جون ایلیا ایک منفرد شاعر


جون ایلیا سے میری پہلی شناسائی یونی ورسٹی کے زمانے میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب میں قراقرم انٹرنیشنل یونی ورسٹی سے ایم اے ایجوکیشن کر رہا تھا۔ مجھے وہ دل نشین لمحات آج بھی یاد ہیں جب ہم لکچر سے فارغ ہو کر یونی ورسٹی کی کیفے ٹیریا تو کبھی سبزہ زار میں لکڑی کی سادہ کرسیوں پر ایک پیالی چائے سے محظوظ ہونے بیٹھ جاتے تھے۔ انگریزی ادبیات کا ایک طالب علم میرا دوست تھا۔ کبھی کبھار ہماری محفل کا حصہ بننے آتا تھا۔ جسے رومانوی شاعری سے خاصا شغف تھا۔ وہ شعر گوئی میں کمال مہارت رکھتا تھا۔ ان کی زبان پر ہر وقت یہ شعر جاری رہتا تھا۔

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

میں نے ان سے شاعر کا نام پوچھا تو بتانے لگا کہ یہ جون ایلیا کا شعر ہے۔ میں نے اس سے مزید اشعار کی فرمائش کی تو وہ سنانے لگ جاتے تھے۔

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

جون ایلیا کی اس مختصر سی تعارف کے بعد مجھ میں اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ مجھے جون کے بارے میں دل چسپی ہونے لگی اور میں ان کی زندگی کی خفیہ گوشوں تک رسائی چاہتا تھا۔ جون کی سوانح حیات کے عمیق مطالعے سے پتہ چلا کہ آپ نے 14 دسمبر 1931 ء کو انڈیا کے شہر امروہہ میں شیعہ سید گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کا اصل نام سید حسین جون اصغر تھا۔ ایلیا عبرانی زبان میں حضرت الیاس علیہ السلام کو کہتے ہیں جو کہ یہودیوں کے لیے خاص ہے۔ آپ کے والد علامہ شفیق حسن عربی، فارسی اور علم فلکیات کے عالم تھے۔ آپ کی والدہ نرگس خاتون مشہور ذاکرہ تھیں جو محرم میں مجلسیں پڑھا کرتیں تھیں۔

گھر کے علم دوست ماحول کا ان کی شخصیت پر گہرا اثر ہوا۔ وہ پیدائشی شاعر تھے ’مگر بہترین نثر نگار بھی۔ تقسیم ہند کے بعد جون کے بھائی ہجرت کر کے پاکستان آئے مگر وہ اپنے آبائی گھر میں ہی ٹھہرے۔ بعد ازاں 1957 ء میں پاکستان آئے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ رہنے لگے۔ اسی دوران وہ ایک اخبار سے وابستہ رہے اور ادبی حلقوں میں بھی مشہور ہونے لگے۔

انہوں نے شعر گوئی کا آغاز محض آٹھ برس کی عمر سے کیا اور فن شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔ مگر یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ وہ اپنے اشعار کو کتابی شکل دینے سے کتراتے تھے۔ بلکہ کسی کی اصرار پر بھی سختی سے منع کرتے تھے۔ ان کی حیات میں صرف ایک ہی کتاب ”شاید“ شائع ہوئی۔ باقی تمام کتابیں ان کی وفات کے بعد منظر عام آئیں ہیں۔

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

جون ایلیا کی زندگی اور ان کی شاعری کے گہرے سمندر میں ڈوب کر در نایاب سمیٹنے کی کوشش کریں تو یہ حقیقت طٙشت از بام ہونے لگتا ہے کہ ان کی زندگی رنج و الٙم کی کھلی داستان ہے۔ ایک ایسی داستان جس کی کوئی انتہا نہیں۔ جتنا ان کا نام مختلف ہے بالکل اسی طرح ان کی شاعری، ان کے مزاج اور ان کے رویے بھی مختلف ہیں۔ خود سے ناراض، زمانے کی روایات سے بیزار، اکتایا ہوا، شکوہ حالات، یاس و محرومی ان کی شاعری کا خاصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود اذیتی اور رومان پسندی ان کی شاعری میں جابجا نظر آتی ہے۔

میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

جون کے بارے میں اکثر منفی خیالات بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض لکھاریوں نے انہیں کمیونسٹ خیالات کا مالک قرار دے کر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جون کے ہاں ہوس و لذت، عامیانہ و سوقیانہ پن دکھائی دیتا ہے۔ ان کی شاعری میں اللہ کی ذات سے مایوسی اور کفر و الحاد کا غلبہ ہے۔ بدیں وجہ انھیں بے تکا اور فضول گو کہتے ہیں۔

مگر یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ انہوں نے شاعری کو روایات کے ڈگر سے نکال کر نئی جہت سے دی۔ وہ عمر بھر شاعری کو روایات کے زنجیروں سے چھڑانے کے لیے کوشاں رہے۔ ان کا اسلوب بیاں سادہ مگر ہر مصرع اثر انگریز ہے۔ چھوٹی بحر میں بڑی بات کہنا جون کا خاصہ ہے۔ وہ اپنے منفرد لب و لہجے اور متنوع انداز تکلم کے باعث باقی شعراء سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے اردو کو نئے الفاظ و تراکیب سے روشناس کرایا۔ اردو کے لیے گرانقدر خدمات کے عوض حکومت نے انھیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ جون ایلیا کہا کرتے تھے کہ ہم حسین ترین، امیر ترین، ذہین ترین اور زندگی کے ہر حوالے سے بہترین ہو کر بھی آخرکار مر ہی جائیں گے۔ بالآخر جون نے 8 نومبر 2002 ء میں اس دار فانی کو الوداع کہ کر دار بقا کو کوچ کر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments