16 دسمبر 2014 ء کے شہیدوں کی ماؤں کے نام


یوں تو جب میں لکھنا چاہوں تو کوئی بھی تحریر ایک دو دن میں مکمل ہوجاتی ہے مگر اے پی ایس کے سانحہ پر میں پچھلے چند سالوں سے لکھنے کی کوشش کر رہی ہو مگر شاید میرا قلم بھی تاب نہیں لا پاتا اور چند ہی جملوں کے بعد میری آنکھوں سے نہ تھمنے والا آنسوؤں کا ایک ایسا سلسلہ رواں ہو جاتا ہے کہ ہر چیز دھندلا جاتی ہے اور میری تحریر ادھوری ہی رہ جاتی ہے۔

آج جب کہ شہدا کی برسی کا موقع ہے تو میں اپنی تمام تر ہمت کو یک جا کر کے ایک مرتبہ پھر لکھنے کی کوشش کر رہی ہو کہ شاید مجھے لکھ کر کچھ سکون آ جائے۔

یوں تو پاکستان کی تاریخ دہشت گردی، بم دھماکوں، اور ٹارگٹڈ کلنگ سے بھری پڑی ہے۔ اور ہر واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت تکلیف دہ اور درد ناک ہوتا ہے اور اپنے پیچھے کئی تکلیف دہ یادیں اور سسکتے ہوئے خاندان چھوڑ جاتا ہے۔ مگر 16 دسمبر 2014 کے اے پی ایس کے سانحہ نے تو جیسے روح تک کو زخمی کر دیا، زخم بھی ایسا جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور درد دل رکھنے والوں کی روح تک کو گھائل کر گیا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ 16 دسمبر 2014 کی برطانیہ کی ایک بر فانی صبح تھی صبح سے ہی ہلکی ہلکی برف باری کا سلسلہ جاری تھا یوں تو مجھے برف باری ہمیشہ سے ہی پسند ہے مگر آج صبح سے کچھ دل اداس تھا اپنے تینوں بچوں کو تین مختلف اسکولوں میں چھوڑنے کے بعد گھر پہنچی تھی اور معمول کے مطابق چائے کا ایک کپ بنا کر ٹی وی آن کیا اس وقت برطانیہ کے وقت کے مطابق 9 : 30 اور پاکستان کے وقت کے مطابق سہ پہر 2 : 30 کا وقت تھا اور جیسے ہی ٹی وی آن کیا تو ہر چینل پر ایک ہی بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ اے پی ایس میں دہشت گرد گھس گئے اور بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا خدشہ تھا۔ یا اللہ رحم، ایک لمحہ کے لئے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا میں نے گرتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھالا اگلے ہی لمحہ جب پریشان ننگے پیر بھاگتی ہوئی ماؤں کو دیکھا تو آنسوؤں کی ایک نہ ختم ہونے والی جھڑی لگ گئی اور درد اور تکلیف کی ایک شدید لہر رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ یا اللہ کیا ہمارے ملک میں اب اسکول بھی محفوظ نہیں رہے، مزید دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ میرے اختیار میں صرف ٹی وی بند کرنا تھا سو کر دیا اور روتے روتے سوچنے لگی کہ کیا گزر رہی ہو گی ان ماؤں پر جنھوں نے اپنے ہنستے کھیلتے بچوں کو صبح اسکول بھیجا ہو گا اور ان کی واپسی کے انتظار میں وقت گزار رہی ہوں گی۔ ہم ماؤں کی ساری زندگی تو بچہ پیدا ہوتے ہی اس کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ بچے ہی ہماری زندگی کا مقصد بن جاتے ہیں، کیسے جئیں گے یہ ماں باپ۔ بس میری ساری سوچوں کا محور پیچھے رہ جانے والے بچوں کے والدین ہی تھے۔ اس سے بڑھ کر قیامت کیا ہوگی۔

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

مائیں تو اپنے بچوں کو سردی لگنے کا سوچ کر تکلیف میں آجاتی ہیں جب انہوں نے خون میں نہائے ہوئے اپنے پیارے دیکھے ہوں گے تو ذہنی توازن کا کھو دینا کوئی بڑی بات نہیں۔

اس واقعہ میں 132 معصوم جانوں سمیت 141 لوگ شہید ہوئے جس میں اسکول کی فرض شناس پرنسپل طاہرہ قاضی بھی شامل تھیں۔ زندہ بچ جانے والوں بچوں کی کئی درد ناک کہانیاں ہیں جو ان کی نفسیات کو ساری زندگی متاثر کریں گی۔ چار خاندانوں کے دو دو لڑکے شہید ہوئے۔ ماں باپ اور بچ جانے والوں بچوں اور ان کے بہن بھائیوں پر ایک قیامت گزر گئی۔

یوں تو دنیا میں سکولوں پر دہشت گرد حملوں کے کئی واقعات ہیں مگر جانی نقصان کے اعتبار سے سانحہ اے پی ایس اس وقت دنیا میں اسکولوں میں دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔

سب سے بڑا سانحہ روس میں 2004 میں پیش آیا جب یکم ستمبر کو نئے تعلیمی سال کے آغاز پر شمالی اوسیشا ریجن کے شہر بیسلان میں چیچنیا سے تعلق رکھنے والے 32 جنگجوؤں نے ایک اسکول میں داخل ہو کر وہاں موجود ایک ہزار سے زائد بچوں، اساتذہ کو اپنے مطالبات تسلیم کروانے کی غرض سے یرغمال بنالیا۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں روس نے چیچنیا میں ایک جنگ کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد وہاں جاری روس سے آزادی حاصل کرنے والی تحریک کو کچلنا تھا اگلے دو دنوں میں یرغمالیوں کو آزاد کرانے کی کوششوں کے دوران ہونے والے فائرنگ اور دھماکوں میں کئی سو افراد جاں بحق ہوئے جس میں 156 طلبا شامل تھے اسکولوں میں ہونے والی دہشت گرد خون ریزی کی شدت کے اعتبار سے یہ دنیا میں ہونے والا سب سے بڑا سانحہ ہے۔

میں یہ تو نہیں بتا سکتی کہ سانحہ اے پی ایس کے متاثرین آج کل کن کیفیات سے دو چار ہوں گے مگر میں یہ ضرور بتا سکتی ہوں کہ اس واقعہ کو چھ سال گزرنے کے باوجود بھی میری آنکھوں سے آنسو اس ہی طرح ہی رواں ہیں جیسے پہلے دن ہوئے تھے، میں ان والدین کا سوچ کر ہی تڑپ جاتی ہوں جو جیتے جی مر گئے۔ شہدا تو یقیناً جنت میں ہوں گے مگر ان کے لواحقین زندہ درگور ہو گئے۔ بچے ہی تو جینے کا مقصد ہوتے ہیں۔ اگر مقصد ہی نہ رہے تو زندگی کیسی؟ صرف سانسوں کے سلسلے کا نام تو زندگی نہیں۔ میرے دل میں طاقت ہے اور نہ میرے قلم میں تاب کے شہدا کے والدین کو صبر کی تلقین کروں یا تعزیت پیش کروں۔ شہدا کے والدین کے لئے تسلی کے الفاظ ڈھونڈتی ہوں تو ملتے نہیں، لگتا ہے سارے لفظوں کا خزانہ جیسے ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ میرے پاس اگر کچھ ہے تو فقط آنسو۔ جہاں سانحہ اے پی ایس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا، وہیں پر ظلم اور بربریت کی انوکھی مثال بھی قائم کی۔ یقیناً 16 دسمبر 2014 پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا۔

ایک طرف تو ہمارے فوجی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ہر روز جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی مختلف شکلوں میں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

گو کہ ابھی دور دور تک یہ ممکن ہوتا ہوا نظر نہیں آتا مگر پھر بھی دل کی گہرائیوں سے دعاگو ہو کہ خدا کرے کہ ہماری حکومتیں ہر مجبوری ہر دباؤ اور ہر قسم کی مصلحت پسندی سے بالا تر ہو کر شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی بیخ کنی کریں۔ اور خدا پاکستان کو ایسا دن پھر کبھی نہ دکھائے۔

اور آخر میں شہدا کے لواحقین خصوصاً ماؤں کے لیے ہاتھ جوڑ کر صرف آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments