پاکستان کھپے کے ترجمان کی دبنگ انٹری


حلقہ این اے 133 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں معقول ووٹ حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری نے لاہور میں ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں اپنے مخالفین خاص کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کے انداز بیاں اور جیالوں کے جوش و خروش سے ایک چیز بالکل عیاں تھی کہ پیپلز پارٹی اب مستقبل میں مفاہمتی سیاست کا کوئی موڈ نہیں رکھتی۔ اس موقع پر ایک سرگرم کارکن کے جوش خطابت کے دوران یہ الفاظ تھے کہ زرداری صاحب اب ہم جاتی عمرہ کی جانب نہیں دیکھیں گے تو ان مذکورہ لفاظ کی ادائیگی پر آصف علی زرداری نے دونوں ہاتھ اوپر کر کے تالیاں بجائیں اور جیالوں کا ولولہ بھی دیدنی تھا۔

یہ میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پیپلز پارٹی اپنی پیدائش سے ہی بائیں بازو کی مزاحمتی سیاست کا استعارہ رہی ہے، اور جیالوں کو زرداری صاحب کی مفاہمانہ سیاست بالکل بھی سمجھ نہیں آ سکی۔ ماضی میں کی گئی مفاہمانہ سیاست کے نتائج 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن کی صورت میں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس موقع پر آصف علی زرداری نے یہ بھی کہا کہ ہم مرکز سے لے کر گلی محلوں تک ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

میرے خیال میں مقابلہ کرنا بھی چاہیے کیونکہ لاہور میں جنم لینے والی اور کسی وقت پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت پنجاب میں کمزور پوزیشن میں ہے۔ اس کی پنجاب اسمبلی میں صرف سات سیٹیں ہیں جو نہ صرف پیپلز پارٹی کے قائدین بلکہ ہر اس سیاسی کارکن کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جس نے پیپلز پارٹی کے پرچم تلے کئی فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی تحاریک میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ قید و بند اور دیگر مصائب کا مقابلہ بھی کیا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں جمہوریت اور عوامی راج کے قیام کے لئے جتنی قربانیاں پیپلز پارٹی نے دی ہیں کوئی دوسری جماعت اس کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کر سکی اور نہ ہی کر سکتی ہے۔ پارٹی کے بانی چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید سے لے کر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان کے باقی افراد نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ثابت کیا کہ پیپلز پارٹی نے پس پردہ قوتوں سے سمجھوتہ کر کے بیرون ملک چلے جانے کی بجائے وطن میں رہ کر دلیری سے ان قوتوں کا مقابلہ کیا۔

طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور شہادت ہماری منزل مقصود جیسے نعروں کو سچ ثابت کیا۔ صرف یہی نہیں پیپلز پارٹی کے کریڈٹ پر جو کارنامے ہیں نہ تو کوئی پارٹی ان کی نظیر پیش کر سکتی ہے اور نہ ہی تاریخ انہیں فراموش کر سکتی ہے۔ پاکستان جو سر زمین بے آئین کہلاتا تھا اور جس کے دولخت ہونے میں کسی جمہوری آئین کا نہ ہونا بھی شامل تھا، اسے 26 سال کی عمر گزر جانے کے بعد پیپلز پارٹی نے متفقہ جمہوری آئین دیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا آغاز کیا، چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مستحکم بنایا، عوام کو سیاسی شعور بخشا اور انہیں پہلی مرتبہ قومی دھارے میں شریک کیا، نوجوانوں اور مزدورں کو بولنے کا حوصلہ اور طاقت دی۔

پیپلز پارٹی کے ہر دور حکومت میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ کیا گیا۔ مخالفین کی جانب سے آصف علی زرداری کی کردار کشی کی مہم کے سارے ریکارڈ توڑ دیے گئے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی جوانی کے 11 سال جیل میں کاٹ دیے۔ کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد صدر پاکستان کی حیثیت سے انہوں نے اپنے مخالفین سے سیاسی انتقام لینے کی بجائے قومی مفاد میں ”مفاہمت“ کا راستہ اختیار کیا ان کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا اور میڈیا بھی بلا روک ٹوک ان پر تنقید کرتا تھا۔

یہی نہیں انہوں نے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نہ صرف صوبائی خود مختاری کا دیرینہ مسئلہ حل کر دیا بلکہ اپنے بے پناہ صدارتی اختیارات بھی منتخب جمہوری پارلیمنٹ کو واپس کر دیے جو ڈکٹیٹروں نے اپنے مفادات کے لئے چھین رکھے تھے۔ گویا پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے بھٹو شہید نے آئین سازی کا جو عمل شروع کیا تھا اسے آصف علی زرداری نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے مزید مضبوط بنا دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت پیپلز پارٹی سب سے زیادہ جمہوریت پسند، روشن خیال اور لبرل سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔

ایسے شاندار ماضی کی حامل جماعت کی پنجاب میں عدم مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے کارناموں اور جدوجہد کو نئی نسل میں منتقل نہیں کیا جا سکا۔ حالانکہ بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں سب سے زیادہ نوجوان قیادت بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور بلاول بھٹو کی سیاست کو چوہدری نثار احمد نے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا کہ 18 کے الیکشن میں بلاول بھٹو نے سب سے بہتر اور سیاسی تدبر کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلائی۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زوال کی سب سے بڑی وجہ 1977 کے بعد پارٹی کا پنجاب میں برسر اقتدار نہ آنا ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات، 1988 اور 1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا کردار تاریخ کا حصہ ہے جس کے تحت آئی جے آئی کی تشکیل اور انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے پیپلز پارٹی سے پنجاب چھین لیا گیا۔ لیکن پہلے پنجاب کو نواز لیگ اور بعد میں پی ٹی آئی کے حوالے کرنے اور پی ٹی آئی کی ناکام حکومت کے بعد پنجاب میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کرنے کے لئے اب پیپلز پارٹی کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ پنجاب میں نوجوان نسل کو پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں قائدانہ کردار دے۔ کیونکہ پنجاب کے عوام نہ صرف پیپلز پارٹی کی عوامی جدوجہد میں شریک رہے ہیں بلکہ اسے ایک متبادل قیادت کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments