سلمی اعوان کا ناول: تنہا


سقوط ڈھاکہ کو پچاس سال مکمل ہو چکے ہیں۔پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا پہ یہی موضوع زیر بحث ہے۔اس موضوع کو لے کے فلمیں اور ڈرامے بنائے جا رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے۔ہر تکلیف، ہر دکھ کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔لیکن یہ ایک ایسازخم ہے جس پہ کھرنڈ نہیں جم سکا۔جس کے لئے کوئی مرہم کارگر ثابت نہیں ہوا۔تکلیف کااحساس پہلے دن کا سا ہے۔
چند دن پہلے اسی موضوع پہ “سلمی اعوان صاحبہ” کے ناول “تنہا” کاایک اقتباس پڑھنے کا اتفاق ہوا۔مختصر سی تحریر دل کو چھو گئی اور میں نے ایک ہی نشست میں پورا ناول پڑھ ڈالا۔ ایک سحر ہے، جس نے مجھے جکڑ لیا ہے۔اس سے شاید ہی کبھی آزاد ہو پائوں۔
 اس سے پہلے اس حد تک حقائق سے آ گاہی نہیں تھی۔مصنفہ نے جس خوبصورتی سے حقائق پیش کئے ہیں،وہ قابل تحسین ہے۔بنگلہ سے اپنائیت کا جواحساس اب ہوا ہے، پہلے نہیں تھا۔
اب تو یہ عالم ہے کہ لفظ ” بنگلہ دیش” لکھنے میں جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔دل میں کھینچ پڑ رہی ہے۔ جیسے کسی ماں کا لخت جگر جدا ہو گیا ہو۔بنگال اب ہمارا نہیں رہا۔ دل کرلا رہا ہے۔
شروع سے آخر تک ایک سحر تھا،جو طاری رہا۔ہر کردار کا دکھ آپ کا اپنا دکھ ہے۔
کہانی دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔
شلپی،ایک کم سن، ہمدرد دل رکھنے والا لڑکا، جو پاکستان کے خواب دیکھتا ہے۔اپنے دادا کے ساتھ پاکستان بنانے کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔پاکستان بننے کے بعد اس کی امیدیں دم توڑتی جاتی ہیں،شدید بارشوں میں گھر بہہ جاتا ہے،لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔رفتہ رفتہ اس کے دل میں مغربی پاکستان کے لئے نفرت کے جذبات پنپنے لگتے ہیں۔جو تناور درخت کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔
شلپی کی زندگی کے ابتدائی پندرہ سالوں نے باریسال کے رہنے والوں کے دکھوں سے، حکمرانوں کی کم ظرفی سے آگاہ کیا۔
شلپی کا ڈی سی سے ذلیل ورسوا ہونے کے بعد نوکا پہ موٹے موٹے آنسو بہانا، مردہ دادا کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے چیخ کر کہنا”دادو! تو نے کیا اس پاکستان کی تمنا کی تھی” ریزہ ریزہ کر گیا۔
ایک طرف اقتدار کی ہوس اور دوسری طرف کم مائیگی کااحساس، نظر انداز کیے جانے کا دکھ، اور اس دکھ میں تخریبی کاروائیاں کرنا،بغاوت،کوئی بھی توازن برقرار نہ رکھ سکا۔۔۔۔خلیج  بڑھ گئی۔۔۔اتنی بڑھ گئی کہ جس کو پاٹا نہ جاسکا۔کرب ہی کرب ہے۔
دوسرا کردار سومی کا ہے۔ جو مغربی پاکستان سے ڈھاکہ یونیورسٹی پڑھنے کے لئے جاتی ہے۔اور وہاں لوگوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔لیکن بنگلہ کی بد حالی دیکھ کر اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے۔
بنگلہ کی بد حالی نے تو بے شمار مرتبہ  ہماری آنکھوں کو بھی نم کیا۔چار خانی دھوتیاں پہنے کمزورفاقہ زدہ لوگ، ملگجی بنیانوں اور ننگے پائوں والوں کی اکثریت ، سائیکل رکشوں میں انسان کا انسانوں کا بوجھ ڈھونا۔۔۔۔۔زندگی یہ بھی ہے۔ سمیعہ کے ساتھ ہمارا دل بھی من من بھر کے پتھروں تلے آ گیا۔
بنگلہ کی خوبصورتی کے بارے پڑھ کے اپنی کم علمی کا شدت سے احساس ہوا۔قدرتی حسن اور وسائل سے بھر پور خطہ( جو اب ہمارا نہیں رہا)خوبصورت دریا، ناریل اور سپاری کے درخت۔۔۔سندر بن کے جنگلات،گنگناتی ند یاں، خوبصورت جزیرے، ہلکے ہلکے نیلے دھوئیں کے غبار میں لپٹی چٹا گانگ کی سبز پہاڑیاں۔۔۔۔دریائے کرنافلی پر اترتی شام۔۔۔کیاکیا بتلائیں۔بس یہ احساس کہ سانس روکے پڑھتے جائیں ذرا سا رکے تو طلسم ٹوٹ جائے گا۔
ناول کا لطیف حصہ شلپی اور سومی کی باوقار محبت ہے، جو اس کھینچا تانی کی بھینٹ چڑھ گئی۔
آخر میں شلپی کا اپنی ماں سے یہ کہنا:
” ماں! دیکھو تو ذرا باہر۔۔۔۔۔۔ڈھاکہ تو اجڑا اجڑا لگتا ہے”دل کو دکھ سے بھر گیا۔
“تنہا” نے بنگلہ کی محبت میں مبتلا کر ڈالا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments