مومن مرد حق اور جدید ریاست مدینہ کے موجودہ ”امیر“ نے مذہب کو اقتدار کی سیڑھی کے لیے استعمال کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

وزیراعظم نے خود تو مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا ذمہ دار بقول جاوید احمد غامدی علمائے کرام اور اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا ہے لیکن اس ”نیک“ کام کے فروغ میں انہوں نے خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے۔ کاش وزیراعظم اس تقریب سے پہلے وزیر دفاع اور اعجاز چودھری کی سرزنش کر کے انہیں اپنے عہدوں سے ہٹا لیتے۔ تحریک لبیک جیسی شدت پسند مذہبی تنظیم کو نواز شریف حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کرنا۔ ختم نبوت تحریک کے نام پر ملک میں مذہبی کارڈ کھیل کر سادہ لوح لوگوں کو مشتعل کرنا۔

تحریک لبیک کے دھرنوں میں شرکت کرنا۔ مدینہ منورہ میں ننگے پاوں چلنے کا انداز اپنانا۔ ارطغرل ڈرامے کے ذریعے ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینا۔ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے کروا کے انارکی پھیلانا۔ لوگوں کو سول نافرمانی پر اکسانا۔ سر عام بل جلا کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر لوگوں کو دھوکا دینا۔ ملک میں صرف ایک مسلک کو فروغ دینا۔ خانقاہوں اور آستانوں پر سجدہ ریزی کرنا۔ درجنوں اہلکاروں کے قتل میں ملوث تحریک لبیک سے معاہدہ کرنا اور اسے کالعدم سے ہمدم بنانا۔

اے پی ایس کے نونہالوں سمیت لاکھوں پاکستانیوں کے قاتل تحریک پاکستان طالبان سے امن مذاکرات کرنا اور احسان اللہ احسان جیسے درندوں کو ملک سے فرار کرانا۔ سانحۂ ساہیوال کے مجرموں سے صرف نظر کر کے لواحقین سے بے وفائی کرنا۔ طالبان کو دفتر کھولنے کی پیشکش کرنا۔ ابھی نندن کو ہیرو بنا کر بھارت کے حوالے کرنا اور سب سے اہم ریاست مدینہ کے نام پر مذہب کا سوئے استعمال کر کے حکومت کی نا اہلیوں پر پردہ ڈالنا۔ میری نظر میں یہ سب وزیراعظم کے ناقابل معافی جرائم کی فہرست میں آتے ہیں۔ کاش وزیراعظم ملک عدنان کو پی ایم ہاوٴس بلانے سے پہلے یہ اعلان کرتے کہ وہ ریاست کو مذہب سے بالکل الگ رکھیں گے کیونکہ فرد کا ذاتی مسئلہ ہے اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments