قربت کا سمندر


بظاہر تندرست انسان اندر ہی اندر ہزاروں بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔یہ ہی وہ لوگ ہیں جو کڑوروں معاملات میں الجنھے کے با وجود اپنی زندگی کے دکھ سکھ اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔اس امید پر کے ہو سکتا ہے کبھی کوئی خیر کی خبر سنائی دے مگر زندگی کا جبر ایسا بھیانک ہوتا ہے جو ہر طرح کے خوابوں اور سوچوں کو اپنے ساتھ بہا کر اس سمندر میں شامل ہو جاتا ہے جس کا پانی اپنے دریاؤں ندی نالوں میں کبھی واپس نہیں آتا اور نہ ہی ایسا سوچ سکتا ہے وہ اپنی موجوں میں مست رہتا ہے اور اپنی ذات کے تابع ہر چیز کو کرنے کی سوچ میں مبتلا ہوتا ہے لیکن بات غور و فکر کی ہے یہ سمندر ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتاہے۔اب ہم یہ بھی سوچیں گے کہ بھائی یہ کوئی انوکھی بات تو نہیں ہے یہ تو قانون قدرت ہے اور اسی طرح ہی ہوگا مگر قانون قدرت بھی ایسا جو کبھی بدل نہیں سکتا۔اس دور جدید میں چلو یہاں تک تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ قانون قدرت کا وجود تو ہم مانتے ہیں اور ہمیشہ مانتے رہیں گے کیونکہ وہی پوری دنیا میں واحد ذات ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں ہے مگر انسان بھی تو قدرت کا ایک کرشمہ ہے اور ایسا کرنا نہ صرف ہر چیز پر بار یہی نہیں بلکہ خدا کی حکمت کے بعد سب سے طاقتور چیز یہ انسان ہی ہے۔یہ انسان اپنے ہاتھ میں پوری دنیا کو سمائے ہوئے  پھرتا   ہے ۔ اس کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے یہ فورا اپنے لیے پیدا کر لیتا ہے کبھی اس شخص نے کسی بھی چیز کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا سوائے مالک حقیقی کی طرف سے آنے والی آ زماہش کے  تو آخر کون سی بات ہے جو ہمیں ایک ساتھ نہیں ہونے دیتیں وہ کونسا عمل ہے جو ہم لوگوں کی راہوں کو ہموار ہونے کے بجائے الگ الگ کرنے میں اپنا کام دکھاتا ہے۔ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں اگر سوچ لینے کے بعد کوئی اچھا حل تلاش ہوگیا تو جو حرام خوری کے راستے ہیں یہ مسلسل بند ہو جائیں گے۔اور ہم جو جھوٹ اور فراڈ کی بنیاد پر اپنے پیٹ بھرتے ہیں۔ یہ مسلسل بھوکھے رہیں جائیں گے جب یہ راستے بند ہوگئے تو ہم سے تھوڑے رزق پر قناعت نہ ہو پائے گی۔ اور ہم بھوک میں مبتلا ہو جائیں گے جیسے ہم لوگوں کی وجہ سے تھرپارکر کے غریب لوگ ایک ایک نوالہ اور ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔ ہم ایک دفعہ اپنی ذات سے الگ ہو کر ہمارے بھائیوں کے لیے سوچ سکتے مگر یہ فطرت ہی تو ہے ۔ جو ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اور کوئی بھی کام کرنے نہیں دیتی فطرت کے ساتھ لفظ امید لگا کر ہم خود کو فوت کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے ضمیر کا سودا کر دیتے ہیں۔اور اپنی زندگی کا بیوپار سمندر کی ان لہروں سے کر لیتے ہیں جو ہمارے پاس ساحل پر آتی تو ہیں مگر خود ہی واپس اپنی منزل کی طرف چلی جاتی ہیں۔یہ کیسا رشتہ ہے جو ہر طرف سے ہمارے ضمیر کا سودا کرنے میں ہی رہ خوش رہتا ہے۔میرے ذہن میں جو خیالات جنم لیتے ہیں میرے ذہن میں جو جو باتیں پیدا ہوتی ہیں میں ان کو مستقبل کے لیے اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہوں اور یہی باتیں میرے آنے والے دنوں میں میرے ساتھ ہونے والے معاملات سے مجھے آگاہ کرتی ہیں۔اور مجھے مختلف طرح کی مصیبتوں سے بھی محفوظ کرتی ہیں ۔ میں یہ عرض کرتا ہوں ایک بار تو سب کیلئے سوچنا شروع کر دیں اور پھر آنے والے وقت کا انتظار کریں ۔ اگر یہ ساری باتیں آپ کے سامنے سچائی کا منبع نہ بنے تو میری ذات حاضر ہے۔  ہر طرح کا ظلم سہنے کے لیے میری ذات آپ کے سامنے قربان ہوجانے کے لیے تیار رہے گی۔ بس ایک نیکی کا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے سمندر تمہارے ساتھ ٹھاٹھیں مارتا ہوا تمہارا ساتھ دیں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments