خصوصی خواتین کو نوکری نہ ملے تو اپنا کاروبار کریں


اسماء کا تعلق لاہور سے ہے۔ جی۔ بی سینڈروم کے مرض کا شکار ہیں۔ سیدھا ہاتھ اور بائیں ٹانگ قدر نارمل ہیں جبکہ بایاں ہاتھ اور سیدھی ٹانگ کمزوری کا شکار ہیں۔ ایم۔ ایس۔ سی اکنامکس اور بی۔ ایڈ تک تعلیم حاصل کی ہے۔ سکول، کالج اور بنک میں ملازمت کرتی رہی ہیں۔ ”پیور آرگینک حب“ کے نام سے قدرتی اجزاء سے بنے ہیئر آئل کا بزنس کر رہی ہیں۔ جسے ملک بھر میں بھر پور پذیرائی ملی ہے۔

والد محترم انیسویں گریڈ سے ریٹائرڈ ہیں۔ والدہ صاحبہ پروفیسر ریٹائرڈ ہیں۔ خاندان تین بہنوں اور ایک بھائی پر مشتمل ہے۔ سب شادی شدہ ہیں اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اسماء پیدائشی طور پر نارمل تھیں۔ عام بچوں کی طرح ہنسنا، کھیلنا، بھاگنا، دوڑنا، شرارتیں کرنا سب کچھ نارمل تھا۔ بڑی بہن اسماء سے صرف سال بڑی تھیں۔ والدہ صاحبہ دونوں کو ایک جیسے کپڑے پہنایا کرتی تھیں۔ اکثر اسماء کی شیطانیوں پر بڑی بہن کو مار پڑ جایا کرتی تھی کیونکہ دونوں ایک ہی جیسی دکھتی تھیں۔ 1993 ء میں بیماری پاؤں سے شروع ہوئی پھر آہستہ آہستہ پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابتدائی علاج فاطمہ میموریل سے کروایا گیا جہاں مرض کی تشخیص نہ ہو سکی۔

پھر شیخ زید لے جایا گیا۔ کچھ دن انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہیں۔ علاج کے ساتھ ڈاکٹرز نے فزیوتھراپی کا مشورہ دیا جو ساڑھے تین سال تک چلتی رہی۔ والد صاحب اور نانا ابو نے اس موقعے پر بھر پور ساتھ دیا۔ والد صاحب ہسپتال چھوڑ آتے، واپسی نانا ابو کے ساتھ ہوا کرتی۔ نانا ابو انہی دنوں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد نئی ڈیوٹی مل گئی تھی۔ ساڑھے تین سال کے بعد ایک دن کے وقفے کے ساتھ فزیو تھراپی کے لئے جایا کرتیں۔ تیسری جماعت میں اسماء کو اٹھا کر سکول لے جایا جاتا۔ چوتھی جماعت میں ایک دن جاتیں اور دوسرے دن ہسپتال جاتیں۔ پانچویں جماعت میں کسی حد تک ریگولر ہوئیں۔ مشکلات کے باوجود اسماء تمام جماعتوں میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرتی رہیں۔

چھٹی جماعت میں اسماء کا داخلہ ایل۔ ڈی۔ اے سکول میں کرایا گیا۔ ڈاکٹرز نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ اگر اسماء کے پیروں کے کچھ پٹھوں کو ایک ٹانگ سے دوسری ٹانگ میں منتقل کر دیا جائے تو چلنے پھرنے میں بہتری ممکن ہے۔ آپریشن کے نتیجے میں کئی ماہ ضائع ہوئے لیکن بہتری نہ آ سکی۔ سکول میں بڑی بہن افشاں نے بھر پور ساتھ دیا۔ وین سے اترنے اور چڑھنے میں افشاں اور ڈرائیور مدد کرتے۔ ایک روز روڈ پر رش کی وجہ سے ڈرائیور نے کہا کہ آپ چھلانگ لگا کر اتر جائیں کیونکہ وین رک نہیں سکتی۔ اسماء نے چھلانگ تو لگا دی لیکن اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائیں جس کی وجہ سے بہت چوٹیں آئیں۔ اسماء نے ایل۔ ڈی۔ اے سکول سے نمایاں نمبروں میں میٹرک کیا۔ اسماء کا شمار سکول کی بہترین طالبات میں ہوتا تھا۔ ایل۔ ڈی۔ اے کی بہت سی دوستوں سے اسماء کی دوستی آج تک قائم ہے۔

میٹرک کے بعد لاہور کالج میں داخلہ ہوا۔ ایف۔ اے اور بی۔ اے اسی کالج سے کیا۔ کالج آنے جانے کے لئے بس سب سے سستا اور موضوع ترین ذریعہ تھا لیکن اسماء کے لئے چڑھنا اترنا ایک مسئلہ تھا۔ نہ ہی اس وقت کریم اور اوبر جیسی سروس میسر تھیں۔ والدہ صاحبہ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر اسماء کو پک کیا کرتیں۔ جس کی وجہ سے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا۔ بعض اوقات تنگ پڑ کر اسماء رونا شروع کر دیتیں۔

اسماء نے بہترین نمبروں سے بی۔ اے کر کے والدین کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اسماء کو بچپن سے ہی دین سے گہرا لگاؤ ہے۔ بی۔ اے کرنے کے بعد اسلامیات میں ایم۔ اے کرنے کی خواہش ظاہر کی تو خالو نے منع کرتے ہوئے اکنامکس میں ایم۔ اے کا شورہ دیا۔ اسماء پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنا چاہتی تھیں۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پہلی ہی لسٹ میں نام آ گیا۔

یونیورسٹی میں بھی اسماء کا شمار بہترین طالب علموں میں ہوتا تھا۔ ایک روز پروفیسر صاحب نے نئے چیپٹر پر لیکچر دینے کے لئے اسماء کو بلا لیا کہنے لگے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ ہر نئے چیپٹر کو پہلے ہی تیار کر لیتی ہیں۔ گھبراہٹ کے مارے اسماء کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ لیکن اسماء لیکچر دینے میں کامیاب رہیں۔

پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک روز اسماء گھر میں فارغ بیٹھی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر والدین سے پیسے مانگنے پر جواب ملا کہ آپ کو جتنی پاکٹ منی ملتی ہے اسی میں گزارا کریں۔ اسماء نے غصے میں آ کر سی۔ وی بنائی اور گھر کے نزدیک ایک بڑے سکول میں چلی گئیں۔ سکول والوں نے اسماء کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر نوکری دے دی۔ سکول کی نوکری ایک سال تک چلتی رہی جسے ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد ترک کرنا پڑا۔ ایک دفعہ سکول کا کچھ سامان دوسری منزل پر شفٹ کیا جا رہا تھا۔ ایک سینئر ٹیچر اسماء سے کہنے لگیں کہ آپ بھی سامان اٹھائیں۔ اسماء نے اپنی معذوری کا ذکر کیا تو کہنے لگیں کہ ایک ہاتھ سے جتنا سامان اٹھتا ہے اٹھا لیں۔ والد صاحب نے ٹیچر سے شکایت کی جس پر انھوں نے معافی مانگ لی۔ لیکن واقعے نے اسماء کا دل توڑ دیا۔

اسماء نے دوسری نوکری کے حصول کی کوششیں شروع کر دیں اور یو۔ بی۔ ایل میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ بینک کی سیڑھیاں چڑھنا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اکثر والد محترم چھوڑنے کے لئے آیا کرتے۔ جس دن والد صاحب نہ ہوتے تو سیکورٹی گارڈ کی بندوق کا سہارا لے کر سیڑھیاں چڑھا کرتیں۔ بینک کے بعد یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ بہت سے سکولوں میں بھی پڑھایا۔ ہر جگہ رسائی اور نامناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسماء ٹی۔ وی پر ایک خصوصی لڑکی کا انٹرویو دیکھ رہیں تھیں۔ جس میں وہ کہ رہی تھی کہ خصوصی لڑکیوں کی شادی نہیں ہوتی۔ اسماء نے معصومیت سے یہ بات اپنی والدہ سے پوچھی۔ جس پر انھیں رونا آ گیا۔ والد صاحب اسماء کو جہیز میں گھر اور نوکر دینا چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے رشتوں کی لائن لگی رہتی تھی۔ لیکن اسماء نے انکار کر دیا کیونکہ یہ کسی ایسے شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں جس کی نظر ان کے والد صاحب کی دولت پر ہو۔

والد صاحب اسماء کی شادی کی وجہ سے بہت پریشان رہتے۔ اب انھوں نے اخبار میں رشتے کا اشتہار دیا۔ گھر کی لالچ میں ایک مرتبہ پھر رشتوں کی لائن لگ گئی۔ اسماء کی منگنی اس شرط پر ہوئی کہ گھر کے ساتھ لڑکی کو گورنمنٹ جاب بھی دلوائیں گے تب ہی شادی ممکن ہے۔ جاب نہ ملنے پر منگنی توڑ دی گئی۔

2013 ء میں اسماء کی شادی محمد عثمان سے ہوئی۔ عثمان نے اسماء کو ان کی معذوری کے ساتھ معاشرے سے ٹکر لیتے ہوئے قبول کیا۔ عثمان نے اسماء کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کیا۔ اسماء کو ڈر تھا کہ شاید معذوری کی وجہ سے یہ اولاد کی نعمت سے محروم رہیں گیں اور اگر اولاد ہوئی بھی تو معذور پیدا ہوگی۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اللہ تعالی نے اسماء کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ بیٹے کا نام عبدل احد اور بیٹی کا نام ہادیہ ہے۔ اسماء بچوں کو پڑھانے سے لے کر گھر کے سارے کام خود کرتی ہیں۔ عثمان سعودیہ میں نوکری کرتے تھے۔ کرونا وبا کی وجہ سے حالات خراب ہوئے تو نوکری چھوڑنا پڑی۔ پاکستان میں بزنس کرنے کی کوششیں کی لیکن ناکام رہے۔ اس لیے دوبارہ سعودیہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اسماء کو بچپن سے نت نئے کام کرنے کا شوق ہے۔ کچھ بڑا مختلف کرنا چاہتی تھیں۔ انسٹا گرام پر ایک مشہور خاتون کو قدرتی اجزاء سے بنا بالوں کا قدرتی تیل بناتے دیکھا تو سوچا کیوں نہ اسے خود سے بنانے کی کوشش کی جائے۔ تیل کے استعمال سے اسماء کے بال تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئے۔ رشتہ داروں اور دوستوں نے بھی ڈیمانڈ کی تو اسماء سب کو بنا کر دینے لگیں۔ پھر خیال آیا کہ کیوں نہ تیل کو بڑے پیمانے پر بنا کر فروخت کیا جائے۔

اسماء نے مارکیٹ میں ”پیور آرگینک حب“ کے نام سے اپنا برینڈ متعارف کروایا۔ ہیئر آئل سات مختلف اجزاء کے مرکب سے تیار کیا جاتا ہے۔ جن میں سرسوں، بادام، کلونجی، پیاز اور ادرک وغیرہ شامل ہیں۔ آئل مصنوعی اجزاء کی ملاوٹ سے پاک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیئر آئل کو مختصر سے عرصے میں بہت پذیرائی ملی۔ ملک بھر سے لوگ اسماء سے رابطہ کر رہے ہیں۔ لوگوں کے اصرار اور برینڈ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسماء نے ماسچرائزنگ لوشن بھی تیار کیا۔ جس کی مارکیٹنگ کا کام جاری ہے۔ اسماء مستقبل میں کچھ نئے تیل متعارف کروانے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔

اسماء اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے کی تربیت دے رہی ہیں۔ مقصد کے حصول کے لئے بچوں کا داخلہ نگہت ہاشمی کے سکول ”النور پبلک سکول“ میں کروایا ہے۔ سکول انتظامیہ اسماء کی معلومات اور طریقہ کار سے بہت متاثر ہے۔ اسماء سکول کے مختلف پراجیکٹس پر والنٹیئرلی کام کر رہی ہیں۔ اسماء نے ”عبدل احد اینڈ ہادیہ وی لاگز“ کے نام سے یوٹیوب چینل بھی بنایا ہے جس میں بچوں کو دین سے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ اسماء کہتی ہیں کہ ہمیں بچوں کو اچھا انسان بنانے کی تربیت دینی چاہیے۔ اچھا انسان ہی معاشرے میں اعٰلی مقام حاصل کرتا ہے۔

اسماء کہتی ہیں کہ نوکریوں کے حوالے سے خصوصی خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوکری مل بھی جائے تو ٹرانسپورٹ اور رسائی کے معاملات مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ خصوصی خواتین کو حصول علم کے ساتھ چھوٹے کاروبار اور گھریلو صنعتوں کو شروع کرنے کے طریقے سیکھنے چائیں۔ اگر نوکری نہ بھی ملے تو وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنا کاروبار شروع کر دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments