لاپتہ ۔۔۔ سقوط ڈھاکہ


نجانے ہم کب سے لاپتہ ہیں،ہماری شناخت ہماری شخصیت ہمارے راہ و رسم ہمارا شعر و ادب ،ثقافتی اکائیاں اور صحافت کہیں گم ہوچکی ہے، اور ہم سب ایسی ڈگر پر چل نکلے ہیں کہ باوجود تلاش کے ہم 72 برس سے اپنی پہچان سے نہ صرف محروم کر دیئے گئے ہیں،بلکہ بے یار مددگار ہونقوں کی طرح ٹکر ٹکر کسی امید و آس سے ایک دوجے کو دیکھے جارہے ہیں کہ شاید کوئی ہمیں منزل کے نشاندہی کرادے،جدوجہد اور حقوق کے لیئے سراپا احتجاج بننے والوں کو “ریاستی اجنبی” کی قطار میں کھڑا کر دیا گیا ہے،متحرک رہنے والے قلم کے دھنی صحافی اور لکھاریوں کو دیس کا خطرناک ناسور قرار دینے کی ہاہاکار سے نئی نسل کو مذکورہ بہادروں سے دور کیا جا رہا ہے،ملک کے مشرقی بازو کو پہلے لہو لہان کیا گیا،پھر اسے معتوب کر کے عوام کے احساس سے “لاپتہ” کر دیا گیا اور جب بھی مشرقی بازو مزاحمت سے باز نہ آیا تو اسے بے رحمی سے کاٹ کر عوام کے سامنے اسے ایک عضو معطل کے طور پر پیش کرنے پر اب تک ڈھٹائی سے بازو کاٹنے والے ہائیبرڈ نظام کی تاویلات میں بندوق کی طاقت بڑے کرو فر سے قائم ہے بلکہ اپنے عوام دشمن بیانیئے کو سر بلند رکھنے کے لیئے تحریر و تقریر اور خبر کی رسائی کے ذرائع پر کنڈلی مارے بیٹھے اور اپنے”نفرت بھرے زہر”سے صحافت اور جمہور کے سچ کو ڈنک مارے جارہے ہیں ۔۔۔ اور اب تو کٹے بازو کے زخمی ملک کو چلانے کی غرض سے اس کے متفقہ جمہوری آئین ہی کو “ہائیبرڈ” کی اصلاح میں “جبری لاپتہ” کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس “لاپتہ” کیئے جانے پر “ریاست کے اندر ریاست” بنانے پر صرف سوال کر رہے ہیں مگر ہائیبرڈ نظام ہے کہ عدالتی ریمارکس کو خاطر میں ہی نہیں لا رہا۔
یہی کچھ آج سے پچاس دہائی قبل بھی ہوا تھا،جب مغربی صحافت،درد مند اہل قلم اور شاعر و ادیب ملک کے مشرقی حصے کے زخموں سے رستے ہوئے خون کی دہائی دے رہے تھے،آج اگر ابصار عالم،حامد میر،عاصمہ شیرازی، اور مطیع اللہ جان ایسے صحافی “لاپتہ افراد”کے کیسز میں عدالتی ججز کی بے بسی اور کم ہمتی اور ماورائے آئین فیصلوں کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں معتوب کر دینے کے فتاوی جاری کئے جاتے ہیں،اور جب درد مند سیاسی اکابرین “لاپتہ بلوچ”اور “گم شدہ صحافیوں”کی آواز بن کر آنے والے خطرات کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں تو بالکل پچاس برس پہلے کی طرح ان کی حقانیت کو عوام تک پہنچنے کی ہر راہ مسدود کی جارہی ہوتی ہے،جبکہ “ہائیبرڈ نظام” ریت میں منہ دیئے بیٹھا خطرے کو طاقت سے نمٹنے کا فرسودہ انداز اپنانے پر تلا بیٹھا ہے۔
اپنی “لاپتہ شناخت” کی تلاش میں میرا ارادہ تو یہ تھا کہ عامر میر کی بھیجی ہوئی وارث میر کی کتاب” ایک باغی کی کہانی” پر مفصل لکھوں گا جو کہ اب بھی مجھ پر قرض ہے،مگر چونکہ ہمارے ہاں خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں”لاپتہ”کرنے کے عذاب کا میں خود شکار رہا ہوں اور ہائیبرڈ نظام کا گویا”غدار” بھی ٹہرا ہوں تو کیوں نا بات حامد میر اور عامر میر کے والد کے اس کالم سے کی جائے جس کی پاداش میں حامد میر کو بھی بنگلہ دیش سے وفاداری اور ملک سے”غداری” کی رسیدیں ہائیبرڈ غلام عطا کر رہے ہیں،جس کا خوبصورتی سے پردہ چاک عدنان حیدر اپنے بلاگ میں کر چکے ہیں۔
ہم اب تاریخ سے سبق سیکھنے کی روش کو ترک کرنے کے ایسے ہائیبرڈ نظام کی جانب چل دیئے ہیں کہ 16 دسمبر 71 کے سقوط ڈھاکہ کو بقول حامد میر”یومِ احتساب” کی صورت منانے کے بر خلاف ہم طالبان کی خون ریزی کی المناکیوں میں اپنی کوتاہیاں چھپانے پر نہ صرف تلے بیٹھے ہیں بلکہ نئی نسل کو سقوط ڈھاکہ کے دردناک پہلوئوں سے نا آشنا رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی تاریخ کا ستم ہے کہ پچاس برس قبل ملک کے مشرقی حصے سے جان چھڑانے کے لیئے ریاستی مذہبی انتہا پسندی کے تحت “الشمس و البدر” کے ذریعے مشرقی حصے کے بیانیئے کو مغربی حصے میں “غدار” بنا کر پیش کیا گیا،اور بالکل اسی طرح 16 دسمبر 2014 کی تاریخ کا انتخاب کرکے دوبارہ انتہا پسند مذھبی عناصر کے ذریعے اے پی ایس ایسا دردناک المیئے کو نہ صرف جنم دیا گیا بلکہ اس کے مرکزی کردار پر “احسان” کرتے ہوئے “ہائیبرڈ نظام نے جیل کی آہنی دیواریں اور زنجیریں ریت کی بنادیں اور معصوم بچوں کا یہ قاتل اب آزادانہ زندگی گذار رہا ہے۔
سقوط ڈھاکہ کے المیئے کے چند پہلو پروفیسر وارث میر کے جنگ میں چھپے چار کالموں کے عنوان”میں نے پاکستان دو لخت ہوتے دیکھا” میں بڑی صراحت کے ساتھ عامر میر نے مرتب کیئے ہیں،آج کی نسل کے لیئے مذکورہ چار کالموں کی چنیدہ اور ہوش ربا باتوں سے آگہی ضروری ہے تاکہ نئی نسل آج کے تمام “لاپتہ” افراد کے گم شدہ ہونے اور وطن پرستوں کے دکھوں سے واقف ہو۔
وہ کتنا مشکل وقت ہوگا جب موجودہ ہائیبرڈ نظام کے طاقتور خدائوں نے مئی 71 سے مشرقی پاکستان کے حالات و واقعات کی خبروں سے مغربی حصے کو محروم رکھنے کے لیئے آمرانہ اقدام ذریعے اخبارات پر پابندی عائد کر دی تھی اور مغربی پاکستان کے عوام کو صرف آمرانہ فوجی بیانیئے کی “سب ٹھیک ہے” کی لولی پوپ دی جارہی تھی،تصور کیجیئے کہ اس کڑے وقت نے وارث میر ایسے استاد میں جرات اور بہادری کی جوت جگائی اور ایک استاد اور صحافی کی حیثیت سے وہ طلبہ کا وفد لے کر وگرگوں حالات میں  ڈھاکہ روانہ ہوگئے،اس وقت کے حالات کی تصویر کشی تحت ہی آج بھی وارث میر تاریخ کے دھارے کا معتبر فرد اور حوالہ ہے،جبکہ طاقت اب تک بوٹوں کی دھول چاٹنے میں مصروف عمل ہے۔
ڈھاکہ ٹوٹنے کے دلسوز لمحات کی نشاندہی کرتے ہوئے وارث میر لکھتے ہیں کہ” 1971 کے مارچ اپریل میں میری ملاقات ایک برطانوی ڈپلومیٹ سے ہوئی،اس وقت میرے جوابات پنجاب کی مخصوص سوچ کی نمائندگی کرتے تھے،اس برطانوی نوجوان نے کہا”انتخابات سے پہلے میں نے مشرقی پاکستان میں دیکھا کہ تعلیمی اداروں کے اساتذہ سہمے ہوئے ہیں اور سیاست پر بات کرنے سے پہلے ادھر ادھر ضرور دیکھ لیتے ہیں،خوف و ہراس کی فضا میں کوئی کیسے توقع کر سکتا تھا کہ ووٹ مجیب کی مخالف پارٹیوں کو جاتے ہیں”ہم نے جواب دیا،آپ نے ہندو اساتذہ سے بات کی ہوگی،جبکہ مسلمان کو جھوٹ بولنے اور سازش کرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔۔۔۔جس پر اس برطانوی ڈپلومیٹ نے کہا کہ یحیی نے ٹی وی پر انتقال اقتدار کا کہا ہے تو کیا ان کے ہم پیشہ ساتھی اسے ایسا کرنے دیں گے۔۔۔ہم نے کہا کچھ اور تو اس نے کہا کہ ” جس طرح مجیب کے خلاف حملہ سازش کیس میں کچھ نہ ملا،لہذا اسے رہا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ۔نہیں،جاتے جاتے یہ بھی کہا کہ آپ کے پاس یکطرفہ معلومات ہیں جو کہ حکومتی موقف ہے،آپ مجیب کے موقف کے بارے میں کیا علم رکھتے ہیں”۔۔؟؟
وارث میر لکھتے ہیں کہ “عوامی۔لیگ کے خلاف فوجی کاروائی سے ایک واضح تاثر یہ تھا کہ مغربی۔پاکستان یعنی “پنجابی فوج” نے پنجابیوں اور بہاریوں کی خاطر بنگالیوں پر گولی چلائی ہے۔۔۔۔وارث میر تاریخ کے حوالے یہ بات بھی کر گئے کہ “عوامی۔لیگ کے باغی بنگالیوں(مکتی باہنی) کا مقابلہ کرنے کے۔لیئے فوج نے جماعت اسلامی کے کارکنوں اور بعض دوسرے بنگالی نوجوانوں پر مشتمل رضاکاروں کی دو تنظیمیں البدر اور الشمس بنائی تھیں،اہم سرکاری عمارتوں،بجلی کی تنصیبات،ریڈیو اور ٹیلیویژن اسٹیشن کی حفاظت کا کام،ان تنظیموں کے سپرد تھا بلکہ بغاوت کے دنوں۔میں ٹریفک پولیس کا نظام بھی انہی نوجوانوں نے انجام دیا۔۔۔وارث میر کے بقول بنگالیوں کو فوجی تربیت دکھانے خاطر ہمیں کیمپ لے جایا گیا،انہی نوجوانوں میں شفیق الاسلام۔کا بیٹا بھی تھا،نوجوانوں کے اس دستے کو لڑائی کے لیئے تیار کرنے کی ذمہ داری پاکستانی فوج کے میجر جمیل کے سپرد تھی،یہ وہی میجر جمیل تھے جو لاہور کے اردو اخبار میں “ابوذر غفاری” کے نام سے مضامین لکھتے رہے۔
سقوط ڈھاکہ کے یہ چند گوشے ایک استاد اور صحافت سے وابستہ اس شخص کے ہیں جس کی خدمات اور حقیقت پسندی کو خراج پیش کرنے کے لیئے بنگلہ دیش کا اعلی سول اعزاز حامد میر نے اور پاکستان میں عامر میر نے وصول کیا اور ان کی پاداش میں اب تک۔معتوب و غدار کے لقب سجائے وارث میر کی حق و سچ کی ڈگر سے نہیں ہٹے،سوال یہ ہے کہ کسی کو غدار قرار دینے،ملک دشمن بنا کر پیش کرنے یا جماعت اسلامی کے ذریعے گوادر کے حقیقی قبضے اور سرمایہ کاری کو روکنے سے مسائل حل ہو جائیں گے،کیا آج کی انفارمیشن اور سوشل میڈیا کی یلغار اور ترقی اشرافیہ کے بیانیئے کو وطن پرستی کے سرٹیفیکیٹ بانٹ پائے گی،پاکستان کی عوام۔کو آئینی حق کی ضمانت دینے کے بجائے ان کو “لاپتہ”کرنے سے عوام کی جمہوری اور آئینی سوچ کو طاقت اور بندوق سے روکنا ممکن ہوگا۔۔۔؟؟ یہی کچھ کل “سقوط ڈھاکہ” بنا گیا اور آج کا ہائیبرڈ نظام پھر مشرقی پاکستان ایسے حالات کی جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے ،جس پہ ہر محب وطن فرد نہ صرف پریشان ہے بلکہ مضطرب بھی ہے۔۔۔اس کے سدباب کے لیئے جبر کے “ہائیبرڈ نظام”کو عوام میں آئینی قوانین کی آزادی کے ساتھ جمہوری رائے دینے کی اجازت دینا ہوگی وگرنہ جمہوری وطن کے حصول کے خواب ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔
وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 35 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments