سہیلیاں نال اٹکھیلیاں


12 دسمبر 2021 ء

”یاراں نال بہاراں“ ایک ایسا محاورہ ہے جس سے ایک مردانہ خوشبو آتی ہے۔ ہم نے سوچا کیوں نہ ہم عورتیں بھی اپنا ایک محاورہ بنائیں۔ عورت چونکہ تخلیق کرنا جانتی ہے سو ہم نے جھٹ پٹ ”سہیلیاں نال اٹکھیاں“ کی اصلاح تخلیق کر لی۔ دوستی ذوق ہے۔ دوستی شوق ہے۔ دوستی زیست کی الجھی سلجھی راہوں میں جینے کا مزہ دیتی ہے۔ بہت دن گزرے ہم سب سہیلیاں جن کا تعلق لکھنے لکھانے سے ہے ایک دوسرے سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ سعدیہ قریشی نے واٹس ایپ پہ میٹ اپ کے نام سے ایک گروپ بنا کر ملاقات طے کرنے کی سہولت پیدا کی۔ ویسے ایسے کاموں کے لیے واٹس ایپ کے گروپ بہت آسانی مہیا کرتے ہیں کہ آپ فرداً فرداً دعوت نامے بھیجنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک ہی پلیٹ فارم پہ سب اپنا اپنا جواب دے سکتے ہیں۔ ہم سب بھی ملاقات کے لیے بے چین تھے لیکن حالات و واقعات قابو میں ہی نہ آرہے تھے۔ کبھی سگنیچر پہ ملاقات کا پروگرام بنتا تو دستخط ہونے سے رہ جاتے۔ کبھی لال قلعے پر جھنڈا گاڑنے کی منصوبہ بندی ہوتی رہی۔

لیکن کبھی کسی کی طبیعت ناساز ہو جاتی تو کہیں شادیوں کے فنکشن آڑے آ جاتے۔ یوں کرتے کرتے دو اڑھائی ہفتے گزر گئے۔ فرح ہاشمی بہت دیر سے کہے جا رہی تھیں کہ میرے گھر پہ ملاقات رکھتے ہیں۔ آخر کار سہیلیوں سے اٹکھیلیوں کا دن ٹھہر ہی گیا۔ جمعے کے دن سب نے فرح ہاشمی کے گھر اکٹھے ہونے کے منصوبے کو محبت کا لبادہ اوڑھا ہی دیا۔ جمعے کے روز دوپہر 2 بجے کا وقت مقرر ہوا۔ لیجیے میں ہمیشہ کی طرح لیٹ ہو گئی۔ ڈیڑھ بجے گھر سے نکلی اور سیدھا لبرٹی مارکیٹ کے پھولوں کی دکانوں کا رخ کیا۔

فرح ہاشمی کے لیے سفید رجنی گندھا اور گلاب خریدے۔ سب سہیلیوں کے لیے تروتازہ لال مخملی گلاب خریدے جو میری طرف سے محبت کی علامت تھے۔ پھول، محبت، سہیلیاں اور ان سے ملاقات کی خوشی دل میں لیے میں ویلنشیا ٹاؤن کی طرف رواں دواں تھی۔ اکبر چوک سے موڑ مڑنے کے بعد سعدیہ قریشی کو فون کر کے راستہ سمجھا۔ ہدایت کے مطابق چھتری چوک سے بائیں مڑ گئی اور وہاں کھڑے ایک خوانچہ فروش سے پوچھا تو کچھ ہی فاصلے پر ویلنشیا کے داخلی پھاٹک سے اندر داخل ہو گئی۔

چونکہ وہاں پر سڑکوں کی مرمت ہو رہی تھی اور میں اس علاقے میں نو وارد۔ لہذا فرح ہاشمی کا گھر ڈھونڈنے میں تقریباً 20 سے 25 منٹ لگ گئے۔ فرح کے گھر کی گلی سبزے سے ڈھکی ہوئی اور کافی پر سکون تھی۔ فرح ہاشمی کا گھر گلی کے آخری سرے پر تھا۔ گھر کی عمارت کے سامنے کا حصہ اس طرح ڈیزائین کیا گیا تھا جیسے پریوں کی کہانیوں کا کوئی چھوٹا سا گلابی رنگ کا محل۔ پورچ کے سامنے کے حصے پر لٹکے ہوئے مٹی کے رنگ برنگے گول گملے بہت دلکش لگ رہے تھے۔

گھر کے اندر داخل ہوتے ہی ڈرائنگ روم میں سب سہیلیاں مسکراتی ہوئی منتظر تھیں۔ سلام دعا کے بعد میں نے سب کو مخملی لال گلاب کے دمکتے ہوئے پھول دیے تو سب کو بہت اچھا لگا۔ سب نے اپنے کھلتے ہوئے چہروں اور گلابوں کے ساتھ سیلفیاں بنائیں۔ ڈرائنگ روم کے انٹیریئر میں ایک کونہ پنجاب کی ثقافت کی بھر پور عکاسی کر رہا تھا۔ اس نکڑ میں ایک چرخہ رکھا ہوا تھا جس کی کوک سے دل میں ہوک سی اٹھنے لگتی ہے۔ ایک دیوار پر درختوں کے گول تنوں کو پلیٹوں کی صورت میں کاٹ کر آویزاں کیا گیا تھا۔

دیواروں پر بھی غالباً کچھ گرم سا گلابی رنگ تھا جو ایک آرام دہ احساس پیش کر رہا تھا۔ کمرے کا ایک حصہ جو شاید شروع میں کھانے کا کمرہ ہو اب بچوں کی سٹڈی کا منظر بنا ہوا تھا۔ کچھ ہی دیر میں کھانے کا بگل بجا تو ہم سب نے لاؤنج کا رخ کیا جہاں کھانا ہم سب کا منتظر تھا۔ مٹی کے روغنی برتنوں سے سجی کھانے کی میز آج کل کے مشینی دور میں یقیناً اچھوتا خیال تھا۔ رکابیاں، تھالیاں، گلاس، سرونگ ڈشز، ساگ کی ہانڈی، پانی کا جگ سب کچھ مٹی کا تھا۔

مٹی کی ہانڈی کا جب ڈھکن کھولا گیا تو سرسوں کے ساگ کی مہک پورے کمرے میں پھیل گئی۔ میں نے مٹیالے رنگ کی تھالی میں جب سبز ساگ اتارا اور اس کے اوپر سفید مکھن تو دل سے بے اختیار نکلا۔ واہ۔ ساگ اور مکھن کے پیڑے کے ساتھ مکئی کی پیلی روٹی کا امتزاج بہت پیارا لگا۔ فرح ہاشمی ایک گرم جوش میزبان ہیں۔ پورا وقت ایک پاؤں پہ کھڑی فرداً فرداً ہر ایک سے بار بار کھانے کا پوچھ رہی تھیں۔ بھاپ میں پکی ہوئی لیموں کے مسالے والی گرما گرم مچھلی بے حد لذیذ تھی۔

کھانے میں ایک اور عمدہ ڈش تھی کڑھی جو گولڈی بنا کر لائی تھیں۔ ارے ہاں! یاد آیا ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی۔ جب ہم سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے تو ایک انتہائی خوش اسلوب، نازک اندام، برف کی پڑتی نرم پھوار جیسے سفید بالوں والی ایک خاتون محفل میں شریک ہوئیں۔ جانتے ہیں وہ کون تھیں؟ وہ مشہور معروف پنجابی لیکھک پروین ملک صاحبہ تھیں۔ ان کے آنے سے جیسے محفل کی رونق دوبالا ہو گئی۔ جیسے سہیلیوں کے اس پر تکلف مکان میں ایک نئی مکین آ گئیں۔

پروین آپا بہت دھیمے دھیمے لہجے میں بات کرتی ہوئی سامع کے دل میں اترنے کا فن جانتی ہیں۔ کھانے کی میز پہ سب سہیلیاں کھانے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں بھی کرتی جاتی تھیں۔ میٹھا بھی روغنی مٹی ہی کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی رکابیوں میں دیا گیا۔ میٹھے کی ڈش کا نام بھی اپنے ذائقے کی طرح منفرد تھا۔ اس کا مزہ اب بھی زبان پر ہے شاید اس میں محبت کی شیرینی گھلی ہوئی تھی۔ بھلا محبتیں بھی کبھی بھلائی جا سکتی ہیں۔

کھانے کے بعد ہماری میزبان سہیلی ہمیں اپنے گھر کے سامنے بنائے ہوئے خوب صورت باغ میں تصویر کشی کو لے گئیں۔ انہوں نے اپنے باغ کو دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ ایک حصہ سر سبز گھاس اور پودوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ پتھر اور درختوں کے تنوں کے بنچ بنائے گئے تھے۔ ایک بہت چھوٹے سے پپیتے کے پودے پر ہرے ہرے پپیتے اگے ہوئے تھے۔ باغ کے دائیں جانب ایک چھوٹے سے گاؤں کا منظر تھا جسے گھر والوں نے نام بھی گاؤں کا ہی دیا تھا۔

زمین پر کوئی گھاس نہ تھی بلکہ مٹی تھی۔ سوکھے درختوں پہ کہیں لالٹین لٹک رہی تھی۔ زمین پہ ایک مٹی کا چولہا بھی تھا جس پر رنگین مٹی کی ہانڈی دھری ہوئی تھی۔ پاس ہی کچھ پیالے، گھڑا اور تھالیاں تھیں۔ لاہور جس میں اب شور شرابا بڑھتا ہی جا رہا تھا وہاں کچھ دیر کو خاموشی تھیں۔ لگتا تھا شور کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ زندگی کی ذمہ داریوں سے کچھ دیر کو فرار مل گیا تھا۔ پھر سب لوگ دوبارہ ڈرائنگ روم میں آئے اور قہوے کا دور چلا۔

مٹی کی روغنی خوب صورت پیالیوں میں سے اٹھتی گرم بھاپ کی مہک اور مزہ منہ میں گھلتا جا رہا تھا۔ آخر میں فرح ہاشمی کی پیاری سی بیٹی نے تو ہمیں روح کی غذا سے بھی مستفید کروایا۔ وائلن جو بلا شبہ موسیقی کا ایک مشکل ترین ساز ہے اس پہ مختلف گانوں کی دھنیں سنائیں۔ پہلا گانا ”سانوں نہر والے پل تے بلا کے“ بجایا۔ ”پھر ایک پیار کا نغمہ ہے“ اور اس کے بعد ہمارا امتحان لیا گیا۔ بچی نے کہا کہ ہم بوجھیں کہ وہ کون سا گانا سنانے لگی ہے۔

ہم سہیلیوں کو تھوڑی دیر لگی اس دھن کو سمجھنے میں۔ وہ گانا تھا ”یاد کیا دل نے کہاں ہو تم۔“ ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ اتنی چھوٹی سی لڑکی اور یہ ذوق اور سیکھنے کا شوق۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔ اب شام ہونے کو تھی بلکہ ہو چکی تھی۔ سموگ کے دھوئیں سے آسمان گہرا سلیٹی بلکہ دھواں دھواں ہوا جا رہا تھا۔ لہذا سب نے چلنے کا قصد کیا۔ میں بھی سب کو خدا حافظ کہہ کر دامن دل میں محبت اور زبان پر کھانے کا ذائقہ اور آنکھوں میں تواضع کے مناظر لیے گاڑی گھر کی طرف دوڑانے لگی۔

راستے بھر پہچاننے کی کوشش کرتی رہی کیا یہ میرا ہی لاہور ہے۔ سموگ آنکھوں میں چبھے جا رہی تھی۔ دل میں دھواں سا بھرتا جا رہا تھا کہ میرا لاہور گندا ہوتا جا رہا ہے۔ راستہ سجھائی نہیں دیتا کہ نہر کدھر ہے اور پل کدھر ہے۔ مگر میرے دل اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی کہ سہیلیاں نال اٹکھیلیاں زندگی میں خوشیاں بھر دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments