وقت کرتا ہے پرورش برسوں


وہ ایک یونیورسٹی کی ذہین طالبہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔ جس کا تعلق پنجاب کے ایک گاؤں سے تھا۔ موسم، مزاج، انسانی رویے، باہمی دلچسپیاں، پڑھائی وغیرہ وغیرہ جب سب پر بات ہو چکی۔ تب اس نے اس سے پوچھا کہ تم جب اپنے گھر سے باہر نکل کے گلیوں سے گزر کر مرکزی شاہراہ تک آتی ہو۔ اور وہاں سے کسی رکشے پر سوار اپنی منزل پر پہنچتی ہو۔ تو اس سارے وقت میں تمہاری آنکھوں کو دیکھنے میں کیا برا لگتا ہے؟ کون سی چیز تمہیں ماحول میں معیوب لگتی ہے؟

لمحوں کے سوچ بچار کے بعد وہ بولی: کچھ بھی نہیں۔ اس نے پھر اصرار کیا کہ ایک دفعہ اس منظر کو ذہن میں لاؤ اور جواب دو۔ لیکن رسپانس پہلے والا ہی رہا۔ پوچھنے والی نے ایک اور سوال کر کے بات بڑھائی کہ جس سوسائٹی میں تم اب بیٹھی ہو، یا ڈی۔ ایچ۔ اے یا بحریہ ٹاؤن میں تمہیں کیا اپیل کرتا ہے؟ فوراً بولی کہ کھلی سڑکیں، صفائی، مجموعی خوبصورتی۔ تب اس نے حیران ہو کر کہا تو ان باتوں کا جہاں تم رہتی ہو، نہ ہونا، تمہیں کوئی مسئلہ نہیں لگتا۔ تو آگے سے وہ کہتی ہے۔ ہم تو اسی جگہ پیدا ہوئے اور ہمیشہ اپنے اردگرد یہی کچھ دیکھا۔ اس لئے ہم اس سب کے عادی ہیں۔ ہمارے لئے ماحول کی تعریف یہی ہے۔ اس میں سے کچھ بھی ہمارے لئے پریشان کن نہیں۔

وقتاً فوقتاً ایسے ہی سوالات وہ کبھی ہائی اسکول کے بچے سے کسی سفر کے دوران کرتی رہی۔ کبھی کسی کے ڈرائنگ روم میں اپنے ساتھ بیٹھی ساٹھ ستر سالہ میزبان خاتون سے۔ سوال کرنے کا پس منظر ہر ایک کے ساتھ مختلف رہا۔ کسی کا تعلق دیہات سے تھا، تو کوئی کسی انٹرمیڈیٹ شہر کی مڈل کلاس کالونی کا رہائشی اور کوئی کسی پوش علاقے کی رہنے والی۔ لیکن جواب کم و بیش ایک سے رہے۔

کچھ جواب بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ ایک جھٹکے سے آپ کی خوش فہمیوں کا محل گرا دیتے ہیں۔ آپ کے کمفرٹ زون سے باہر کی بدصورتی کو عیاں کر دیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی مجھے ملنے والے جوابوں نے یہ بتایا کہ بصری آلودگی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ قطرہ قطرہ پتھر میں سوراخ کرنے جیسا۔ اور اس کی ابتدا شاید تب سے ہو گئی تھی جب سے ہم نے خود کو اس ذمہ داری سے آزاد کر لیا ہے کہ

اپنی مخصوص چار دیواری سے باہر کیا اور کیسا ہے؟

برسوں پہلے ہمارے بڑوں کا یہ معمول تھا کہ گلی محلے کی صفائی کرتے تھے۔ کوئی نلکا بہہ رہا ہے۔ نالیاں ابل رہی ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں۔ تاریں لٹک رہی ہیں۔ حتی کہ سڑک کا کوئی حصہ ٹوٹا ہوا ہے تو محلہ کمیٹی اپنی مدد آپ کے تحت اس کو حل کر لیتی تھی۔ ان کا جمالیاتی ذوق اب کی پود سے کہیں بہتر تھا۔ گھر ہوں یا محلے، روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ صفائیوں کا رجحان عام تھا۔ جس میں ہر چھوٹے، بڑے کی شراکت شوق اور ذمہ داری سے ہوتی تھی۔

اب تو نفاست کا اتنا قال ہے جس کی لپیٹ میں گھر، شہر، گاؤں سب آ گئے ہیں۔ تبھی تو نہ ہمیں کوڑے کے ڈھیر اور ان پر اڑتی چیلیں پریشان کرتی ہیں۔ نہ ہمارے قد برابر، بے وجہ لٹکے بل بورڈز برے لگتے ہیں۔ نہ بے ترتیب، منہ تک آتی بجلی کی تاریں ہمیں ناگوار ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ سڑک کے کھڈوں سے بھی ہم یوں آرام سے گزریں گے کہ جیسے موٹروے ہو۔ اور جلسے جلوسوں کے دنوں میں تو کوچوں، چوراہوں اور دیواروں کا وہ حال ہوتا ہے کہ اگر حسن خود مجسم ہو کر ادھر آ نکلے تو خود سے شرمندہ ہو کر الٹے قدم لوٹ جائے۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری نسلیں ذہنی طور پر پراگندگی کی عادی ہوتی جا رہی ہیں۔ اور اس پر قانع ہیں۔
کیا ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کی حس جمال کا بینچ مارک بھی اتنی ہی کم ہو گا؟

ہم بہت محنت سے خود کو ذہنی بے حسی کا عادی کا بنا رہے ہیں۔ اتنا لا تعلق کہ بنیادی ترتیب پر سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ جس کے ہم بحیثیت انسان حقدار ہیں اور اس کا خمیازہ ہمارے بچے تاوان سمیت بھریں گے۔

مانا کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ لیکن خدارا ابلتے گٹروں، غیر اخلاقی پوسٹرز اور ایسے بہت کچھ کو اس دائرہ سے باہر ہی رکھئے۔ ورنہ تو یہ بجائے خود انسان کے منہ پر طمانچہ ہے۔

بہرحال خوبصورتی، ترتیب اور ہم آہنگی کا تصور یک دم، جادو سے پیدا نہیں ہوتا۔ رویوں، سوچوں اور تخیل کی کھیتی سالوں کی مشقت سے آبیار ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments