سید وارث شاہ۔ پنجابی سخن کا وارث (3)


وارث شاہ سے پہلے کئی شاعروں نے قصہ ہیر رانجھا منظوم کیا۔ ہر ایک کے لکھے ہوئے قصہ میں کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی تھی لیکن وارث شاہ کے قصہ میں جو کمالات اور خوبیاں ہیں وہ اور کسی قصہ میں نہیں ہیں۔ پنجابی شاعری میں وارث شاہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے مقولہ شاعر کا رواج قصے میں ڈالا یعنی جو بات انہوں نے قصہ کے کسی کردار سے نہیں کہلوانا چاہی وہ مقولہ شاعر کے تحت کہہ دی اور بیان کو با ربط بنا لیا۔

عدل بنا سردار ہے رکھ اپھل رن کڈھنی جو وفادار ناہیں
نیاز بنا ہے نچنی بانبہہ تھانویں مردگدھا جو عقل دا یار ناہیں
بنا آدمیت ناہیں انس جاپے بنا آب قتال تلوار ناہیں
صبر ذکر عبادتاں باجھ جوگی دماں باجھ جیون درکار ناہیں
ہمت باجھ جوان بن حسن دلبر لون باجھ طعام سواد ناہیں
شرم باجھ مچھاں بنا عمل داڑھی طلب باجھ فوجاں بھربھار ناہیں
عقل باجھ وزیر صلوۃ مومن دیوا ن حساب شمار ناہیں
وارث رن فقیر تلوار گھوڑا چارے تھوک ایہہ کسے دے یار ناہیں

(انصاف کے بغیر سردار بے ثمر درخت کی طرح ہوتا ہے اور وہ عورت جو وفادار نہیں آگ میں جھونک دینے کے قابل ہے۔ عجز و انکسار کے بغیر ناچ گانے والی عورت مادہ سانپ جیسی مچھلی ہے جبکہ عقل درست نہ ہونے والا مرد گدھا ہے۔ آدمیت کے بغیر انسان، انسان ہے اور نہ بغیر دھار تلوار سے قتل عام ہو سکتا ہے۔ صبر، ذکر اور عبادت کے بغیر جوگی ہوتا ہے نہ سانسوں کے بغیر زندگی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ہمت کے بغیر جوان، حسن کے بغیرمعشوق ہوتا ہے اور نہ ہی نمک کے بغیر کھانے میں ذائقہ آتا ہے۔ شرم کے بغیر موچھ، عمل کے بنا داڑھی کسی کام کی نہیں اور تنخواہ کے بغیر فوج بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ عقل و دانش کے بغیر وزیر، نماز کے بنا مومن اور حساب کتاب کے بغیر وزیر مالیات نہیں بنتا۔ وارث شاہ عورت، فقیر، تلوار اور گھوڑا چاروں چیزیں کسی کی مخلص دوست نہیں ہوتیں۔ )

حضرت وارث شاہ نے ہیر وارث شاہ میں تصوف کے موضوع کو اپنے کلام کا ایک اہم جزو بنایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب راہ حق کے طلب گار خود کو خاک میں نہ ملائے اور اپنے اندر سے تکبر کو نہ مٹائے، حرص و بخل سے خود کو پاک نہ کرے اور صبرو تحمل کا مظاہرہ نہ کرے تب تک وہ تصوف کے اسرار و رموز سے آگاہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تصوف کہلا سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

گھوڑا صبر دا ذکر دی واگ دے کے نفس مارنا کم ٌ ٌ بھجنگیاں دا
چھڈ زراں تے حکم فقیر ہوون ایہہ کم ہے ماہنواں چنگیاں دا
عشق کرن تے تیغ دی دھار کپن نہیں کم ایہہ بھکھیاں ننگیاں دا
جہیڑے مرن سو فقر تھیں ہون واقف نہیں کم ایہہ مرن تھیں سنگیاں دا
شوق مہر تے صدق یقین باجھوں کیہا فائدہ ٹکڑیاں منگیاں دا
وارث شاہ جو عشق دے رنگ رتے کندی آپ ہے رنگ دیا ں رنگیاں دا

(صبر کے گھوڑے کو ذکر کی لگام ڈال کر اپنے نفس کو مارنا جلالی درویشوں کا کام ہے جن کی بد دعاؤں میں بھی اثر ہوتا ہے۔ دولت و ثروت اور حکمرانی چھوڑ کر فقیر بننا کام ان ہی لوگوں کا ہے جو نیک والدین کی اولاد ہیں۔ عشق، بھوکے ننگے اور کم ظرف لوگ نہیں کر سکتے یہ تلوار کی دھار پر چلنے کے برابر ہے۔ فقر کی حقیقت جاننے کے لیے فنا ہونا پڑتا ہے۔ جو لوگ موت سے ڈرتے ہوں یہ ان کا کام نہیں ہے۔ فقر تو سروں سے گزرے ہوئے یعنی ٹھنڈے مزاج لوگوں کام ہے۔ ذوق و شوق، صدق اور یقین کے بغیر فقر کرنا کچھ بھی نہیں یہ خالی خولی بھیک مانگنے کا کیا فائدہ۔ وارث شاہ جتنے لوگ بھی محبت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ان سب کا رنگ ساز خود عشق تھا۔ )

جہاں تک نسوانی حسن کا تعلق ہے پنجاب کے دیہات میں چمپئی رنگ، سیاہ زلفوں، کشیدہ قامت اور گدرائے ہوئے بدن کو خوبصورت سمجھا جاتا ہے۔ وارث شاہ نے ہیر کے حسن و جمال کی جو دلکش تصویر کھینچی ہے اسے ہمارے دیہات کے نسوانی حسن کا مثالی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ ہیر کا ذکر کرتے ہوئے اس کے سراپے کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔

نین نرگسی مرگ ممولڑے دے گلہاں ٹہکیاں پھل گلاب دا جی
بھواں وانگ کمان لاہور دسن کوئی حسن نہ انت حساب دا جی
سرمہ نیناں دی دھار وچ پھب رہیا چڑھیا ہند تے کٹک پنجاب دا جی
کھلی ترنجنا وچ لٹکدی ہے ہاتھی مست جیوں پھرے نواب دا جی
ہوٹھ سرخ یاقوت جیوں لعل چمکن ٹھوڈی سیب ولایتی سار وچوں
نک الف حسینی دا پیپلا سی زلف ناگ خزانے دی بار وچوں
دند چنبے دی لڑی کہ ہنس موتی دانے نکلے حسن انار وچوں
لکھی چین کشمیر تصویر جٹی قد سرو بہشت گلزار وچوں
گردن کونج دی انگلاں روانہہ پھلیں ہتھ کو لڑے برگ چنا روچوں

(ہیر کے حسن و جمال کی تعریف بھلا کون کر سکتا ہے۔ اس کی پیشانی پر پورے چاند کا حسن چمکتا ہے۔ اس کی آنکھیں نرگس کے پھول سے مشابہ مست اور متوالی ہیں، ہرن کی جیسی آنکھوں یا پھر ممولڑے کے جسم پر موجود داغوں جیسی ہیں۔ اس کے رخسار گلاب کے کھلے ہوئے پھول جیسے ہیں۔ اس کے ابرو لاہور کی بنی ہوئی کمان جیسے نظر آتے ہیں۔ اس کے حسن کا کوئی شمار نہیں اس کی آنکھوں کے کونوں سے کاجل یوں لگتا ہے جیسے پنجاب کے لشکر نے ہند پر حملہ کر دیا ہو۔

وہ کسی نواب کے مست ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی عورتوں کی مجلسوں میں جاتی ہے۔ اس کے ہونٹ سرخ یاقوت کی طرح چمکتے ہوئے لعلوں جیسے ہیں۔ اس کی ٹھوڑی ولایتی سیبوں جیسی ہے۔ اس کی ناک امام حسین کی تلوار کے اگلے نوکدار حصے جیسی ہے۔ اس کی زلفیں خزانے پر بیٹھے ہوئے سانپ کی طرح ہیں جو حفاظت کے لیے دروازے پر معمور ہوتا ہے۔ اس کے دانت چمپا کے پھولوں کی پتیوں جیسے اور ان کی چمک موتیوں جیسی ہے۔ ہیر چینیوں اور کشمیریوں کی بنائی ہوئی تصویروں جیسی ہے جس کا قدو قامت باغ بہشت میں کھڑے ہوئے درختوں جیسا ہے اس کی صراحی دار گردن کونج جیسی لمبی اور ہاتھوں کی انگلیں لوبیا کی پھلیوں جیسی ہیں اور اس کے ہاتھ چنار کے پتوں جیسے نرم و نازک ہیں۔ )

ہیر کی شادی سیدے کھیڑے سے طے ہو جاتی ہے اور اس کے ماں باپ اور چچا کیدو زبردستی اس کی شادی کر دیتے ہیں وہ اپنے گھر سے رخصت ہوتے وقت رانجھے کو مخاطب کر کے کہتی ہے۔

ؑلے وے رانجھیا واہ میں لا تھکی ساڈے وس تھیں گل بے وس ہوئی
قاضی ماپیاں ظالماں بنھ توری ساڈی تیندڑی د وستی بھس ہوئی
گھر کھیڑیاں دے نہیں وسنامیں سا ڈی اونہاں دے نال خرخس ہوئی
جا ں جیواں گی ملاں گی رب میلے حال سال تاں دوستی بس ہوئی

( اے میرے پیارے رانجھے ہم نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی لیکن پھر بات میرے بس سے باہر ہو گئی۔ والدین اور قاضی نے زبردستی میرا نکاح پڑھوا کر روانہ کر دیا۔ یوں ہماری تمہاری دوستی جل کر راکھ ہو گئی لیکن کھیڑوں کے گھر میں نے کبھی آباد نہیں ہونا ان کے ساتھ ہماری جنگ شروع ہو گئی ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری بن کر رہوں گی۔ خدا وہ دن لائے کہ ہمارا پھر ملاپ ہو لیکن فی الوقت تم یہ دوستی ختم ہی سمجھو۔ )

قصہ میں جب ہیر کی شادی سیدے کھیڑے سے ہو جاتی ہے تو رانجھا سادھو بن کر اسے ڈھونڈتا ہوا اس کے گاؤں رنگ پور پہنچتا ہے۔ ہیر اسے پہچان نہیں پاتی اور روتے ہوئے اپنی بربادی کی داستان اور اپنے دل کی تاہنگ اسے سناتی ہے جس کو وارث شاہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

ہیر آکھدی جوگیا جھوٹھ آکھیں کون رٹھڑے یار ملاؤندا ای
ایہا کوئی نہ ملیا میں ڈھونڈ تھکی جیہڑا گیاں نوں موڑ لیاؤندا ای
ساڈے چم دیاں جتیاں کرے کوئی جیہڑا جیو دا روگ گواؤندا ای
بھلا دس کھا ں چریں وچھنیاں نوں کدوں رب سچا گھریں لیاؤندا ای
بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے ایویں جیوڑا لوک ولاؤندا ای
اک باز تھوں کا نو نے کونج کھوہی ویکھاں چپ ہے کہ کر لاؤندا ای
اکس جٹ دے کھیت نوں اگ لگی ویکھاں آن کے کدوں بجھاؤندا ای
دیاں چوریاں گھیؤ دے بال دیوے وارث شاہ جے سناں میں آؤندا ای

(ہیر نے کہا اے جوگی تم جھوٹ بولتے ہو بھلا کوئی روٹھے ہوئے محبوب کو بھی ملا سکتا ہے، میں تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکی ہوں لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو جانے والوں کو واپس لا سکے۔ اگر کوئی دل کا روگ مٹا دے تو ہم اسے اپنی کھال کو جوتیاں بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ بھلا یہ تو بتاؤ مدت سے بچھڑے ہوؤں کو سچا رب کب واپس لائے گا۔ مرنے اور بچھڑنے والوں کو بھلا کون ملا سکتا ہے جو یہ دعوی کرتا ہے وہ محض دل کو بہلانے کی باتیں کرتا ہے۔ ایک باز سے کوے نے کونج چھین لی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس انہونی پر خاموش رہتا ہے یا شور مچا کر اپنا حق طلب کرتا ہے۔ ایک جاٹ کے کھیت کو آگ لگی ہے دیکھیں کب کوئی آ کر اسے بجھاتا ہے۔ وارث شاہ اگر مجھے پتہ چل جائے کہ محبوب آنے والا ہے تو میں گھی کے چراغ جلا کر شیرینیاں بانٹوں گی۔ )

پنجاب میں جتنے بھی پنجابی صوفی شاعر گزرے ہیں انہوں نے اپنے کلام میں ہمیشہ اپنی ذات کی نفی کی ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر درجہ پر رکھا ہے۔ وارث شاہ نے بھی اسی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اس دنیا کو فانی ہی تصور کیا ہے اسی لئے آپ کہتے ہیں۔

ایہہ جگ مقام فنا دا ہے سبھا ریت دی کندھ ایہہ جیونا ہے
چھاؤں بدلاں دی عمر بندیاں دی عزرائیل نے پاڑ نہ سیونا ہے
اج کل جہان دا سہج میلا کسے نت نہ حکم تے تھیونا ہے
وارث شاہ میاں انت خاک ہنا لکھ آب حیات جے پیونا ہے

(دنیا کو آخر فنا ہو جانا ہے اور اس زندگی کی حقیقت بھی ریت کی دیوار سے زیادہ نہیں۔ انسان کی عمر بھی بادلوں کی چھاؤں جیسی ہے۔ بادل سورج کے سامنے سے ہٹ جائیں تو یہ چھاؤں نہیں رہتی۔ عزرائیل بھی اس خلا کو پر نہیں کر سکتا جب فیصلہ ہو گیا تو وہ بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج کل حالات ہماری مرضی کے مطابق موافق چل رہے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہمارا حکم ہمیشہ چلتا رہے اور وہی کچھ ہو جو ہم چاہتے ہیں۔ وارث شاہ آب حیات بھی اگر لاکھ بار پی لیا جائے تو پھر بھی آخر خاک میں ہی ملنا ہے۔ )

(وارث شاہ کی شاعری پر کچھ اور باتیں اگلی قسط میں پڑھیے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments