سری لنکا کی مہمان نوازی اور میرا ندامت بھرا دامن


30 نومبر 2007 کو میں کراچی سے لنکا ائیر کے زریعے ممبئی اور پھر کولمبو پہنچا، جہاز کا عملہ تو ملنسار اور خدمتگار تھا ہی مگر مجھے انکی عظمت اور پاکستان سے دوستی کا اندازہ اس وقت ہوا جب امیگریشن انتظامیہ نے مفت میرے پاسپورٹ پر داخلے کی مہر لگائی۔ امیگریشن کے بعد میں نے اپنا بیگ لینا تھا، کافی دیر تک جب میرا بیگ نہ ملا تو میں نے ائیر لائن کے دفتر رابطہ کیا اور ان کو صورتحال بتائی۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک خاتوں میرے پاس آئی اور مجھے چار ہزار کا ایک چیک دیا اور کہنے لگی کہ ائیرپورٹ کے اوپر ہمارے نیشنل بینک کی شاخ ہے آپ وہاں سے رقم لے کر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لیں اور جونہی ہمیں بیگ ملے گا ہم ہوٹل میں پہنچا دیں گے۔ میں نے چیک لیا اور باہر نکلا ہی تھا کہ ایک ڈاکٹر صاحب جو ہمارے ساتھ اسی جہاز پر آئے تھے میرا بیگ لے کر ائیرپورٹ داخل ہو رہے تھے، دراصل میرا بیگ بھی انکے بیگ کے برانڈ کا ہی تھا اور وہ غلطی سے میرا بیگ لے کے ہوٹل چلے گئے تھے اور جاتے ہی انہوں نے جب دوائی لینے کی غرض سے بیگ کھولا تو پتا چلا کہ وہ غلط بیگ لے آئے ہیں۔ اس طرح وہ بیگ لے کر واپس ائیرپورٹ آئے تھے۔ میں نے ان سے بیگ لیا اور واپس جاکر ائیرلائن کے دفتر ان کو اطلاع دی اور ساتھ چیک بھی واپس کردیا۔
ائیر لنکا ہماری میزبان تھی انہوں نے ہمیں سمندر کے ساحل پر گولڈ سٹار ہوٹل میں پہنچایا اور میں ناشتہ کرنے کے بعد سو گیا۔ دوپہر کو کھانے کے دوران ہوٹل کے مینجر سے ملاقات ہوگئی، تعارف ہوا تو اندازہ ہوا کہ وہ پاکستانیوں سے کتنی محبت کرتے ہیں، کھانے کو دوران وہ مجھے بتاتا رہا کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ آپ کے کھانے کی نہیں۔ ہم کئی گھنٹے اکٹھے بیٹھے، ثقافت، دونوں ملکوں کے باہمی روابط پر بات چیت کرتے رہے، سری لنکا اس وقت تخریب کاری کی زد میں تھا، تامل ٹائیگرز نے ان کا جینا حرام کیا ہوا تھا، اس نے پاکستان کی مدد کو بھی سراہا۔ وہ ہماری ثقافت کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا، اس نے مجھے بتایا کہ بہت سارے پاکستانی تاجر سری لنکا میں تجارت اور کاروبار کی غرض سے رہتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد میں شہر کو سیر کرنے چلا گیا۔ بچپن میں ایک فلم “مس کولمبو” دیکھی تھی اور کولمبو دیکھنے کا شوق تھا وہ پورا کیا اور مغرب سے تھوڑی دیر پہلے میں ہوٹل واپس آکر ساحل پر چلاگیا، دسمبر میں ہمارے ہاں تو سردی ہوتی ہے مگر وہاں موسم بہت خوشگوار تھا۔ تقریباً ایک سال پہلے سونامی نے وہاں تباہی مچائی تھی اور ابھی اس کی تباہی کے اثرات باقی تھے۔ میں نے وہاں سے ایک سوئمنگ ٹروزر خریدا جو ابھی تک میں نے سنبھالا ہوا ہے اور جب بھی بیرونی سفر پر جاتا ہوں اسے ساتھ لے لیتا ہوں۔
دہشت گردی سے حفاظت کے پیش نظر شہر کے اندر ان کی آرمی فورس کے دستے پٹرولنگ کر رہے ہوتے تھے اور میں نے محسوس کیا کہ ہم پاکستانیوں کو دیکھتے تو پہت محبت سے پیش آتے تھے۔ سری لنکا ایک خوبصورت جزیرہ ہے اور کولمبو ٹورسٹس کے لئے بہت ہی تفریخ بخش جگہ ہے۔ اس وقت ان کا روپیہ پاکستانی روپے سے کم تھا۔ اگلی صبح ہم ائیر پورٹ پہنچے اور ملائیشیاء کی طرف روانہ ہوگئے۔
ملائیشیا میں میرا انسانی حقوق کے بارے دس دن کا ایک لرننگ پروگرام تھا۔ ملائشیا میں بھی میں نے ویزا وہیں پر حاصل کیا تھا اور ملائشیا کے بارے پھر کبھی بات کریں گے۔ دس دن کے بعد جب میں واپس آیا تو کولمبو ائیرپورٹ پر دوسرے جہاز کی روانگی میں میرا چار پانچ گھنٹے کا دورانیہ تھا۔ مجھے سری لنکا کی کی مہمان نوازی ابھی تک یاد تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں ایک بار پھر ان حسیں یادوں کی فضا میں جا کر اس محبت اور مہمان نوازی کی لذت کو گہرے سانسوں سے محسوس کروں۔ میں امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا اور آفیسر سے بات کی، اس نے کہا کہ ہمارے قوانین کے مطابق آپ کے پاس وقت بہت کم ہے اور دوبارہ سے چیک ان کا وقت بھی درکار ہوگا لہذا انٹری دینا بہت مشکل ہوگا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے ائیرپورٹ کے ہاس ہی رہنا ہے اور میں وقت پر پہنج جاؤں گا۔ اس نے ایک نظر میرے پاسپورٹ پر ڈالی اور دوسری نظر مجھ پر اور میرے پاسپورٹ پر مہر لگائی اور مسکراتے ہوئے میرے حوالے کرنے کے بعد کہنے لگا وقت کا خیال رکھئے گا۔ میں نے دنیا کے سترہ ملکوں کی سیر کی ہے جن میں زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ آج تک پاکستانی پاسپورٹ کے لئے اتنی دوستانہ امیگریشن میں نے نہیں دیکھی۔ میں باہر گیا، ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی، میرے سری لنکا کے بارے احساسات اور محبت بھرے جذبات کو اس بوندا باندی نے ایک عجب سی سرسراہٹ بخشی اور میں نے تقریباً ایک گھنٹہ چہل قدمی کی اور پھر واپس چیک ان کر لیا۔
میرے دل میں سری لنکا کے لوگوں کے لئے محبت ہے ان کی مہمان نوازی کا قرض ہے میں جہاں بھی جاتا ہوں، بیرون ملک سفر کے بارے بات ہوتی ہے تو میں اپنے سری لنکن بھائیوں کی تعریفیں کرتا ہوں ان کی محبت کی کہانی سناتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مگر سیالکوٹ کے وقوعہ نے میرا دامن ندامت سے بھر دیا ہے۔ اب میں کسی کے سامنے ان کی تعریف کس منہ سے کیسے کر پاؤںگا، کیسے ان کی محبت اور مہمان نوازی کی باتیں کروں گا، کس منہ سے۔۔۔۔۔ میں سوچتا ہوں ہم سے اتنی محبت کرنے والے وہ لوگ ہمارے بارے اب کیا سوچتے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ پھر بھی عظیم ہیں، کل ان کے وزیر اعظم نے عمران خان کے اقدام کی تعریف کی ہے۔۔۔۔۔۔ ہمارے تعلقات میں تو اب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر ہم اس ندامت کے احساسات کو شائد کبھی بھی ختم نہ کر پائیں۔
سیالکوٹ کا وقوعہ اور اس پر اُٹھنے والے سوالات ہمارے معاشرے کی تباہی کا پتہ دے رہے ہیں۔ ایسا معاشرہ جس کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ جن کے رہبر کو رحمت العالمین بنا کر بھیجا گیا تھا۔ جن کو زندگی میں ایک دفعہ بھی غصہ نہیں آیا۔ جن کا اخلاق قرآن ہے۔ جن کی شخصیت دنیا کے انسانوں میں اعلیٰ ترین ہے۔
اور اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کے اندر عدم برداشت کی انتہا ہوچکی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی قوت ختم ہوچکی ہے۔ لوگ معاملے کو سمجھے بغیر ہی سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ جذبات، ہوش و حواس پر حاوی ہوچکے ہیں۔قانون کا احترام دلوں سے ختم ہوچکا ہے۔ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ذرا بھی خائف نہیں ہوتے۔ اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔
جو بات سب سے زیادہ خطرناک معلوم ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ اداروں کی حالات پر قابو پانے کی صلاحیت کم پڑتی جارہی ہیں۔ اس سے جرائم پیشہ لوگوں کو حوصلہ ملے گا جس سے جرائم اور زیادہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔اس واقعہ سے قومی املاک کا بھی نا قابل تلافی نقصان ہواہے جس کی تلافی کون کرے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت میں اور اضافہ ہوگا۔
اس بات کا بھی ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ اسلام کے صحیح مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور دین کے نام پر اپنی خواہشات کی پوجا کرتے ہیں۔ جہالت، عدم برداشت، انا پرستی اور ذاتی عناد کو دین کی محبت کا نام دیتے ہیں جو اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ ہمارے رویے اور اعمال دین کے احکامات کی روح کے مکمل برعکس ہیں۔
اس سے بڑی جہالت کیا ہوسکتی ہے کہ ہم دین کے نام پر لادینی کو فروغ دے رہے ہیں اور اخلاقی طور پر ہم پستی کی حدوں کو چھو رہے ہیں۔
یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ کورٹ رادھا کشن کا واقعہ ہوا۔ اقلیت میں شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ کوئی بھی جرم ہو ایک اسلامی ریاست کے اندر شریعہ اور قانون کی رو سے کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اداروں کو اس پر عمل میں آنا چاہیے اور قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔
اب اس واقعہ میں وہ ایک نہتا آدمی تھا، اس نے جتنا بھی بڑا جرم کیا ہو اس کو سنا تو جانا چاہیے تھا۔ اس کو سمجھنا تو چاہیے تھا، وہ ہمارا مہمان تھا، ہماری خدمت کے لئے آیا ہوا تھا۔ اس کی حفاظت ہمارا قومی اور مذہبی فریضہ تھا۔
بہرحال اس طرح کے واقعات کے ہم سب بحیثیت معاشرہ ذمہ دار ہیں جس میں عام آدمی سے لے کر علما اور حکومتی اداروں تک سب شامل ہیں۔ ہمیں ایسے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے سنجیدگی سے ان کے سد باب کے لئے عملی اقدام اٹھانے چاہئیں۔ لوگوں کو سزا بھی ملنی چاہیے اور اس کی وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرتی اصلاح کے لئے بھی حکمت عملی بنا کر اس پر کام کرنا چاہیے۔
دینا میں ہمارا کیا مقام رہ گیا ہے۔ یہ سب جہالت ہے اور جہالت میں ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments