معصوموں کی معصومیت اور ہماری بے حسی


 پروردگار صرف بنا دینا ہی کافی نہیں۔

تخلیق کر کے بھیج مگر دیکھ بھال کر۔

ہم لوگ تیری کُن کا بھرم رکھنے آئے ہیں۔

پروردگار! یار! ہمارا خیال کر۔

آج صبح دیہاتی طرز کے باورچی خانے میں بیٹھ کر بیگم صاحبہ ناشتہ پکا رہی تھیں اور میں لکڑی کی چوکی پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا کہ باہر کا دروازہ زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ میں نے بڑے بیٹے سمیر کو باہر دیکھنے کے لیے بھیجا تو واپسی میں اس کے ساتھ ایک نو یا دس سال کا ایک معصوم بچہ سر پر روٹیوں کی چھابی رکھے، ہاتھ میں جست کی چھوٹی سی بالٹی پکڑے اندر داخل ہوا۔ بیگم صاحبہ سے اس بچے کے بارے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ مسجد کا طالب ہے جو روزانہ صبح شام روٹی لینے کیلیے بستی کا چکر لگاتا ہے۔ سر پر رکھی چھابی میں روٹیاں تھیں اور جست کی چھوٹی سی بالٹی میں مختلف قسم کا سالن تھا جو بستی کے گھروں سے وصول کیا گیا تھا۔
بچے کی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈ سے اکڑ چکے تھے اور ہونٹ سردی کے باعث نیلے پڑ کر کپکپا رہے تھے۔ میں نے بچے کو دیکھتے ہی فوراً اس سے سامان (چھابی اور جست کی بالٹی) رکھ دینے کو کہا اور بیٹوں اور بیگم سے جگہ بنانے کو کہا تاکہ بچہ بیٹھ کر آگ تاپ سکے۔ اسے بیٹھنے کو چوکی دی اور چولہے کے نزدیک جگہ بنائی تاکہ اسے آگ تاپنے میں آسانی ہو سکے۔ جب اس بچے نے آگ تاپ لی اور سردی سے ٹھٹھرے ہوئے اس کے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ نارمل حالت میں واپس آ گئے تو میں نے بیگم سے کہا کہ اس بچے کو ناشتہ دو تاکہ یہیں بیٹھ کر سکون سے ناشتہ کر لے۔
بیگم نے بچے کو ناشتہ دیا اور ساتھ ہی میں نے بڑے غیر محسوس انداز اور ملائمت سے اس بچے سے اس کے بارے میں جاننا شروع کر دیا۔ بچے کا کہنا تھا کہ وہ ایک دور کے گاؤں سے آیا ہے اور یہاں ایک مدرسے میں قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے زیرِ تعلیم ہے۔ والد صاحب کام کاج نہیں کرتے البتہ دو بڑے بھائی جانوروں کے ایک بھانے (طویلے) میں کام کرتے ہیں۔ تین بہنیں ہیں اور تینوں غیر شادی شدہ ہیں۔ گھر میں غربت و افلاس کے ڈیرے ہیں اس لیے والدین سکول بھیجنے سے قاصر تھے اور اسی وجہ سے یہاں مدرسے میں بھیج دیا تاکہ یہاں کھانا بھی ملتا رہے اور حفظِ قرآن پاک کی تعلیم بھی چلتی رہے۔
افکار علوی کی مشہورِ زمانہ نظم “مرشد” سے منقول رباعی اس تحریر کی ابتدا میں لکھی گئی ہے۔ اپنے بچوں کے سکول چلے جانے اور اس بچے کے مدرسے چلے جانے کے بعد میں نے بیگم صاحبہ کو یہی رباعی سنائی اور اس کے وسیع مفہوم کو بیان کرنے کی کوشش کرنے لگا اور ہمارے درمیان ایک طویل و وسیع مکالمہ شروع ہو گیا۔ اس مکالمے کا لب لباب یہ تھا کہ اگر خالق کے وسیع مفہوم کو دیکھا جائے تو والدین بھی خالق ہی کے زمرے میں آتے ہیں جو کسی بچے کو دنیا میں لاتے ہیں اور پھر اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے اسے بوجھ سمجھ کر زمانے کے سرد و گرم سہنے کیلیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ مجھ پر بچپن میں گزرے واقعات اور تلخ و سرد واقعات کے چشم دید گواہ ہونے اور تین معصوم بچوں کے والدین ہونے کے ناطے دو گھنٹے کے اس مکالمے کے دوران ہم دونوں کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کب ہماری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور ہم دونوں، مَیں ایک باپ کی جگہ بیٹھ کر اور بیگم صاحبہ مامتا کے نظریے سے سوچتے ہوئے ایک ساتھ پُرنم ہو گئے۔
اب یہ بچہ جس کا ذکر اوپر آیا ہے ہمارے گاؤں سے قریباً پچاس یا ساٹھ کلومیڑ دور ایک گاؤں سے آیا ہے۔ والدین سے دوری ایک بچے پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے اس کا علم صرف ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جو بچپن میں یہ سب جھیل چکے ہوں۔ زمانہ اتنا قہرمان، ظالم و جابر ہے کہ ایک مضبوط اعصاب کے پختہ عمر تجربہ کار انسان کو توڑ پھوڑ کر تھکا کر رکھ دیتا ہے چہ جائیکہ یہ نو دس سال کا معصوم سا بچہ کہاں اس کا مقابلہ کر سکے گا۔؟ موسم کی سختیاں، والدین خاص کر ماں سے دوری، بہن بھائیوں کے ہجر کا دکھ، بچپن کی شرارتوں کا لطف، نوعمری کی نوخیزی و لاپروائی کا سکھ اس بچے اور اس جیسے لاکھوں کروڑوں بچوں کیلیے ایک ایسا سوہانِ روح خواب ہے جسے مجھ جیسے، ان بچوں سے جیسے اور ان بچوں کے والدین جیسے لوگ کبھی شرمندہء تعبیر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
آپ شاید اس کیفیت کو نہ سمجھ پائیں، لیکن مَیں بچپن میں بہت کچھ جھیل چکا ہوں، اور بقول شخصے کہ جس تن لاگے وہ تن جانے اسی لیے شاید میں ایسی باتوں پر بہت زیادہ حساس ہو جاتا ہوں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہی وہ طبقہ ہے کہ جب تک یہ طبقہ ابنارمل زندگی چھوڑ کر نارمل زندگی کی جانب نہیں لوٹتا ہم معاشرے میں نہ تو تشدد پر قابو پا سکتے ہیں اور نہ ہی بے راہ روی پر، نہ تو ہم دین فروشی روک سکتے ہیں نہ ضمیر فروشی۔ ایک بچہ جس کو بچپن میں ہی لکڑی کا صندوق تھما کر چندہ جمع کرنے پر لگا دیا جائے، یا جس کو روزانہ در در سے روٹی کی بھیک مانگنے پر لگا دیا جائے بڑا ہو کر اس معصوم میں کونسی عزتِ نفس باقی بچی ہو گی۔؟ ہمارے سرکاری، غیر سرکاری، تعلیمی اداروں، درسگاہوں، سکولوں، مدرسوں وغیرہ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سارے معاشرے کو پتہ ہے لیکن دوغلا معاشرہ حقائق کو قبول کرنے سے عاری ہے۔
کئی دن پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے گاؤں کے چوک جس کا نام ترک والا ہے، پر ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک نوجوان حافظ صاحب کو نماز کی امامت کروانے کیلیے لایا گیا جن کی عمر بمشکل اُنیس یا بیس سال رہی ہو گی۔ اس نوجوان کے گھریلو حالات کی کسمپرسی اس کے پیوند زدہ لباس اور بار بار سلائی کی گئی سوفٹی چپل سے عیاں ہو رہی تھی۔ میرے دل میں ایک ایسی ہوک اٹھی کہ جس کو بیان میں نہیں لایا جا سکتا۔ بار بار دل میں سوال اُٹھتا رہا کہ یہ تو اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں ان پر ایسی آزمائش کیوں۔؟ بار بار یہی دعا دل سے نکلتی رہی کہ یا اللہ یہ تو تیرے منتخب کردہ پسندیدہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں تیری راہ میں، تیرے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے محبوب دین کی راہ میں وقف کر رکھی ہیں، ان کی تو غیب سے مدد کر دے۔
مگر پھر احکاماتِ ربانی کا مفہوم جواب بن کر سامنے آ جاتا کہ عالمِ اسباب میں اسباب کو کلیدی و بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جب تک عالمِ اسباب میں ہیں تب تک اسباب کو حاصل کر لینے کی کوشش اور جستجو کرتی رہنی چاہیے ورنہ پسماندگی، محتاجی اور عُسرت مقدر بنے گی۔
منبرِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بیٹھ کر صبر و شکر کا درس دینے والے کاش غاصب کی گوشمالی اور احتساب کا درس بھی دیتے تا کہ ان مذکورہ بالا معصوموں اور ان جیسے بیشمار معصوموں کی حق تلفی نہ ہو۔ مخالف مسلک پر کُفر کے فتوے دینے والے کاش اس بات پر بھی فتوی دیتے کہ جس نے انسانیت کی توہین کی یا بچوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کیا تو وہ دائرہِ اسلام سے خارج ہے۔ خود لینڈ کروزرز، پراڈو میں بیٹھنے والے علما کرام کاش اپنے مال و اسباب کا چوتھائی حصہ ان جیسے غریب معصوموں پر خرچ کرتے تا کہ اُخروی زندگی کے ساتھ ساتھ ان بچوں کی دنیاوی زندگی کو بہتر کرنے کے اسباب بھی پیدا ہوتے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments