منٹو نے “ٹھنڈا گوشت” کا دفاع کیسے کیا؟ (2)


ڈاکٹر آئی لطیف ہیڈ آف دی سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ ایف سی کالج، لاہور بلائے گئے۔ میں نے ان کا نام سنا تھا لیکن دیکھا کبھی نہیں تھا۔ آپ صوفی صاحب کے بیان کے دوران میں میاں سعید صاحب کے پاس بیٹھے تھے اور رسالہ ”جاوید“ کا خاص نمبر ان کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے ان کی طرف غور ہی نہیں کیا تھا۔ جب وہ بیان دینے لگے تو میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ کالا رنگ، سب سے پہلے مجھے ان کی تیکھی مونچھیں نظر آئیں۔ آپ نے رسالہ ایک طرف رکھا اور کہنا شروع کیا، ”میں نے ’ٹھنڈا گوشت‘ ابھی ابھی پڑھا ہے۔ یہ ایک غلط رسالے میں چھپا ہے۔ میرا مطلب ہے یہ افسانہ ایک پاپولر رسالے میں نہیں چھپنا چاہیے تھا، اگر یہ کسی سائنٹفک رسالے میں کیس ہسٹری کے طور پر مردمی اور نامردی کی تائید یا تردید میں چھپتا تو اس پر فحاشی کا الزام عائد نہیں ہو سکتا تھا۔ جن الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بولنے میں ان کو برا سمجھتا ہوں، لیکن کیس ہسٹری میں یہ الفاظ بڑی اہمیت رکھیں گے۔“

خدا معلوم کیا بات ہوئی کہ ڈاکٹر لطیف نے ایک دم پوچھا، ”مسٹر منٹو کون ہیں۔“ میں نے کہا، ”جناب یہ خاکسار ہے۔“ ڈاکٹر صاحب کی تیکھی مونچھیں تھرتھرائیں۔ آپ نے مجھ سے کچھ کہا اور بیان دینے میں مشغول ہو گئے۔ وکیل صاحب نے میرے کان میں کہا، ”منٹو صاحب آپ کا یہ گواہ تو ہوسٹائل ہو گیا ہے۔ اب آپ اس پر جرح کر سکتے ہیں۔“ میں نے کہا، ”ہٹائیے۔“ لیکن وکیل صاحب نے جرح کر ہی دی۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر لطیف صاحب نے کہا، ”افسانہ ایسے رسالے میں جس کو ہر بچہ، بوڑھا، لڑکا، لڑکی پڑھ سکے، نہیں چھپنا چاہیے تھا۔ کیونکہ ایسی طباع جو جذبات کو مشتعل کرنے والے تاثرات قبول کرنے والی ہوں، یہ افسانہ پڑھ کر مشتعل ہوں گی۔“ جرح ختم ہوئی۔ ڈاکٹر لطیف صاحب میرے پاس آئے۔ ہاتھ ملایا اور کہا، ”آپ نے مجھے گواہی کے لئے بلایا تھا تو کم از کم مل لئے ہوتے۔“ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ انشاء اللہ اب ملاقات کا شرف حاصل کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے پھر ہاتھ ملایا اور چلے گئے۔

اب میں ان چار نوجوان وکیلوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو بڑے ڈرامائی انداز میں میرے مقدمے میں داخل ہوئے تھے۔ پتلی پتلی مونچھوں، تیکھی ناک اور سانولے رنگ والے شیخ خورشید احمد تھے۔ کافی ہاؤس ان کے بغیر نامکمل ہے۔ دوسرے تین تھے مسٹر مظہر الحق، مسٹر سردار محمد اقبال اور مسٹر اعجاز محمد خان۔ آپ لوگوں کو بار روم میں معلوم ہوا کہ میں خود اپنا کیس کنڈکٹ کر رہا ہوں اور پریشان ہوں تو وہ میری مدد کے لئے چلے آئے۔ میں نے ان کا شکریہ مناسب و موزوں الفاظ میں ادا کیا۔ شیخ خورشید احمد نے کہا، ”اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن داد دیجئے کہ میں نے آپ کا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ پڑھا کیا دیکھا تک نہیں۔“ ہم سب خوب ہنسے۔ شیخ نے کہا، ”اور میں شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ مسٹر اقبال نے بھی یہ افسانہ ابھی تک نہیں پڑھا۔“

ہماری طرف سے سات گواہ اب تک پیش ہوئے تھے۔ بقایا گواہوں کو بلوانے کے لئے جب شیخ خورشید صاحب نے عدالت سے درخواست کی جو مسترد کر دی گئی۔ مجسٹریٹ صاحب نے اس خیال سے کہ ہمارا پلڑا وزنی ہے، عدالت کی طرف سے چار گواہ طلب کیے۔ مولانا تاجور نجیب آبادی، شورش کاشمیری، ابو سعید بزمی اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر۔ کئی تاریخیں بھگتیں مگر یہ حضرات جمع نہ ہوئے۔ آخر ایک تاریخ پر سب آ گئے۔ تاجور صاحب سے علیک سلیک ہوئی تو آپ نے لکچر پلانا شروع کر دیا۔ کہ میں ایسے غلیظ فحش اور واہیات افسانے لکھتا ہوں۔ میں خاموش سنتا رہا، اس لئے کہ مولانا کے ساتھ بحث کرنا فضول تھا۔

آغا شورش بڑے پرشور طریقے پر ملے۔ ابو سعید بزمی نے مجھ سے ایک سگریٹ لیا اور سلگا کر ٹہلنے لگے۔ آواز پڑی تو حاضر عدالت ہوئے۔ کارروائی شروع ہوئی۔ پہلے گواہ منجانب عدالت شمس العلماء مولانا احسان اللہ خان تاجور نجیب آبادی پروفیسر دیال سنگھ کالج لاہور تھے۔ آپ نے فرمایا، ”ٹھنڈا گوشت کسی مسجد میں یا کسی مجلس میں جماعتی حیثیت میں سننا پسند نہیں کیا جا سکتا، اگر کوئی پڑھے تو اپنا سر سلامت لے کر نہ جا سکے۔ چالیس سالہ ادبی زندگی میں ایسا ذلیل اور گندا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا۔“ میں نے مولانا سے چند سوال کیے تو آپ نے جواباً کہا، ”یہ افسانہ میں نے پہلی بار دیال سنگھ کالج میں پڑھا لیکن پورا نہیں پڑھا۔ تھوڑا سا پڑھا اور لغو سمجھ کر بند کر دیا۔ مثنوی گلزار نسیم میں بکاؤلی اور تاج الملوک کی شادی کا تذکرہ اخلاق سے متصادم ہے۔ فسانہ عجائب، مثنوی بہار عشق، مثنوی فریب عشق اور الف لیلیٰ میں جو فحش حصے ہیں وہ فحش ہیں۔ حکایت خانم و کنیز کا ذکر مثنوی مولانا روم میں آتا ہے لیکن میں نے نہیں پڑھا۔ جنسی ترغیب کا پہلو مثنوی مولانا روم میں نہیں ہو سکتا۔“

جی چاہتا تھا کہ مولانا کو خوب ستاؤں مگر میں نے مناسب خیال نہ کیا اور چند سوال اور کر کے ان کو چھوڑ دیا۔ اب آغا شورش کاشمیری ولد آغا نظام الدین ایڈیٹر ہفتہ وار ”چٹان“ مونچھوں کے اندر مسکراہٹیں بکھیرتے تشریف لائے۔ میری طرف دیکھ کر آپ کھل کر مسکرائے اور بیان دینا شروع کر دیا۔ آپ نے فرمایا، ”جہاں تک میرے علم اور احساسات کا تعلق ہے میں نے ’ٹھنڈا گوشت‘ سے اچھے تاثرات فراہم نہیں کیے۔ جس سماج اور گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اس کے پیش نظر میں ایسا مضمون اپنے پرچے میں شائع نہیں کروں گا۔ میرا مدرسہ فکر اسے گوارا نہیں کرتا۔“

استغاثے کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آغا صاحب نے کہا، ”اس سے اوباش قاری کو ترغیب ہوتی ہے، ان لوگوں کو جن کا رجحان طبیعت خاص طور پر بدکاری کی طرف مائل ہو۔“ ہماری طرف سے آغا صاحب پر کوئی جرح نہ کی گئی۔ ابو سعید بزمی ایڈیٹر احسان لاہور پیش ہوئے تو آپ نے افسانے کو مخرب اخلاق قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”افسانہ معنی و مطلب کی وجہ سے قابل اعتراض ہے۔“ میں نے بزمی سے پوچھا، ”کیوں حضرت! یہ بتائیے کیا اسی عدالت میں آپ کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ چل رہا ہے؟“ آپ نے جب ”جی ہاں“ کہا تو مجسٹریٹ صاحب نے حیرت سے پوچھا، ”میری عدالت میں؟“ بزمی صاحب نے پھر جواب دیا، ”جی ہاں!“ مجسٹریٹ صاحب نے قلم سے سر کھجا کر پائپ سلگایا اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔

آخری گواہ منجانب عدالت پیش ہوئے یعنی ڈاکٹر تاثیر صاحب پرنسپل اسلامیہ کالج، لاہور۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ”کہانی ادبی لحاظ سے ناقص ہے لیکن ہے ادبی، نشان لگائے ہوئے الفاظ کچھ اس کہانی کے لئے ضروری ہیں کچھ غیر ضروری۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کو ناشائستہ کہا جا سکتا ہے لیکن میں فحش اس لئے نہیں کہتا کہ لفظ فحش کی تعریف کے متعلق میں واضح نہیں ہوں۔ میرے خیال میں جن لوگوں کا میلان بدکاری کی طرف ہے ان کے لئے اس مضمون سے جنسی کراہت ہوگی، جنسی ترغیب نہیں ہوگی۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ کا مطلب مردہ لڑکی ہے۔ میں اس کہانی کو ایک عام جنسی کہانی سمجھتا ہوں۔ یہ جنسی اخلاق خراب نہیں کرتی۔“

عدالت کی تمام کارروائی ختم ہوئی۔ اب فیصلہ باقی تھا جو میاں اے ایم سعید صاحب سماعت کے دوران میں کئی مرتبہ زبانی سنا چکے تھے۔ شیخ خورشید احمد کو یقین تھا کہ ہم سب کو جرمانہ ہو گا۔ فیصلے کی تاریخ سولہ جنوری (یہی سال) مقرر ہوئی۔ نصیر انور بالکل بے پروا تھا۔ ساری سماعت کے دوران میں وہ ہنستا مسکراتا رہا۔ عارف عبد المتین البتہ سارا وقت بہت پریشان رہے۔ ان کی اس پریشانی کا باعث یہ بھی تھا کہ ان کے معمر والد بڑے ہراساں تھے۔ جب صفائی کی گواہیاں ختم ہوئی تھیں تو میں نے اپنا تحریری بیان داخل کیا تھا۔ اس کو پڑھ کر مجھے اچھی طرح یاد ہے، مجسٹریٹ صاحب نے فرمایا تھا، ”یہ بیان ہی ملزم کو سزا دینے کے لئے کافی ہے۔“

یہ بیان حسب ذیل ہے، میں افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ مطبوعہ ماہنامہ ”جاوید“ لاہور کا مصنف ہوں جو استغاثے کے نزدیک عریاں اور فحش ہے۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ یہ افسانہ کسی بھی نکتہ نظر سے ایسا نہیں ہے۔ فحاشی کے متعلق بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور کہا جا سکتا ہے، مگر یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ”ادب“ ہرگز ہرگز فحش نہیں ہو سکتا۔ افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ کو اگر ادب کے دائرے سے باہر کر دیا جائے تو اس کے فحش ہونے یا نہ ہونے کا سوال پیدا ہو سکتا ہے، مگر یہ افسانہ ایک ادیب کی تصنیف ہے جو ادب جدید میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا ثبوت اس کی تصانیف ہیں اور وہ مضامین ہیں جو قریب قریب ہر ادبی رسالے میں اس کے فن پر شائع ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے تین مرتبہ چند افسانوں کے بارے میں شبہ ہوا تھا کہ وہ فحش ہیں۔ چنانچہ مجھ پر مقدمے چلے۔ سزائیں ہوئیں، لیکن اپیل کرنے پر ہر بار سیشن کورٹ میں مجھے اور میرے افسانوں کو فحاشی کے الزام سے بری کیا گیا۔

میرے ایک مقدمے کے سلسلے میں مسٹر ایم آر بھاٹیہ ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کے یہ الفاظ قابل غور ہیں، ”قابل غور امر ہے کہ ایسے اشخاص ملزمین کی صفائی میں پیش ہوئے ہیں جو اردو زبان کے عالم ہونے کی حیثیت میں بہت مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر خان بہادر عبدالرحمن چغتائی، مسٹر کے ایل کپور پروفیسر ڈی اے وی کالج، راجندر سنگھ بیدی اور ڈاکٹر آئی لطیف پروفیسر ایف سی کالج جو بطور گواہان صفائی پیش ہوئے۔ ان سب کی رائے ہے کہ مضمون (بو) میں ایسی کوئی چیز نہیں جو شہوانی حسیات پیدا کرے بلکہ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مضمون ترقی پسند ہے اور اردو ادب کے موڈرن رجحان سے تعلق رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ استغاثے کے گواہ نمبر چار بشیر نے دوران جرح میں تسلیم کیا کہ مضمون انسان کے اخلاق پر برا اثر نہیں ڈالتا۔

ماتحت عدالت فاضلہ نے ہندوستانی نوجوان کی تعیش پسند زندگی کا ذکر کرتے ہوئے افسوس کیا ہے کہ اس بات پر ماتم کیا ہے کہ ملک میں ہندوستانیوں کا پرانا کیریکٹر نابود ہو رہا ہے (ماتحت عدالت کے فاضل جج) نے وہ خوبیاں بھی یاد کرائی ہیں۔ جن کے لئے ہم ہندوستانی کبھی مشہور تھے اور نصیحت کی ہے کہ نئے فیشنوں کو ختم کر دینا چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماتحت عدالت فاضلہ کے خیالات ترقی پسند نہیں ہیں۔ ہمیں زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ حسین چیز ایک دائمی مسرت ہے۔ آرٹ جہاں بھی ملے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے آرٹ خواہ وہ تصویر کی صورت میں ہو یا مجسمے کی شکل میں۔ سوسائٹی کے لئے قطعی طور پر ایک پیش کش ہے۔ چاہے اس کا موضوع غیر مستوری کیوں نہ ہو۔ یہی کلیہ تحریروں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔

جب ملک کے مشہور و معروف آرٹسٹوں اور ادیبوں نے ملزمان کے حق میں کہا ہے۔ سارا فیصلہ یہیں ہو جاتا ہے۔ زیربحث مضمون ایسا نہیں کہ جس پر کسی قانونی عدالت میں نکتہ چینی کی جائے۔ اس لئے مجھے اپیل منظور کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں۔ جرمانہ اگر ادا کیا گیا ہے تو واپس کیا جائے۔ میں اپیل کرنے والوں کو بری کرتا ہوں۔ ”

اس فیصلے سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آرٹ فحش نہیں ہو سکتا ہے اور کسی فن پارے پر کسی قانونی عدالت میں نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیئے۔ کوئی لٹریری پیس یعنی ادب پارہ معیاری یا غیر معیاری ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ آرٹسٹ ہو سکتا ہے اپنا معیار قائم نہ رکھ سکے۔ افسانہ نگار کا ہر افسانہ اس کا شاہکار نہیں ہو سکتا۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ کے اسٹینڈرڈ کے بارے میں کہا سنا جا سکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ افسانہ میرے دوسرے افسانوں کے پائے کا نہیں۔ یہ کام ادبی نقادوں کا ہے اور انہیں اس بات کا حق ہے کہ وہ جانچیں، پرکھیں، مگر اس افسانے پر کسی صورت میں بھی فحاشی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لئے کہ مصنف کی طرف سے افسانوی ادب میں اچھا برا جیسا بھی ہے یہ ایک اضافہ ہے، لیکن اس صورت میں کہ مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنا ہے۔ آئیے ہم اس افسانے کو اچھی طرح جانچیں کہ اس میں فحاشی کا کوئی پہلو نکلتا ہے یا نہیں۔

افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایک افسانہ ہے جس کا عقبی منظر یوں تو گزشتہ فسادات ہیں، لیکن دراصل جس کی بنیاد انسانی نفسیات پر قائم ہے اور انسانی نفسیات کا ”جنس“ سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ افسانے میں دو کردار ہیں۔ ایشر سنگھ اور اس کی داشتہ یا بیوی کلونت کور کا۔ دونوں ٹھیٹ قسم کے گنوار سکھ ہیں۔ دونوں جنسی لحاظ سے بہت تگڑے ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ ایشر سنگھ کو جنسی تشفی صرف کلونت کور ایسی عورت ہی سے اور کلونت کور کو جنسی تشفی صرف ایشر سنگھ ایسے مضبوط اور توانا مرد ہی سے مل سکتی تھی۔ دونوں کی جنسی زندگی بڑی ہموار تھی، لیکن ایک ایسا وقت آیا ہے جب کلونت کور محسوس کرتی ہے کہ ایشر سنگھ تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کی جنسی محبت میں پہلی سی توانائی نہیں رہی۔ وہ اس سے بے رخی برت رہا ہے۔ کسی اور عورت سے اس نے ناتا جوڑ لیا ہے۔

اصل بات یہ تھی کہ سردار ایشر سنگھ ایک زبردست نفسیاتی رد عمل کا شکار تھا۔ جس کے باعث اس کی جنسی توانائی قریب قریب مفلوج ہو چکی تھی۔ وہ لوٹ مار کے دوران میں قتل و غارت کرنے کے بعد ایک نوجوان مسلم دوشیزہ اٹھا لایا تھا کہ تبدیلی کے طور پر وہ اس سے جنسی حظ اٹھائے، مگر جب اس نے ایسا کرنا چاہا تو اسے معلوم ہوا کہ لڑکی دہشت کے مارے اس کے کندھوں پر ہی مر چکی تھی اور اس کے سامنے ایک ٹھنڈی لاش پڑی تھی۔ اس کی تپی ہوئی شہوانی خواہشات کے سامنے ٹھنڈے گوشت کا لوتھڑا۔ اس کا ایشر سنگھ کو کچھ ایسا زبردست احساس ہوا کہ نفسیاتی طور پر نامرد ہو گیا۔

اگر ایشر سنگھ کو ٹھنڈی عورتوں سے سابقہ پڑا ہوتا، اگر ایشر سنگھ خود ٹھنڈا مرد ہوتا تو اتنا زبردست نفسیاتی ردعمل نہ ہوتا، مگر جیسا کہ اس کا کردار پینٹ کیا گیا ہے، وہ جنسی لحاظ سے بہت ہی توانا تھا اور اس کا جنسی رشتہ ایک ایسی عورت سے تھا جو ہر لحاظ سے اس کا ہم پایہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کیے گئے حادثے نے اسے جنسی لحاظ سے بالکل نکما کر دیا۔ یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ قتل و غارت نے اور لوٹ مارنے ایشر سنگھ پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ اس نے کئی انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا مگر اس کے ضمیر پر احساس کی ایک ہلکی سی خراش بھی نہ آئی تھی، لیکن جب وہ لڑکی کی ٹھنڈی لاش پر جھکا تو اس کی مردانگی غائب ہو گئی۔

افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ کے بطن میں جو کچھ بھی ہے، ظاہر ہے کہ فحش نہیں۔ عنوان ہی ایک بین ثبوت ہے کہ افسانہ پڑھنے والوں کے دل و دماغ میں شہوت کی گرم لہریں نہیں دوڑائے گا۔ جو حادثہ ایشر سنگھ کو پیش آیا وہ کیسے کسی قاری کی شہوانی جذبات کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ ایشر سنگھ کا انداز گفتگو اس کا اپنا ہے۔ ہزاروں آدمی عام روزمرہ کی زندگی میں وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو مصنف نے اس کے منہ سے کہلوائے ہیں۔ اس کی حرکات غیر فطری نہیں۔ اسی طرح کلونت کور کے متعلق کہا جا سکتا ہے۔ استغاثے کے فاضل وکیل نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ ایشر سنگھ کے مکالموں میں گالیاں استعمال کی گئی ہیں۔ میں یہاں گالی کی نفسیات پر بحث نہیں کروں گا، مگر یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ وہ الفاظ جو استغاثے کے وکیل کے نزدیک گالی ہیں اصل میں گالی نہیں ہیں۔ میں یہاں گالی کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب، مرزا شہاب الدین خان صاحب کے نام ایک رقعے میں لکھتے ہیں،

”یہ اشعار جو تم نے بھیجے ہیں۔ خدا جانے کس ولدالزنا نے داخل کر دیے ہیں۔ اگر یہ شعر متن میں پائے بھی جاویں تو یوں سمجھنا کسی ملعون زن جلب نے اصل کلام کو چھیل کر یہ خرافات لکھ دیے ہیں۔“ (اردوئے معلی صفحہ 217 )

مرزا شہاب الدین کے نام ایک اور خط میں ارشاد ہوتا ہے، ”میاں وہ قاضی مسخرہ تو چوتیا ہے۔“ (اردوئے معلی صفحہ 318 )

گالی کے یہ نمونے تو ہو گئے، لیکن اگر کوئی شخص گفتگو کے دوران میں یہ کہے، ”میں بھی عجیب چوتیا ہوں کہ آپ یہاں اور میں آپ کو لاہور ڈھونڈتا پھرا۔“ تو ظاہر ہے لفظ ”چوتیا“ گالی نہیں۔ ”سالا“ ہمارے یہاں بہت بڑی گالی متصور کی جاتی ہے۔ لیکن بمبئی میں لفظ ”سالا“ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ عام گفتگو میں آپ کو وہاں ایسے کئی فقرے سننے میں آئیں گے۔

”ہمارا باپ سالا بڑا اچھا آدمی ہے۔“
”سالا ہم سے مشٹیک ہو گیا۔“
”سالا کیسی بات کرتا ہے۔“

ماں بہن کی گالی یو پی اور پنجاب میں گفتگو میں عام استعمال ہوتی ہے اور کسی کے کان کھڑے نہیں ہوتے۔ خاص گالی اکثر لوگوں کا تکیہ کلام بن جاتی ہے۔ ایشر سنگھ بھی چند گالیوں کو تکیہ کلام کے طور پر ہی استعمال کرتا ہے۔ اس لئے استغاثے کے فاضل وکیل کا اس نکتے پر زور دینا بالکل بیکار ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہم بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایشر سنگھ جیسے اجڈ اور گنوار آدمی سے شائستہ کلامی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کے منہ میں اگر مصنف نے مہذب اور شائستہ الفاظ ڈالے ہوتے تو افسانے میں حقیقت نگاری کا خاتمہ ہو جاتا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ افسانہ ایک بہت ہی بھونڈی شکل اختیار کر لیتا اور آرٹ کی سطح سے بہت ہی نیچے خرافات کے کھڈ میں جا گرتا۔

سوال ہے۔ جو چیز جیسی ہے اسے من و عن کیوں نہ پیش کیا جائے۔ ٹاٹ کو اطلس کیوں بنایا جائے۔ غلاظت کے ڈھیر کو عود و عنبر کے انبار میں کیوں تبدیل کیا جائے۔ حقیقت سے انحراف کیا ہمیں بہتر انسان بننے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ پھر ایشر سنگھ کے کردار اور اس کی گفتار پر اعتراض کیا معنی رکھتا ہے۔ ایشر سنگھ گندا ذہن سہی، افسانے کا موضوع گھناؤنا سہی، لیکن کیا اس کو پڑھنے کے بعد ہمیں انسانیت کی وہ رمق دکھائی نہیں دیتی جو ایشر سنگھ کے سیاہ قلب میں خود اس کا مکروہ فعل پیدا کرتا ہے اور یہ ایک صحت مند چیز ہے کہ اس افسانے کا مصنف انسانوں اور انسانیت سے مایوس نہیں ہوا۔ اگر مصنف نے ایشر سنگھ کے دل و دماغ پر نفسیاتی ردعمل پیدا نہ کیا ہوتا تو یقیناً ’ٹھنڈا گوشت‘ ایک نہایت ہی مہمل چیز ہوتی۔

مجھے افسوس ہے کہ وہ تحریر جو انسانوں کو بتاتی ہے کہ وہ انسان سے حیوان بن کر بھی انسانیت سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ فحش اور شہوات کو ابھارنے والی سمجھی جا رہی ہے اور یہ لطیفہ ہے کہ افسانے میں ایک انسان کو اس کی رہی سہی انسانیت ایک بہت بڑی سزا دیتی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ایشر سنگھ کو اپنی چری ہوئی گردن کا بالکل احساس نہیں تھا، اس کو آخری سانس تک صرف ایک ہی بات ستاتی رہی۔ کہ وہ ایک ٹھنڈی لاش سے زنا کرنے والا تھا۔

فرانس میں مشہور ناول نگار فلابئیر کی تصنیف ’مادام بوواری‘ پر فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا تو وکیل صفائی موسیو سینار نے فاضلانہ بحث کے دوران میں کہا، ”حضرات! یہ کتاب جو بقول وکیل استغاثہ شہوانی جذبات کو بھڑکاتی ہے۔ موسیو فلابئیر کے وسیع مطالعے اور غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اس نے اپنی توجہ متین فطرت کی وساطت سے ایسے ہی متین اور ملول مضامین کی طرف منعطف کی ہے۔ وہ ایسا آدمی نہیں جس کے خلاف وکیل استغاثہ نے ہیجان خیز تصویروں کی نقاشی کے الزام میں جگہ جگہ اپنی تقریر میں زہر اگلا ہے۔ میں پھر دہراتا ہوں کہ فلابیر کی فطرت میں بے انتہا سنگینی، شدید سنجیدگی اور بے پناہ ملال بھرا پڑا ہے۔“

میں اپنے متعلق صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک شریف خاندان کا فرد ہوں۔ اتفاق سے میرا پیشہ تصنیف و تالیف ہے۔ اپنی فطرت اور جو تعلیم و تربیت مجھے ملی ہے اس کی بدولت میں نے آج تک سستا اور سوقیانہ ادب پیش نہیں کیا۔ اردو کے جدید ادب سے جو ذرا سا بھی واسطہ رکھتے ہیں، ان کو میرے ادبی مقام کا علم ہے۔ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ میں فلابئیر کی فطرت کی بے انتہا سنگینی اور شدید سنجیدگی شاید نہ ہو لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بے پناہ ملال سے بھرا پڑا ہے اور جب سوال ملال کا ہو تو شہوت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔

اب افسانے کے اس پہلو سے بھی دیکھا جائے کہ مصنف کی نیت کیا ہے۔ رائے صاحب لالہ سنت رام کی عدالت میں اپنے افسانے ”دھواں“ کے سلسلے میں صفائی کا بیان دیتے ہوئے میں نے کہا تھا، ”تحریر و تقریر میں، شعر و شاعری میں، سنگ سازی و صنم تراشی میں فحاشی تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہیے، اگر یہ ترغیب موجود ہے، اگر اس کا ایک شائبہ بھی نظر آ رہا ہے تو وہ تحریر، وہ تقریر، وہ شعر وہ بت قطعی طور پر فحش ہے۔“ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی ترغیب زیربحث افسانے میں نہیں۔ میں افسانے کا تجزیہ اوپر کر چکا ہوں جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مصنف کی نیت میں کوئی فرق نہیں تھا اور اس نے محض ایک نفسیاتی حقیقت کو اس کے صحیح روپ میں افسانے کی صورت میں پیش کیا ہے۔

افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ پڑھ کر اگر کسی صاحب کے جذبات برانگیختہ ہوں تو انہیں کسی ذہنی معالج سے رجوع کرنا چاہیئے۔ افسانہ ”دھواں“ ہی کی صفائی کے سلسلے میں، میں نے اپنے بیان میں کہا تھا، ”ایک مریض جسم، ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے۔ جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہیں کے لئے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے۔ میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لئے ہیں۔ نورمل انسانوں کے لئے، جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے۔“ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ بھی دوسرے ادب پاروں کی طرح صحت مند دماغوں کے لئے ہے۔ ایسے دماغوں کے لئے نہیں ہے، جو معصوم اور پاکیزہ چیزوں میں بھی شہوت کرید لیتے ہیں۔

اگر کوئی عورت لوہے کی مشین کی حرکت سے شہوانی لذت حاصل کر لیتی ہے تو کیا اس لوہے کی مشین یا اس کی حرکت پر سفلی جذبات برانگیختہ کرنے کا الزام دھرا جائے گا۔ دنیا میں تو ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو مقدس کتابوں سے بھی شہوانی لذت حاصل کرلیتے ہیں، مگر ایسے لوگوں کا علاج ہونا چاہیے۔

امریکہ میں مشہور مصنف جیمز جوئیس کی تصنیف ’یولی سیز‘ کو فحاشی سے بری کرتے ہوئے جج وولزے نے اپنے فیصلے میں لکھا، ”ایک خاص کتاب ایسے جذبات اور خیالات پیدا کر سکتی ہے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ عدالت کی رائے کے ذریعے یہ دیکھ کر ہو گا کہ اوسط درجے کے جنسی جبلتیں رکھنے والے آدمی پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔ ایسے آدمی پر جسے فرانسیسی ’معمولی قسم کی حسیات رکھنے والا انسان‘ کہتے ہیں اور جس کی حیثیت قانون تفتیش کی اس شاخ میں ایک فرضی عامل کی ہوتی ہے جیسے عدالت خفیفہ کے مقدموں میں ’سمجھ بوجھ والے آدمی‘ کی حیثیت ہوتی ہے، یا رجسٹری کے قانون میں ایجاد کے مسئلے کے متعلق ’فن کے ماہر‘ کی۔“ قانون کا تعلق صرف اوسط درجے کے آدمی سے ہے، چنانچہ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ کے متعلق کوئی فیصلہ مرتب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے مطالعے سے ایک اوسط درجے کی جنسی جبلتیں رکھنے والے آدمی کے دل و دماغ پر کیا اثر ہوتا ہے۔

مشہور امریکی ناول نگار ارسکائن کیلڈول کی تصنیف ”گوڈز لٹل ایکٹر“ کو فحاشی کے الزام سے بری کرتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا، ”مصنف کا مقصد ایک سچی تصویر پینٹ کرنا تھا۔ ایسی تصویروں میں بعض ضروری تفصیلوں کا آ جانا لابدی امر ہے اور چونکہ ایسی تفصیلوں کا گہرا تعلق زندگی کے جنسی پہلو سے ہوتا ہے، اس لئے انہیں بہیمانہ صاف گوئی کے ساتھ بیان کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے عدالت یہ حکم صادر نہیں کر سکتی کہ ایسی تصویریں سرے سے بنائی ہی نہ جائیں۔ کرداروں کی زبان بلاشبہ بھدی اور گندی ہے، مگر عدالت مصنف سے ان پڑھ اور غیر مہذب لوگوں کے منہ میں شائستہ زبان ڈال دینے کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی۔“

افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ ایک سچی تصویر ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں۔ بڑی ہی بہیمانہ صاف گوئی سے اس میں ایک نفسیاتی حقیقت کی نقاب کشائی کی گئی ہے، اگر اس میں کہیں گندگی اور غلاظت ہے تو اسے مصنف کے ساتھ نہیں بلکہ افسانے کے کرداروں کی ذہنی سطح کے ساتھ منسوب کرنا چاہیے۔ کسی تحریر کے چند الفاظ اگر چمٹے سے اٹھا کر لوگوں کو دکھائے جائیں کہ فحش ہیں تو اس سے کوئی صحیح اندازہ نہیں ہو گا۔ ان الفاظ کی جداگانہ اشاعت قابل گرفت ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے غالب، میر، ارسٹوفین، چاسر، بوکشیو، بلکہ کتاب مقدس تک کے بعض مقامات کو قابل تعزیر گردانا جا سکتا ہے۔ تاہم کسی تحریر کو سمجھنے کے لئے اسے مجموعی طور ہی سے دیکھنا پڑے گا۔

مجھے آخر میں یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ استغاثے کی طرف سے میری تصنیف ’ٹھنڈا گوشت‘ پر کوئی ادبی تنقید نہیں ہوئی، اگر ایسا ہوتا تو مجھے دلی مسرت ہوتی۔ افسانے میں اگر کوئی فنی کمزوری رہ گئی تھی، بیان میں اگر کوئی سقم تھا، انشاء میں اگر کوئی خامی تھی تو مجھے اس کا علم ہو جاتا اور میں کچھ حاصل کرتا۔ لیکن میں یہاں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہوں اور ایک نہایت ہی گھناؤنے الزام کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ میں نے اپنی تصنیف کے ذریعے سے لوگوں کے شہوانی جذبات ابھارے ہیں۔ اس کے خلاف میرے دل سے احتجاج کے سوا اور کیا چیز نکل سکتی ہے۔ حیرت ہے کہ ’ٹھنڈا گوشت‘ پڑھ کر قاری کا ذہن خوف و نفرت میں ملفوف ہونے کے بجائے شہوت سے ملوث کیسے ہو سکتا ہے۔ اور بھی حیرت ہے کہ ایشر سنگھ کو جو ہولناک سزا ملی وہ پڑھنے والے کے دل و دماغ میں شہوانی جذبات کیسے بیدار کر سکتی ہے۔

سولہ جنوری آن پہنچی۔ شیخ سلیم بہت پریشان تھا۔ اس پریشانی کے باعث اس نے زیادہ پینا شروع کر دی۔ نصیر انور حسب معمول بے پروا تھا۔ عزیزی عارف عبد المتین کا حلق پہلے سے زیادہ خشک ہو گیا تھا۔ سولہ جنوری کی صبح کو پانچ سو روپے جیب میں ڈال کر میں ضلع کچہری روانہ ہوا۔ شیخ سلیم پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ صبح سے پی رہا تھا۔ بوتل پتلون کی جیب میں تھی۔ خود بہت مضطرب تھا، لیکن بار بار مجھے تسلی دیتا تھا، ”بھائی جان، فکر کی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ میں یہ سن کر مسکرا دیتا۔ اتنے میں نصیر انور اور عارف عبدالمتین بھی آ گئے۔ عارف نے مجھ سے بڑے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا، ”منٹو صاحب! آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا ہو گا؟“ میں نے جواب دیا، ”وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔“

عارف عبدالمتین

مجسٹریٹ صاحب آ چکے تھے مگر فیصلہ سنانے کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ گیارہ بج گئے۔ بارہ بج گئے۔ پانی پی پی کر ہمارے پیٹ اپھر گئے، مگر آواز نہ پڑی۔ اتنے میں میرے ایک مخبر نے مجھے بتایا کہ فیصلہ تیار ہے، مگر میاں اے ایم سعید اس میں شاید کچھ ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد پتا چلا کہ میاں صاحب غائب ہیں۔ یعنی اپنے کمرے میں موجود نہیں اور یہ کہ انہوں نے صبح سے کسی مقدمے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایک صاحب نے یہ کہا کہ وہ بہت پریشان ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ تھوڑی دیر کے بعد مخبر پکی خبر لایا۔ ایک طرف لے جا کر اس نے مجھ سے سرگوشی میں کہا، ”میں فیصلہ دیکھ آیا ہوں۔ جلدی جلدی میں دیکھا ہے۔ صرف چند آخری سطریں۔ آپ کو یقیناً سزا ہوگی اور جرمانہ بھی۔ آپ کے نام کے آگے یہ لکھا تھا۔ And Sentence him to undergo اس کے آگے جگہ خالی تھی۔ دوسرے ملزموں کو صرف جرمانہ ہو گا۔ میں جاتا ہوں اور ضامن کا بندوبست کرتا ہوں۔“

میں سوچنے لگا۔ سزا کتنی ہوگی۔ ایک ماہ کی، دو ماہ کی یا چند دنوں کی؟ میں نے کسی سے بات نہ کی، البتہ شیخ خورشید صاحب کو سب کچھ بتا دیا۔ آپ نے فوراً ضمانت کے کاغذ تیار کر لئے اور مجھ سے کہا، ”گھبرایئے نہیں منٹو صاحب! سزا زیادہ سے زیادہ دس بارہ یوم کی ہوگی۔“ لیکن پھر کچھ سوچ کر تشویش ناک لہجے میں کہا، ”لیکن ایسا نہ ہو ضمانت لینے سے انکار کردے۔“ یہ سن کر مجھے بہت تشویش ہوئی کیونکہ مجسٹریٹ صاحب کا رویہ شروع ہی سے مخاصمانہ رہا تھا، لیکن کچھ کہا بھی تو نہیں جا سکتا تھا۔ خاموش دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔ آخر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے شیخ سلیم کو ساری بات بتا دی۔ میرے جی کا بوجھ تو کسی قدر ہلکا ہو گیا، مگر شیخ بیچارہ اور زیادہ مضطرب ہو گیا، لیکن تسلی دینے کی خاطر مجھ سے کہا، ”کچھ فکر نہ کرو بھائی جان۔ میں ٹیکسی لے کر وہاں جیل میں پہنچوں گا۔ روپیہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ میں ایسے معاملے نبیڑنا جانتا ہوں۔ میرا خیال ہے آپ اس وقت ایک بڑا پیگ لگا لیجیے۔“

میں نے کہا، ”نہیں شیخ صاحب۔ شام کو۔“ شیخ صاحب نے کہا، ”تو آپ مطمئن رہیں، میں آپ کو وہاں پہنچا دوں گا۔“ یہ سن کر مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ایک بج چکا تھا۔ شیخ سلیم، نصیر انور اور میں نے گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل کے سامنے گھاس کے میدان پر بیٹھ کر ”آلو چھولے“ کھائے اور اس خیال سے کہ کہیں آواز نہ پڑ جائے، جلدی لوٹ آئے اور فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔ نصیر انور اور عارف عبدالمتین سے میں نے اشارتاً کئی بار کہہ دیا تھا کہ وہ جرمانے کا بندوبست کر لیں تاکہ عین وقت پر پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شیخ سلیم پی پی کر اسکیمیں سوچ رہا تھا کہ وہ جیل میں مجھ تک کیسے پہنچے گا اور میری آسائش کا بندوبست کن ذرائع سے کرے گا۔

عزیزی مشتاق احمد اپنے ایک دولت مند دوست شریف صاحب کو میری ضمانت دینے کے لئے پکڑ لائے تھے۔ یہ غریب بھی ہماری طرح کھڑے بور ہو رہے تھے۔ شیخ سلیم کو غصہ تھا کہ جب وہ موجود ہے تو کوئی اور ضمانت دینے کے لئے کیوں لایا گیا۔ میں نے ان سے کہا، ”شیخ صاحب! اگر آپ کو ضمانت دینے ہی کا شوق ہے تو دو ملزم اور موجود ہیں۔“ شیخ صاحب اس وقت اچھے موڈ میں تھے۔ میری یہ بات سن کر مسکرا دیے اور ایک پیگ اور چڑھا کر اسکیمیں سوچنے میں محو ہو گئے۔ ان کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ منٹو کی شام خراب ہو جائے گی۔

پانچ بج گئے۔ تشویش اور تردد بڑھتا گیا۔ نصیر بالکل بے پروا تھا۔ جیسے کچھ ہونے والا نہیں۔ اس کی یہ بے پروائی قابل رشک تھی۔ عارف عبد المتین کا حلق اب اتنا خشک ہو چکا تھا کہ اس نے بولنا بند کر دیا تھا۔ ساڑھے پانچ ہوئے تو ہمیں بلایا گیا۔ فوراً شیخ خورشید صاحب کو اطلاع دی گئی۔ وہ بھاگے بھاگے آئے۔ ہم سب حاضر عدالت ہوئے۔ میاں اے ایم سعید دانتوں تلے قلم دبائے، سامنے میز پر فیصلے کے کاغذ رکھے سوچ میں غرق بیٹھے تھے۔ شیخ خورشید کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بے حد مضطرب ہیں۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ شیخ سلیم کا رنگ زرد تھا۔ عارف عبدالمتین بار بار ہونٹوں پر خشک زبان پھیر رہا تھا۔ نصیر انور اسی طرح بے پروا تھا۔

پریس رپورٹر موجود تھے۔ کاغذ پنسل ہاتھ میں لئے وہ بڑی بے چینی سے فیصلے کے انتظار کر رہے تھے۔ چند لمحات مکمل سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد میاں ایم اے سعید صاحب کھنکارے۔ دانتوں کی گرفت سے قلم آزاد کیا۔ نب کو روشنائی دکھائی، فیصلے کے کاغذ الٹ پلٹ کیے اور بہت سوچ سوچ کر ایک کاغذ پر خالی جگہیں پر کیں۔ اس کے بعد میرے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرمایا۔ تین مہینے قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانہ۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں اکیس یوم مزید قید بامشقت۔ شیخ سلیم کا رنگ اور زیادہ زرد ہو گیا۔ اس نے نگاہوں ہی نگاہوں میں مجھے تسلی دی۔ گویا یہ کہہ رہا ہے، ”کچھ فکر نہ کرو، میں وہاں جیل میں ضرور پہنچوں گا۔“

میں یہ سوچنے لگا تھا کہ مجسٹریٹ ضمانت قبول کرے گا یا نہیں۔ تھوڑے وقفے کے بعد میاں اے ایم سعید نے دوسری خالی جگہیں پر کیں اور بقایا دو ملزمین کے بارے میں فیصلہ سنایا۔ تین تین سو روپیہ جرمانہ۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں اکیس یوم قید بامشقت۔ میں نے جرمانہ داخل کر دیا۔ شیخ خورشید صاحب نے میری ضمانت کے کاغذ پیش کیے تو میاں اے ایم سعید نے کہا، ”میں اگر ضمانت منظور کرتا ہوں تو سزا کا مطلب ہی فوت ہو جاتا ہے۔“ شیخ خورشید صاحب نے یہ استدلال پیش کیا، ”آپ کا ارشاد درست۔ ملزم نے جرمانہ ادا کر دیا ہے جو اپیل منظور ہونے کی صورت میں یقیناً واپس مل جائے گا۔ لیکن وہ دو تین دن جو ضمانت ہونے سے پہلے میرا مؤکل جیل میں کاٹے گا۔ اپیل منظور ہونے پر کیا اسے واپس مل جائیں گے۔“

استدلال بہت معقول تھا، مگر پھر بھی میاں اے ایم سعید کچھ دیر اڑے رہے۔ آخر میں کرم فرمائی کی اور میری ضمانت قبول کر لی۔ عارف عبد المتین کے والد صاحب نے ان کا جرمانہ ادا کر دیا۔ اب رہ گئے نصیر انور۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بڑی بے پروائی سے کہا، ”میرے پاس تو فی الحال کچھ بھی نہیں ہے۔“ مجسٹریٹ صاحب نے حکم دیا کہ ہتھکڑی لگاؤ اور جیل بھیج دو۔ نصیر انور اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔ میرے پاس دو سو روپے موجود تھے۔ چودھری نذیر مالک نیا ادارہ سے میں نے کہا کہ ایک سو روپے کا بندوبست کر دیں، مگر ان سے نہ ہو سکا۔ سپاہی ہتھکڑیاں لئے نصیر کی پیٹھ پیچھے کھڑا تھا۔ ان کی جھنکار عدالت کے کمرے میں گونج رہی تھی۔ باہر پولیس وین تھی۔ یعنی سارے لوازمات موجود تھے۔ آخر خورشید صاحب ہی کام آئے۔ آپ نے میاں اے ایم سعید صاحب سے بڑے مناسب و موزوں الفاظ میں درخواست کی کہ وہ نصیر انور کی ضمانت لے لیں۔ جرمانے کا روپیہ وہ کل صبح داخل کر دیں گے۔ مجسٹریٹ صاحب نے یہ درخواست قبول کر لی۔ اب ضامن کا سوال تھا۔ شیخ خورشید صاحب نے پوچھا، ”ان کی ضمانت کون دے گا۔“

کوئی آگے نہ بڑھا۔ اچانک شیخ سلیم نے، جواب تک نشے میں دھت ہو چکے تھے، شیخ خورشید صاحب سے مخمور لہجے میں کہا، ”نصیر صاحب کی ضمانت میں دیتا ہوں۔“ میرا دل دھڑکنے لگا، اگر عدالت کو معلوم ہو گیا کہ شیخ صاحب پئے ہوئے ہیں تو ان کی ضمانت کون دے گا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور دھر لئے جائیں گے اور سارا معاملہ چوپٹ ہو جائے گا۔ میں اسی خوف کے مارے کمرے سے باہر چلا گیا۔ بار بار اندر جھانک کر دیکھتا کہ شیخ سلیم گرفتار ہوئے ہیں یا کہ نہیں، لیکن خیریت گزری۔ نصیر انور کی ضمانت ہو گئی۔ شیخ صاحب جھومتے ہوئے باہر نکلے اور مجھے گلے لگا کر رونے لگے، ”اللہ میاں نے میرے بھائی کو بچا لیا۔“ یہ کہہ کر آپ نے جیب سے بوتل نکال کر ایک گھونٹ بھرا جو کہ آخری تھا، ”چلو بھئی چلیں۔ کہیں دکان بند نہ ہو جائے۔“

نصیر انور بہت ممنون و متشکر تھا۔ بار بار شیخ سلیم کا شکریہ ادا کرتا تھا۔ شیخ صاحب نے اس سے کہا، ”شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے آپ میرے دوست کے دوست ہیں۔“

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments