پاکستان میں انتخابات (2)


ان بلدیاتی الیکشنوں کی ایک اور یاد وہ لڑائی ہے جو اسی نکڑ والے چوک میں لڑی گئی جہاں تین ایریوں کی حدود ایک دوسرے سے جدا ہوتی تھیں۔ چوہدری چاچے کا پھٹا ہوا کرتا اور بھولو پان والے کی ”ہندوستانی بہادری“ کا ایکٹ۔ پتہ نہیں ہوا کیا تھا مخالف پارٹی کیسے وہاں آ دھمکی اور لڑائی کیسے شروع ہو گئی؟ ہمارے امیدوار مجید احمد خان کے ہندوستانی سپورٹر باتوں کی تیر اندازی میں تو ید طولٰی رکھتے تھے مگر جب بات راست اقدام تک آ پہنچی تو سب غیر محسوس طریقے سے آس پاس کے کوارٹروں میں سرایت کر گئے اور میدان میں چوہدری چاچے جیسے چند ”پنجابی“ سر پھرے ہی رہ گئے۔

مخالف پارٹی مقامی مضافاتی دیہاتی پس منظر رکھتی تھی اس لیے ہمارے سر پھروں کی خوب شامت آئی۔ اس دوران میری نظر بھولو پر پڑی جو ٹیڈی لوگوں کے گھر کے صحن میں جا چھپا تھا اور دروازے کی جھری سے آنکھ بھڑائے باہر دیکھ رہا تھا جہاں دو مردان کارزار باہم سینگ پھنسائے ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے۔ دھان پان بھولو جو باتوں سے اپنا وزن کئی گنا بڑھا لیتا تھا موقع مناسب دیکھ، دروازہ کھول، دبے پاؤں باہر نکلا، چھٹانک بھر کا پتھر اٹھایا اور مخالف پارٹی کے بھینسے کی طرف یوں اچھال دیا جیسے لڑکیاں ایک دوسرے کی طرف گیند اچھالتی ہیں اور پھر چھپاک سے واپس گھر میں گھس کر دروازہ بند کر لیا اور یقیناً اپنے دھک دھک کرتے سینے پر ہاتھ رکھ لیا ہو گا۔

البتہ یہ آزمائش گزر جانے کے بعد اور مجید کی الیکشن میں فتح کا جشن منانے کے دوران اگر بھولو نے پتھر کا وزن پچاس گنا بڑھا کر بھینسے کا سر پھاڑ ڈالنے کا دعویٰ داغ دیا ہو اور مجید کی فتح کو اس پتھر کا اعجاز قرار دے دیا ہو تو کچھ بعید نہیں۔ ایک تو ان کا ویسے ہی طوطی بولتا تھا اور الیکشن جیت جانے کے بعد تو وہ جتنی بڑی چاہیں ہانک سکتے تھے۔ پنجابی بھائی بے زبان ہونے کے سبب اختلاف کا یارا نہیں رکھتے تھے۔ اور پنجابی بھی وہ کوئی ایسے ”نجیب الطرفین“ نہیں تھے یہی پوٹھوہاری اضلاع کے پسماندہ دیہاتی جو ویسے بھی زیادہ بولنے کے عادی نہیں ہوتے۔

مجید کی فتح کا جشن منا چکنے کے بعد الیکشنوں کی یہ صحت مندانہ سرگرمی اختتام کو پہنچی اور نکڑ والا چوک ایک بار پھر بنٹے، گلی ڈنڈا، کیرم کھیلنے والوں اور پلیوں پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے والوں کی آماجگاہ بن گیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد مجید کی کیا سر گرمیاں رہیں اور اس کی خاطر سر پھٹول پر تلے، آنکھیں میچ کر اور اپنی بنیادوں کا زور لگا کر نعرے لگانے والوں نے کیا مقصد حاصل کیا اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ یوں سمجھو کچھ ہوا ہی نہیں۔

پھر آیا 1985۔ بڑے الیکشن۔ مگر سفید جھنڈے، سب کا ایک ہی رنگ، سب بے رنگ بے بو، صرف پسینے کی بو، عامیوں کے لیے ایک تماشا، ایک نعرہ، ایک جلسہ، ایک ہنگامہ، لہو گرم رکھنے کا بہانہ، اک تماشے پہ موقوف ہے رونق گھر کی، مگر وہ جو جانتے ہیں الیکشن جماعتی ہوں یا غیر جماعتی، رنگدار ہوں یا بے رنگ، جھنڈے والے ہوں یا صرف بینر والے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ پورے طمطراق سے بروئے کار آتے ہیں اور کہاں کہاں سے اٹھ کر آ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر کمال تو ہوا ہمارا ”اپنا“ مجیدے کی طرح اور باقی دو تین دیہاتی پس منظر کے پتہ نہیں کہاں سے اٹھ کر آئے ہوئے۔ اسلم مارکیٹ میں شام ڈھلے ڈاکٹر کمال کا جلسہ ہوا۔ نکڑ والا چوک ہم سے چھوٹ چکا تھا مگر تب تک میں اس قابل ہو گیا تھا کہ شہر کے دوسرے کنارے سے بس پر سفر کر کے روز شام کو اسلم مارکیٹ کے نواح میں آ سکوں۔ جلسے میں خاصے لوگ تھے زیادہ تر وہی بھولو ”پہلوان“ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے۔ لوگوں کی تعداد دیکھ کر سب کو یقین ہو چلا تھا کہ ڈاکٹر ضرور جیتے گا اور جب اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ڈاکٹر جیت چکا ہے اور ایک نعرہ باز نے کیف و مستی میں ڈوب کر ”ڈاکٹر جیت چکا ہے شاوا“ کے طرح مصرعے سے قافیے ملا ملا کر نعرے لگوائے تو خود مجھے بھی ڈاکٹر کے جیتنے میں رتی برابر شک باقی نہ رہا اور الیکشن کی سرگرمی کو مزید جاری رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ نہ آئی۔ مضافاتی دیہاتی امیدوار ڈاکٹر کے مقابلے میں ویسے تو پھیکے اور بے رنگ ہی دکھائی دیتے تھے مگر ایک دن بہت ہی طویل اور بلند ایک بینر پر نظر پڑی، اجلے چہرے اور بغیر داڑھی مونچھ کا نوجوان ”اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب“ کوئی پڑھا لکھا لینڈ لارڈ ہو گا، تو مقابلہ تو کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ہے۔

اور پھر جب وہی لختئی نوجوان کامیاب ٹھہرا تو یوں لگا جیسے شادی تو ڈاکٹر کی تھی مگر دلہن وہ بھگا لے گیا۔ اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ دھلے ہوئے چہرے والا یہ نوجوان اب ہر الیکشن جیتے گا اور مسلسل جیتنے کا ریکارڈ بنائے گا یہاں تک کہ 2018 آ جائے گا۔ رہ گیا ڈاکٹر تو وہ ”جماعتیا“ نکلا مگر یہ بات بھی مجھے بعد میں پتہ چلی۔

الیکشن کا سب سے دلچسپ مرحلہ ٹی وی پر نتائج سننا تھا اور اس دوران بیچ بیچ میں دکھائے جانے والے خاکے، ڈرامے اور بعض اوقات فلمیں بھی۔ ایک سے ایک منفرد اور نستعلیق میزبان۔ نعیم بخاری، تارڑ صاحب، لئیق احمد، مہتاب چنا/راشدی اور وہ کراچی کی نستعلیق ترین جو پچھلی عمر میں ایم کیو ایم کے غول بیابانی میں جا شامل ہوئی تھیں۔ نام کیا تھا۔ سب سے شستہ اور صحت لفظی کے ساتھ بولنے والی وہی تھیں۔ تفریحی پروگرام میں سب کی دلچسپی بندھی ہوتی اچانک اسے روک دیا جاتا الیکشن سیل کی مخصوص سنجیدہ سرسراہٹیں۔

اور میزبان کی آواز گونجتی ”ایک اور نتیجہ آیا ہے“ سب کے کان کھڑے ہو جاتے، اونگھنے والے چونک کر سیدھے ہو جاتے ”حلقہ ہے پی بی ستائیس۔ بارکھان کم قلعہ سیف اللہ جہاں سے پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے۔ ۔ اور وہ اکتا کر پھر سے اونگھنے لگتے۔ شروع میں ایسے ہی دور پار کے نتیجے آتے جن سے کسی کو دلچسپی نہ ہوتی۔ شروع والے پینل کو خوب گپ شپ کا موقع ملتا، مصنوعی نوک جھونک کا اہتمام کیا جاتا۔ باتیں ختم ہو جاتیں تو الیکشن کے لیے خاص تیار شدہ خاکے اور چٹکلے وقت گزاری کو موجود ہوتے۔

مارشل لاء کے ظاہری جبر کی حدت اور تمازت سے چٹخی ہوئی زمین کے نیچے بہنے والی کاریز کی صورت تخلیق ہونے والے شاندار مزاح کی روایت برقرار تھی۔ پہلا پینل ایک آدھ نتیجہ ہی سنا پاتا اور نتائج سنانے کی حسرت دل میں لیے ہی رخصت ہو جاتا۔ یہ اعزاز بعد میں آنے والوں کے حصے میں آتا اور جب ایک بار یہ سلسلہ چل پڑتا تو پھر رات گئے اور صبح دن چڑھے تک جاری رہتا۔ پینل بدلتے رہتے، ہم جیسے دیکھنے والے جو کاغذ قلم لے کر بیٹھتے، لکھ لکھ کر اکتا جاتے۔

شام تک سب کچھ سامنے آ جاتا پھر جوڑ توڑ کا مرحلہ شروع ہوتا اور دو چار پانچ دن میں صورتحال واضح ہو جاتی تو زندگی معمول پر آ جاتی۔ جن کاغذوں پر ہم نے بڑے تجسس اور اشتیاق سے نتیجے لکھے ہوتے بعد میں انھیں دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے۔ ہر ڈھائی تین سال بعد یہی معمول دوہرایا جاتا اور ہم بھی تازے ہو کر اس سرگرمی میں شامل ہو جاتے جیسے الیکشن نہ ہوا ریل کا سفر ہو گیا۔ اب خیال آتا ہے یہ سب زمینی خداؤں کا رچایا ہوا کھیل تھا جیسے زمین کے سٹیج پر آسمانی خداؤں نے زندگی کی بساط بچھا رکھی ہے اور تمام بنی آدم مکمل یکسوئی، کامل سنجیدگی اور بھرپور توانائی کے ساتھ بنا سمجھے بنا جانے اپنا پارٹ نبھا رہے ہیں ایسے ہی الیکشن کا کھیل بھی ایک سوچا سمجھا، اوپر سے اور پہلے سے طے شدہ ایسا تماشا تھا جسے شامل کرداروں کی سنجیدگی پرتجسس، بامعنی اور حقیقی بنا دیتی تھی۔

88 اور 90 کے الیکشن پشاور میں دیکھے۔ ایک چھوٹا سیسنا طیارہ جب فضا میں محو پرواز ہوا اور اس نے وہ پرچیاں نیچے گرائیں جن پر بے نظیر اور نصرت بھٹو کی پرانی، دھندلی، بلیک اینڈ وائٹ تصویریں تھیں مگر نیچے لکھے ہوئے ان کی وضاحت کرتے الفاظ ہر گز دھندلے نہ تھے ”نصرت بھٹو سابق امریکی صدر فورڈ کے ہمراہ ڈانس کرتے ہوئے“ ۔ تو میں ان گرائی گئی پرچیوں کو دبوچنے اور اس ساری کارروائی کا گواہ بننے کے لیے وہیں نیچے موجود تھا اور ایک بار جب بے نظیر کا کانوائے یونیورسٹی روڈ سے گزر رہا تھا تو میں نے اپنے آئس کریم پارلر کے سامنے اس کے شیشے پر دستک دی تھی آفتاب شیرپاؤ ڈرائیو کر رہا تھا۔ بے نظیر تو متوجہ نہ ہوئی البتہ پجارو کی چھت پر گن پکڑ کر بیٹھے گارڈ نے آنکھیں نکالتے ہوئے گن کی نال میری طرف موڑ لی۔ ان دنوں ہم پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کے رومانس میں مبتلا تھے، وہی بنا سمجھے بنا جانے، شاید ضیاء الحق سے نفرت اس کی وجہ ہو یا بے نظیر کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا۔

ترانوے اور چھیانوے کے الیکشنوں کا مشاہدہ لاہور میں رہ کر کیا۔ ایک الیکشن ڈے کی شام چند پولنگ سٹیشنوں پر گھوما پھری، ہجوم سپورٹراں کے جگہ جگہ جھمگٹے اور ان کے بیچ میں سے ہر تھوڑی دیر بعد ابھرنے والی دبنگ للکار ”شیر۔ ررر۔“

اور دوسرا نعرہ ”آٹا ٹینا ڈالا ٹھاہ“
پھر ایک اور مارشل لاء اور دو ہزار دو کے الیکشن

تب تک ہم بھٹیار خانے سے براستہ بالا خانہ ہوتے ہوئے خانہ بچگان تک آ پہنچے تھے البتہ بچگان کا نزول ابھی بس ہوا ہی چاہتا تھا۔ میڈم کی ڈیوٹی الیکشن میں لگی تھی اور ہم نے غالباً کرائے کا ٹی وی لا کر تن تنہا نتائج ملاحظہ فرمائے تھے۔

دنیا بدل رہی تھی۔ اب صرف پی ٹی وی نہیں تھا اور بہت سی کھڑکیاں کھل گئی تھیں مگر ان بے شمار کھڑ کیوں کی بے حساب روشنی اور بے ہنگم چیخ و پکار اور شور و شغب سے اکتا کر اسی ایک کھڑکی کا زمانہ پھر سے لوٹ آنے کی تمنا دل میں جاگ اٹھنے کا وقت ابھی دور تھا۔ ابھی تو ہر کھڑکی سے دکھائی دینے والا منظر اتنا مسحور کن اور سنائی دینے والی آوازیں اتنی دلفریب تھیں کہ لگتا تھا وہ انقلاب جس کے گیت ہمارے پسندیدہ شاعروں نے گائے تھے اور جس کے خواب پچھلی نسل کے انقلابیوں کی بجھی ہوئی آنکھوں سے چن کر ہم نے اپنی آنکھوں میں سجائے تھے، بس آیا ہی چاہتا ہے۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔ ہمیں گھر بیٹھے بس ٹی وی دیکھتے ان عشاق میں شامل ہونے کا موقع مل رہا تھا۔ ایک وقت تھا جب خبر کے چسکے میں ریڈیو پر بی بی سی کی فریکوئنسی کو دسیوں مختلف النوع اور مختلف اللسان آوازوں اور بیچ میں ابھرنے والی بے ربط اور گاہے کان پھاڑ دینے والی ٹوں ٹاں کے درمیان تلاش کر کے سوئی کو عین اس پر ٹکانا، وقت مقررہ پر ٹوں۔ ٹوں۔ ٹوں اور آخر میں ایک لمبی ٹوں ں ں ں۔

یہ بی بی سی لندن ہے۔ وہی پختہ تراشیدہ آواز جو کبھی مایوس نہیں کرتی تھی، کبھی بور نہیں کرتی تھی اور کبھی معیار کی کمی یا خبر کے کچے پن کا گماں نہیں گزرتا تھا۔ اور اب۔ یعنی کہ یہاں بھی جہاں پی ٹی وی کا مؤدب، ”مؤقر“ مگر بے ذائقہ، بے بو اور بے مطلب خبر نامہ سن سن کر ہم عاجز آ چکے تھے ( بلکہ نہ سن سن کر، سننے کی سکت کس میں تھی ) ۔ یہاں بھی ہر وہ خبر چلے گی جو پہلے چھپائی جاتی تھی۔ کیا بات ہے جناب! ! قوم کو اور کیا چاہیے تھا؟ تجسس، کن سوئیاں، ٹوہ میں رہنا، پگڑی اچھالنا۔ میڈیا نے سب کو پیچھے لگا لیا۔

الیکشن کی نشریات بھی وہ نہ رہیں، کاتا اور لے دوڑا اور گاہے بغیر کاتے ہی۔ ایک دوڑ، ایک ہڑبونگ۔ سب سے پہلے نتیجہ (پولنگ سٹیشن کا) مگر ہر چینل کا اپنا، کوئی کسے جتا رہا ہے کوئی کسے۔ ایک طرف تو پہلا نتیجہ پانچ بجے ہی آن ٹپکنا اور دوسری طرف تین تین دن نتائج کا مکمل ہی نہ ہونا اور مجال ہے کوئی چینل انھیں کھوج نکالنے کی ذمہ داری لے۔ ٹھیک ہے بھئی نیا زمانہ ہے، گئے دنوں کی باتیں یوں بھی اچھی لگتی ہیں کہ ماضی کا حصہ ہیں اور ماضی ہمیشہ پر لطف اور رومانوی ہوتا ہے البتہ نئے زمانے کو ابھی اپنا آہنگ دریافت کرنا ہے تب تک پرانی باتیں ہی دوہرائی جاتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments