چلتے چلتے نیکیاں کمائیں اور ساتھ پیسہ بھی


اچھے لوگ اپنی سوچ سے پہچانے جاتے ہیں۔ آج میری نظروں سے ایسے ہی دو نوجواں وں آدم ران اور گال لاہت کی ایک موبائل ایپ گزری جنہوں نے ماحول کو صاف کرنے کے لئے یہ ایپ بنائی ہے۔ آپ موبائل پر یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کر لیں اور جب واک کرنے کو نکلتے ہیں تو ساتھ ایک بیگ بھی اٹھا لیں، چلتے چلتے کچرا اٹھاتے جائیں اور اس کو اکٹھا کر کے اس کی تصویر بنا کر موبائل ایپ پر اپ لوڈ کر دیں اس کے بدلے سکے آپ کی ایپ میں بھیج دیے جائیں گے اور آپ اس کو آن لائن یا کسی بھی شاپنگ مال پر ادا کر کے کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔

اس ایپ کا نام ہے کلین کائن (Clean Coin) ۔ صفائی اپنے گلی، محلے، شہروں اور ملک کی کریں اور اس کے بدلے پائیں پیسے۔

بحیثیت مسلماں صفائی ہمارے تو ایمان کا حصہ ہے بلکہ آدھا ایمان ہے۔ اور اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمارا ایمان ہر طرف بکھرا پڑا نظر آتا ہے۔ سوچیں تو ہم کچرا نہیں پھینک رہے ہوتے بلکہ اپنے ایمان کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔

اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔

ایک صبح میں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتا آ رہا تھا کہ میری نظر سائیڈ پر کھڑی ایک گاڑی پر پڑی تو میرے قدم تھم کر رہ گئے۔

منظر کچھ یوں تھا کہ ایک خوبرو نوجوان، کلین شیو، پینٹ شرٹ پہنے، تھوڑا سا دروازہ کھولے مہران گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا، دیکھنے میں وہ تعلیم یافتہ لگ رہا تھا۔

میں وہاں حیران کھڑا اس کا عمل دیکھنے لگا :

وہ اپنے والٹ اور گاڑی کے ڈیش بورڈ سے کاغذ نکالتا، جو دیکھنے میں بینک کی رسیدیں اور لیٹرز لگ رہے تھے، ان کو پڑھتا اور جو فضول سمجھتا اس کو پھاڑ کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے گاڑی کے کھلے دروازے سے نیچے گرا دیتا، میں اپنے موبائل کے کیمرے سے اس کی وڈیو بنانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سڑک پر بہت سارے کاغذوں کے ٹکڑے بکھیر دیے تھے۔ گویا وہ اپنے ایمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین بوس کر رہا تھا

اچانک جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر غصے اور شرمندگی کے آثار ابھر آئے اور اس کی نظریں ان کاغذ کے پرزوں کی طرف جھک گئیں اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ تیکھی نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ تم کون ہوتے ہو میری وڈیو بنانے والے۔

میں اس کے دل کی حالت کو بھانپ گیا تھا مین نے اس کے بولنے یا اپنی جگہ سے ہلنے سے بھی پہلے، اپنے موبائل کو بند کیا اور جا کر اس کی گاڑی کے پاس بیٹھ کر ان کاغذ کے ٹکڑوں کو چننے لگا، اس کے زمین بوس ایمان کو اپنے پوروں سے سمیٹتے ہوئے، دھیمی سی آواز سے اس کو کہا

”ناراض نہ ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میری بھی وڈیو بنا سکتے ہیں“ ۔

وہ خاموش اپنی سیٹ پر بیٹھا میری طرف دیکھے جا رہا تھا، جب میں نے سب کاغذ کے ٹکڑے سمیٹ لئے اور میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو اب غصے کی بجائے شرمندگی کے ساتھ اس کی نظروں سے ایک التجا جھلک رہی تھی کہ میری بھی عزت نفس ہے، لگ رہا تھا کہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کاش میری یہ وڈیو نہ بنی ہوتی۔

میں نے کیمرا نکالا اور اس کے سامنے اس کی وڈیو کو ڈیلیٹ کر کے کاغذ کے ٹکڑے تھامے چل دیا۔

ہم تو اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر طرف اپنے ایمان کے پرخچے اڑا کے بے دردی سے پھینک رہے ہوتے ہیں۔ ایمان کو تار تار کرنا بڑے پن کی نشانی سمجھتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہمارے ایمان کے پرزوں کو سمیٹتی پھرے۔

ہمارے ارد گرد کی صفائی بتاتی ہے کہ ہم کتنے مہذب ہیں۔ اور ہمارے ارد گرد کے ماحول کی صفائی ہماری سوچ کی حالت کا پتا دے رہی ہوتی ہے کہ کتنی صاف اور پاکیزہ ہے۔ سوچ، بدن اور ماحول کی صفائی ہماری پاکیزگی کی عکاس ہوتی ہیں اور پاکیزگی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments