مرغے کی بانگوں سے جڑی ہماری قسمت


ہم بہت چھوٹے تھے۔ (ہم سے مراد میں ہوں بلکہ میرے ساتھ بھی میں ہوں)۔ اس دور میں کراچی رہتے تھے۔ کراچی میں تو ہمیں ہمیشہ چوزے خریدنے کی خواہش رہتی تھی۔ کیونکہ م مرغ جو ہم قاعدے میں پڑھتے تھے،وہ کہیں نظر نہ آتا۔ سو ہم امی سے ہر وقت ضد لگائے رکھتے کہ ہمیں چوزے لے دیں۔ ہم انہیں پال پوس کے مرغا اور مرغی بنائیں گے۔ یہ الگ بات کہ ہماری قسمت میں ہمیشہ ہی مرغی آتی۔ جو چوزہ تھوڑا بڑا ہوتا تو گھر والے بتاتے یہ تو مرغی ہے۔ مرغا تو بس دیسی ہوتا ہے۔ ہماری جانے بلا کہ اب یہ دیسی کیا ہے اور ولائتی کیا۔ (ہم مرغے کی بات کر رہے ہیں)۔

اسی بچپن میں جب ہم بہت چھوٹے اور معصوم تھے،معصوم تو خیر اب بھی ہیں مگر اب کوئی مانتا نہیں۔ خوش قسمتی سے تب سب مانتے تھے۔ خیر ہم خالہ کے گاؤں گئے۔ خالہ کا گاؤں بھی ایک عجیب دنیا تھی۔ گاوں کو تو چلیں چھوڑیں یہ بڑا سارا ان کا گھر۔ ڈھیر سارے کمرے اور بڑا سا برآمدہ۔ خوب کھلا صحن اور صحن کے ایک کونے میں لگا ہینڈ پمپ میری حیرانی کو بڑھانے کے لیے کافی تھا۔ مگر رکئیے کہ بات وہیں ختم نہ ہوئی۔
اتنے بڑے گھر میں واش روم نہیں۔ اب ہم پوچھیں واش روم کہاں۔ تو وہ کہیں کہ یہ جو غسل خانے کے ساتھ والی جگہ ہے جہاں سیمنٹ کی تین بنیاں سی بنی ہیں،یہ واش روم ہے۔ میں اس عجیب آرٹ کے نمونے کو واش روم ماننے کو تیار نہیں تھی۔ سو میں نے رونا شروع کر دیا کہ مجھے گھر لے کر جاؤ۔ کیونکہ ایک تو ان کے گھر واش روم نہیں،دوسرا جسے یہ واش روم کہہ رہے اس کا دروازہ تک نہیں۔
خیر ہم معصوم سے تھے ہمیں بہلا پھسلا لیا گیا۔ اب اصل مدعا شروع ہوا۔ وہاں ڈھیر ساری مرغیاں اور مرغے پھرتے ہوں،اور مرغا بھی اچھا خاصہ نخرے والا جو شان بے نیازی سے پورے صحن میں پھرے اور کبھی دیواروں پہ چڑھ جائے۔
اب سب باتیں کر رہے ہوں،”اسی تے تڑکے ویہلے ککڑ دی بانگ نال اٹھ جائی دا،اللہ توبہ کری دی فیر کھیتاں توں چکر لا آئی دا تے روٹی ٹکر دے متھے لگی دا”۔
لو جی ہماری سوئی پہلے اٹکی بانگ پہ۔ ہم نے پوچھا بانگ کیا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرغا صبح اذان دیتا ہے کہ دن ہو گیا ہے اٹھ کے اللہ کو یاد کرو۔ ہماری تو حیرت کی انتہا ہو گئی کہ مرغا یہ کیسے بول سکتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس بولنے والا مرغا ہے۔ تو انہوں نے کہا نہیں مگر مرغے کو بانگ دینے کی قدرت اللہ نے دی ہے۔ “ایہہ جی بڑا سیانا اے سارا دن نہیں بولدا بس فجر ویلے بولے گا تے مغرب ویلے”۔
اس سے پہلے تک ہمارے علم میں یہی تھا کہ اذان تو مولوی صاحب ہی دیتے ہیں۔ اب اس فہرست میں مرغے کا اضافہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔
مرغے کے متعلق ایسی سیانی باتیں سن کے اب ہم لگ گئے مرغے کے پیچھے کہ یہ کب بانگ دے گا۔ اب مرغا آگے آگے ہم اس کے پیچھے پیچھے۔ مگر مجال ہے کہ اس “جی” کے ایٹی ٹیوٹ میں کوئی فرق آیا ہو۔ آخر مجھے ہماری رشتے دار خاتون نے کہا کہ اس کے پیچھے نہ پھرو ورنہ یہ ٹھونگیں مارے گا۔ بہت لڑاکا ہے۔ تب ہم ڈر کے بیٹھ گئے کہ مرغے کا نوالہ بننے سے بہتر تھا ہم تڑکے ویہلے تک صبر کرتے۔
گاؤں میں آپ سب ہی جانتے ہیں دن اور رات دونوں بہت جلدی ہو جاتے ہیں۔ جس وقت ہم لوگ سوتے ہیں،گاؤں کے لوگوں کی آدھی سے زیادہ نیند ہو جاتی ہے۔ خیر صبح صبح ایک ہیبت ناک سی ککڑوں کڑوووووں سے میں ڈر کے اٹھی۔ امی نے تھپکی دی کہ سوں جا کج نہیں ہویا۔ مرغے نے اذان دتی اے۔
ہائیں،یہ کیسی اذان تھی؟۔ اتنی دیر میں صاحب بہادر پھر شروع ہو گئے۔ اور پانچ چھ آوازیں نکالنے کے بعد پرسکون ہو گئے۔ میں اس انتظار میں ہی پھر سو گئی کہ مرغے نے یہ تو کہا نہیں کہ اٹھ کے اللہ توبہ کرو۔
اس دن پتہ چلا کہ مولوی کی بانگ اور مرغے کی بانگ میں ککڑوں کڑوووووں کا فرق ہے۔ اس کے بعد زمانے بیتے حسب معمول جب بھی کوئی پالا ہوا چوزہ قسمت سے مرنے سے بچا،ہمیشہ مرغی نکلا۔ باوجود ضد کے ہمیں کبھی مرغا نہیں لے کر دیا گیا،کہ سوائے بانگ دینے کے اس کا مصرف کیا ہے۔ مرغی تو چلو انڈے شنڈے دے دیتی ہے۔ ہم نے ایک بار مرغی بھی پالی لیکن اس نے جب مسلسل چار دن کیاری کی بجائے سیڑھیوں میں انڈہ دیا جو کہ ٹوٹ جاتا تھا۔ تو نانا نے اسے گھر بدر کروا دیا۔
ایک بار ایک چوزہ بڑا ہوا تو اس کے باغیانہ اور متشدد رویے کی وجہ سے اسے ذبح کر کے پکا لیا گیا۔ متشدد یوں کہ جب بھی نانا کے دوست آتے۔ یہ مرغی صاحبہ چونچیں مار مار ان کا حشر کر دیتی۔ سو ایک دن ہمارے سکول جانے کے بعد اسے کٹوا کے پکا لیا گیا۔ اور جب ہمارے سامنے سالن آیا اور ہمارا چوزہ نہیں،تب ہمیں حقیقت بتائی گئی۔ تین دن سوگ کے بعد ہم نے فیصلہ کیا آئندہ چوزے نہیں پالیں گے۔
اس ساری مرغا کہانی کا مقصد یہ ہے کہ وہ جو مرغا گاؤں میں بانگ دے کے سب کو اٹھاتا تھا۔ جس کے پیچھے پھر پھر کے ہم اس کی بانگ سننا چاہتے تھے۔ وہ تو شاید پک پکا گیا ہو گا۔ مگر اس کی نسل کے دو مرغوں نے آج کل میری زندگی میں بانگیں بھر دی ہیں۔
کام پہ جاتی ہوں تو وہاں دکان کے مالک کا مرغا عین اس وقت بانگیں شروع کرتا ہے،جب میں کوئی وی لاگ بنا رہی ہوتی ہوں۔ اس مرغے کو ہماری بد دعاؤں کے نتیجے میں کوئی اٹھا لے گیا۔ مگر میں صدقے جاؤں اپنے مالک دکان پہ کہ اس نے مرغیوں کو ایک گھنٹہ بھی مرغے کے بنا رہنے نہ دیا۔ اب نیا والا بھی اسی روٹین پہ کاربند ہے۔ جس پہ اس کا ساتھی تھا۔ دوسرا مرغا میرے گھر کے آس پڑوس کسی نے پال رکھا ہے۔ یہ مہاشے نو بجے بھی بانگ دیتے ہیں اور دو بجے بھی۔ عین اس وقت جس وقت نیند کی وادیاں سجی ہوتی ہیں،یہ مہاشے ککڑووووں کڑوووووں شروع کر دیتے۔ اور ایک بار نہیں بار بار کرتے ہیں،جب تک کہ میری آنکھ نہ کھل جائے۔
کارما یا مکافات عمل کا تو پتہ نہیں،مگر مرغے نسل در نسل اپنے گرج (کینہ,غصہ) آگے پہنچاتے ہیں یہ مجھے خوب پتہ لگ گیا ہے۔ سال 2021 ہے مگر سمجھ سے باہر ہے کہ الارم والی گھڑیوں کے ہوتے اس “جی” کی بانگوں کو سننے کی اتنی طلب کیوں ہے۔ آخر کیوں یہ سب مرغے مجھے اپنی بانگیں سنانا چاہتے ہیں۔ جبکہ اس کے لیے تو مولوی بھی بکثرت ہیں۔ خدا میرے حال پہ رحم کرے۔ اور یہ تحریر مرغوں کی پہنچ سے دور رکھے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments