بنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز: قسط نمبر 3


بیت اللحم فلسطین کا ایک اہم شہر (Bethlehem)

بیت اللحم، ویسٹ بنک کا ایک بڑا شہر ہے۔ یاد رہے کہ یروشلم کا مشرقی حصہ بھی ویسٹ بنک میں شامل ہے۔ اس کی آبادی پچیس ہزار کے قریب ہے۔ یہاں پر عیسائیوں کے بھی کئی مقدس مقامات موجود ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہونا بہتر ہے کہ یروشلم اور بیت اللحم کا درمیانی فاصلہ دس کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ اس لیے یہ علاقے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یروشلم کے مغربی حصہ پر اسرائیل کا قبضہ ہے جب کہ اس کا مشرقی حصہ ویسٹ بنک میں شامل ہے۔ بیت اللحم کلی طور پر ویسٹ بنک میں شامل ہے۔ اس لیے اسے بھی بیت المقدس کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔

اسے نبیوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس علاقے میں کئی پیغمبر بھی تشریف لائے تھے۔ جنگ عظیم اول کے بعد یہ شہر انگریزوں کے کنٹرول میں آ گیا۔

راملہ

رملہ، یروشلم کے شمال میں دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک قدیم شہر ہے اور اس وقت فلسطین حکومت کا پایۂ تخت بھی ہے۔ تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس علاقے کو حضرت خالد بن ولید نے فتح کیا تھا۔ بنو امیہ کے حکمرانوں نے یہاں کئی عمارتیں بھی بنوائی تھیں۔ پھر ایک وقت آیا جب صلیبی جنگوں کے نتیجے میں اس شہر پر مسیحیوں نے قبضہ کر لیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ فتح کر کے اپنی مملکت میں شامل کیا۔ یہ شہر سطح سمندر سے تقریباً تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

باقی شہروں کی طرح سلطنت عثمانیہ کے بعد انگریزوں نے اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ کسی وقت میں اردن بھی اس شہر پر قابض رہا ہے۔ آخر کار یہ شہر فلسطینی حکومت کے کنٹرول میں آ گیا۔ اس شہر کی سب سے اہم بات اسرائیل کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہے جسے انتفادہ بھی کہا جاتا ہے۔

اب تک میں نے آپ کی خدمت میں اسرائیل اور فلسطین کے اہم شہروں اور علاقوں کے بارے میں چند معلومات پیش کی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان شہروں کے بارے میں بنیادی معلومات آپ کے لیے فلسطین کی تاریخ کو سمجھنے میں بے حد مدد گار ثابت ہوں گی۔

دور اول: قبل مسیح کا فلسطین

تاریخ دانوں نے اس خطے کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں لکھی ہیں۔ جن میں سے درست بات تلاش کرنا کافی مشکل ہے۔ البتہ عیسوی دور کے واقعات میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

کہتے ہیں کہ اس علاقے میں انسانوں کی آبادی کا قدیم ترین ثبوت تقریباً ڈیڑھ لاکھ سال پہلے کا ملتا ہے ہے۔ (مجھے یہ بات مبالغہ لگتی ہے ) ۔ ایسا کئی لوگوں نے کہا ہے۔

تچرنووایٹن (Tchernov، Eitan) نے اپنی کتاب ”The Age of ’Ubeidiya Formation (Jordan Valley، Israel) and the Earliest Hominids in the Levant“ میں تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے۔

اگر آپ بحیرہ روم کو دنیا کے نقشے پر دیکھیں تو آپ یہ جان سکیں گے کہ اس کے چاروں طرف زمینی علاقے موجود ہیں۔ اس کے مشرق میں اردن، شام، لبنان فلسطین وغیرہ یعنی عرب ممالک پائے جاتے ہیں۔ اس کی مغربی سرحد اسپین سے ملتی ہے۔ شمال میں ترکی، یونان اور اٹلی واقع ہیں۔ اس کے جنوب میں افریقی ممالک مصر لیبیا مراکو، الجزائر (جسے الجیریا بھی کہتے ہیں ) موجود ہیں۔

بحرہ روم کو بحیرہ احمر (Red Sea) سے ملانے کے لیے نہر سوئیز بنائی گئی ہے۔ اس کا رابطہ بحیرہ اسود (Balck Sea) سے بذریعہ خلیج باسفورس ہوتا ہے۔ مغرب میں مراکو کے شمال میں ایک چودہ کلومیٹر سمندری پٹی بحیرہ روم کو بحیرہ اوقیانوس (Atlantic Sea) سے ملاتی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے مراکشی مسلمان اسپین پر حملہ آور ہوتے تھے۔ طارق بن زیاد کا مشہور واقعہ بھی یہیں کا تھا۔ جبرالٹر ( جبل الطارق) کی پہاڑی بھی اسی پر جگہ موجود ہے۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ انسانی آبادی کا آغاز اسی خطے سے ہوا۔ زیادہ تر لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کا مشرقی ساحل (جو عرب سے ملتا ہے ) اور جنوبی ساحل (جو مصر سے ملتا ہے ) کے علاقے میں دو ہزار قبل مسیح انسان آباد ہوئے تھے۔ جن میں اکثریت نے افریقہ سے نقل مکانی کی۔ ہندوستان سے متعلق بھی لوگوں کا یہی خیال ہے کہ آریاؤں سے بھی پہلے لوگ افریقہ سے اس خطے میں آئے تھے۔ (شاید یہی وجہ ہوگی کی وادیٔ سندھ کے لوگ مصری لوگوں سے کاروبار بھی کرتے تھے اور ان کے آپس میں قریبی تعلقات بھی تھے۔

اسی خطے میں کئی قابل ذکر ریاستیں بھی موجود تھیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اسی خطے سے یہودی اور عیسائی مذہب نے جنم لیا تھا۔

دو ہزار قبل مسیح میں اس علاقے میں سامریہ شہر کا ذکر ملتا ہے جو سامریہ خاندان کا دارالحکومت مانا جاتا ہے۔ مختلف کتابوں میں اسی دور کا ذکر فرعون کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہی وہ دور ہے جب اس علاقے میں پہلی مرتبہ ایک اسرائیلی ریاست کے وجود کا پتا چلتا ہے۔ اسی وجہ سے جب یہودیوں کو دوبارہ ریاست بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے نئی ریاست کا نام بھی اسرائیل ہی رکھا۔ اس بات کا ذکر کئی جنگوں کی تاریخ پڑھتے ہوئے بھی ملتا ہے۔

میں اب تک جو جان پایا ہوں اس کے مطابق جب پہلی مرتبہ یہودی قبائل کو اقتدار ملا اور پھر ان کے توسیع پسندانہ اقدامات کی وجہ سے انہیں یہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایک مدت تک اسرائیل پھر کبھی بھی دوبارہ ریاست نہ بن سکی۔ اس بات کا تفصیلی ذکر یہودیوں سے متعلق لکھی گئی اس تحریر سے ہوتا ہے جو The LMLK Research Website پر اس نام سے موجود ہے۔

Seal of Amariah Hananiah–Servant of Hezekiah

آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق اسرائیل سلطنت ایک خوشحال ریاست تھی۔ اس دور میں قابل ذکر شہری ترقی بھی دیکھی گئی۔ اس دور کی کئی عمارتوں کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ یاد رہے یہ سب اسلام اور عیسائیت سے پہلے کی باتیں ہیں۔

ہم تاریخ میں اکثر بابل کے باغات اور اس دور کی حکومت کا ذکر پڑھتے ہیں۔ اسے انگریزی میں Babylon کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور اردو میں ہم اسے بابل لکھتے ہیں۔ اسی نام کا ایک شہر قدیم بابل کی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ یہ علاقہ موجودہ بغداد کے قریب ہی واقع تھا۔ یہ اسی دور کی بات ہے جب میسوپوٹیمیا کی ریاست کا ذکر ملتا ہے۔ ان دونوں ریاستوں کی آپسی کشمکش کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ اس بات کا ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پہلی مرتبہ یہودہ لفظ کا تصور اسی ریاست کی وجہ سے سامنے آتا ہے۔

بابل کی ریاست کے دوسرے دور میں (یعنی چھٹی صدی قبل مسیح میں ) یہودہ بابل ریاست کا ایک شہر تھا۔ جیسے ہی بابل ریاست کا خاتمہ ہوا اس شہر کا کام بھی تمام ہو گیا۔ مختلف لوگوں نے اس بات کی تحقیق کی ہے کہ لفظ یہودی کہاں سے آیا۔ جو میں جان سکا ہوں اس کے مطابق یہودی (انگریزی میں Jew ) کا ذکر بائبل کے عبرانی لفظ یہودہ ہی سے نکلا ہے جس کا مطلب ”یہودہ بادشاہ“ ہے۔ اس کا ایک مطلب ”ایک خدا کا پرستار“ بھی ہے۔
دکچھ تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبرانی بائبل میں یہودہ ایک مذہبی رہنما کے چوتھے بیٹے کا نام تھا۔ جلاوطنی کے دوران ایک قبیلے کا نام بھی یہودہ رکھا گیا۔ اسی قبیلے نے کنعان کی سرزمین پر آباد کاری کی۔ (اس کا ذکر مولانا مودودی ؒ نے حضرت موسیٰ کے دور میں ان کی قوم اور بچھڑے کی پوجا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کنعان میں اس طرح کا رواج عام تھا) ۔

یہودی، بنی اسرائیل، صہیونی

جب اسرائیل کی ریاست کا خاتمہ ہوا تو یہ نام ایک قبیلے کے لیے مختص ہو گیا۔ پھر جب اسرائیل کی بقیہ ریاست کا بھی خاتمہ ہو گیا تو یہودی اصطلاح تمام بنی اسرائیل کے لیے استعمال ہونے لگی اور جو اب تک ہو رہی ہے۔ قرآن میں بھی ان لوگوں کے لیے بنی اسرائیل کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ بنی اسرائیل نام کی ایک سورۃ بھی قرآن میں موجود ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 62 میں لفظ ہادو بھی استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ مولانا مودودیؒ سمیت سب نے یہودی کیا ہے۔

اب تک جو میں سمجھا ہوں اس کے مطابق پہلے پہل یہودہ ایک علاقے کا نام تھا اور پھر وہاں رہنے والے لوگوں کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا اور اب بنی اسرائیل لیے عمومی طور پر یہود یا ”Jew“ کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے، میرے لیے کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ البتہ ایک بات واضح ہے کہ مدینہ میں رہنے والے بنی اسرائیل کے لوگوں کے لیے لفظ یہودی ہی استعمال ہوتا تھا۔ ان سب کو یہودی قبائل کا نام ہی دیا گیا تھا۔ یہ بات سیرت کی کتابوں سے بھی واضح ہے۔

چھٹی صدی قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ سائرس نے دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کیا تو بابل کے دوسرے دور کی ریاست بھی اس کے قبضہ میں آ گئی اور بابل کا علاقہ فارس کی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔ غالب امکان ہے کہ اس دور میں اس علاقے کو پہلی مرتبہ فلسطین یا پلسٹین کا نام دیا گیا۔ سائرس کی موت کے بعد بننے والے بادشاہ کے کئی اقدامات کی وجہ سے مقامی لوگوں نے بغاوت کر دی۔ یہی وہ دور تھا جس میں فارس کے لوگوں نے یورپ کے کئی علاقوں پر قبضہ کیا۔ پھر ایک وقت آیا جب سکندر اعظم نے فارس کی سلطنت کا خاتمہ کیا اور اس کے یونان پر کیے گئے مظالم کا بدلہ لیا۔ اس تمام عرصے میں بنی اسرائیل کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے۔

تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں تقریباً پانچ سو سال بعد یہودیوں نے ایک طویل عرصہ تک یروشلم، اس کے ہیکل اور کئی دیگر مقدس مقامات کی بے حرمتی کا دکھ سہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ان مقدس مقامات کو تعمیر کر کے اس شہر میں یہودی مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا شروع کی۔ یہی وہ دور ہے جب حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ہوتی ہے اور یہود ان کی مخالفت میں اتر آتے ہیں۔ یہاں سے فلسطین کی تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں روم کے بادشاہ عیسائی مذہب اختیار کر لیتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر یہودیوں کو شہر سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےتین مذاہب کا مرکز – قسط اولبنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز قسط نمبر 2

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments