چین امریکہ سرد جنگ اور وزیراعظم کی ثالثی کی پیشکش


تقریباً دو ہفتے قبل وزیر اعظم عمران خان نے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ”ایک پرامن و خوشحال جنوبی ایشیا“ کے موضوع پر کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان امریکہ چین کی سرد جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، بلکہ اسے روکنے کی کوشش کریں گے۔ شاید علامہ اقبال نے ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا کہ:

تجھے کیوں فکر ہے اے گل صد چاک بلبل کی
تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے

گزشتہ چند برسوں سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی آ رہی ہے۔ جب کہ ماضی میں تعلقات کی سرد مہری اس درجے سے کہیں کم تھی۔ دنیا کی ان دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارت، ٹیکنالوجی، مسابقتی ضابطوں، بحیرہ جنوبی چین اور تائیوان میں چین کی فوجوں کی موجودگی، ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمیت دیگر امور پر اختلاف موجود ہے۔ شمال مغربی چین میں نسلی اقلیتوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہانک کانگ میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کو روکنا اور کرونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات میں مکمل تعاون کے لیے عالمی دباؤ کے باوجود چین کے عدم تعاون پر امریکہ چین کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اس وقت بھی اضافہ ہوا جب چین نے تائیوان کے قریب اپنے طیارے اڑائے۔ چین اپنے طور پر تائیوان کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔ نومبر 2021 میں دونوں ممالک

کے صدور کی ورچوئل بات چیت کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے سپر پاورز کے درمیان تصادم کو روکنے بہترین رابطوں اور ”حفاظتی جنگلے“ کی بات کی۔ جو بائیڈن کے مطابق ایسا حفاظتی جنگلہ جس میں اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ دونوں ممالک کی مسابقت کسی طور پر بھی تصادم کی صورت اختیار نہ کرسکے۔ ایک طرف جناب جو بائیڈن کے یہ خیالات تھے اور دسمبر کے پہلے ہفتے ہی میں امریکہ نے چین میں انسانی حقوق پر تحفظات رکھتے ہوئے 2022 ء میں چین کے شہر بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ سفارتی بائیکاٹ میں امریکی کھلاڑی حصہ لیں گے اور انھیں اپنی حکومت کی مکمل سرپرستی بھی حاصل ہوگی مگر کسی سرکاتی وفد کو ان کھیلوں میں نہیں بھیجا جائے گا۔ جس پر چین نے بھی جوابی اقدامات کا اعلان کر دیا۔ 1980 ء میں جب روس اور امریکہ سرد جنگ کے سرخیل تھے تو امریکہ نے روس کے افغانستان پر حملے کے خلاف احتجاجاً ماسکو اولمپکس سے دستبرداری اختیار کی تھی۔ جس کے جواب میں روس اور اس کے اتحادیوں نے 1984 ء میں لاس اینجلس میں ہونے والے اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

چین اور امریکہ کی حالیہ سرد جنگ کو موازنہ سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ سے بھی کیا جا رہا ہے۔ مگر اس سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کو عالمی معیشت میں کسی حد تک مسائل کا سامنا تھا۔ مگر آج چین عالمی معیشت کا محور بھی ہے اور چین امریکہ کے تجارتی لین دین اس حد تک ہیں کہ ان کی معیشتیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ کے دوران ان میں پہلے ہتھیاروں کا مقابلہ تھا اور بعد میں خلا کو فتح کرنے کی دوڑ۔ جب کہ آج چین اور امریکہ کی سرد جنگ میں مقابلہ مصنوعی ذہانت اور فائیو جی ٹیکنا لوجی کے بارے میں ہے۔ سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ میں دنیا دو دھڑوں میں تقسیم تھی، اگر چہ اس وقت ایک غیر جانبدار بلاک بھی تھا لیکن اندرونی طور پر ان کی کسی نہ کسی درجے پر وابستگی کسی ایک دھڑے کے ساتھ تھی۔

بات چلی تھی وزیر اعظم عمران خان کی چین امریکہ کی سرد جنگ کو کم کرانے کی خواہش پر۔ اس حوالے سے جناب ایف ایس اعجاز الدین کی کتاب From A Head، Through A Head To A Head جس کا اردو ترجمہ ”سربراہ سے سربراہ تا سربراہ۔“ فیروز سنز سے شائع ہوا تھا، یاد آ گئی۔ سابق صدر پاکستان یحییٰ خان جنھیں دسمبر 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد معزول کر دیا گیا تھا، وہ بطور ایک ناکام ترین سربراہ مملکت تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔

انھی کے دور میں مشرقی پاکستان آج کا بنگلہ دیش بنا اور ہزاروں فوجی جنگی قیدی قرار پائے تھے۔ مذکورہ کتاب کی بنیاد 49 کے قریب وہ خفیہ دستاویزات ہیں جو یحییٰ خان کے پاس ”چینی رابطہ“ کے عنوان سے مرتب فائل میں ان کی ذاتی تحویل میں تھیں۔ ان کاغذات کا عرصہ 15 اکتوبر 1969 ء سے لے کر 7 اگست 1971 ء تک کا ہے۔ اس میں صدر نکسن اور ہنری کسنجر کے وزیراعظم چین ژو این لائی کے نام بھیجے گئے اور وصول کیے پیغامات شامل ہیں جو یحییٰ خان کی وساطت سے ارسال کیے گئے تھے۔

کتاب میں صدر نکسن اور ژو این لائی کا ایک مکالمہ بھی نقل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم دونوں یحیٰی خان کے زیر بار ہیں۔ اگرچہ اس نے اپنے ملک کی سیاسی قیادت میں تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا، لیکن ہمارے دونوں ممالک کے درمیان رابطہ ضرور قائم کیا۔ ایک پل کا کردار ادا کیا۔ ہم نہ تو یہ بھلا سکتے ہیں نہ ہی ہمیں بھلانا چاہیے، کہ صرف یحییٰ خان ہی کے ذریعے سے ہنری کسنجر کی خفیہ ملاقات ممکن ہوئی اور جب کوئی عالمی بہتری کے لیے ہاتھ بٹاتا ہے تو ہمیں اسے ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ یہاں کتاب کے مصنف اپنا جملہ لکھتے ہیں کہ ”لوح قبر پر نوشتہ یہ خراج تحسین، شاید مرحوم یحییٰ خان کے لیے سب سے زیادہ قابل ترجیح ہو“ ۔

ہمارے موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان کا بھی عالمی امن کے قیام کے لیے جذبہ قابل قدر ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر اسلام آباد میں او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں ان کا یہ جذبہ دیدنی تھا۔ ملک کی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال دن بہ دن تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ مگر ہم عالمی مسیحا بننے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ ایک نے ساری توجہ دو طاقتوں کا دوستانہ کرانے پر مرتکز رکھی اور آدھا ملک گنوا دیا۔ آج ہم اپنی عوام کے مسائل کو حل کرنا تو بہت دور کی بات، کم کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے مگر افغانستان کے مسائل حل کرنے کے لیے فکر مند ہیں۔ ملک کی اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا رکھا ہے مگر چین امریکہ کی سرد جنگ کو کم کرنے کے لیے جذبہ شوق اس قدر بے قرار ہے کہ سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا معاملہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments