بنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز : قسط نمبر 4


دور دوم :فلسطین، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لے کر مسلمانوں کی آمد سے پہلے تک

فارس کے حکمرانوں کے زوال کے بعد اہل یونان نے اس علاقے پر اپنا راج شروع کیا جس کا آغاز سکندر سے ہوا اس نے مصر کے بعد فارس پر بھی قبضہ کر لیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ جب دوسری صدی عیسوی میں یہ خطے رومن سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اس دوران ایک مرتبہ پھر یہود یہاں سے نقل مکانی کر گئے لیکن فلسطین کے ایک چھوٹے سے حصہ گیلیل (Galilee) پر وہ ضرور موجود رہے۔ اس طرح گیلیل ان کا ایک مذہبی مرکز بن گیا۔ ساتویں صدی عیسوی تک یہ علاقے بازنطینی حکمرانوں کے ماتحت رہے۔

یاد رہے بازنطینی سلطنت درحقیقت رومی سلطنت کی ہی ایک شکل ہے اور اسے مشرقی رومن سلطنت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا (استنبول) ۔ جب پانچویں صدی میں مغربی رومن سلطنت کو زوال آیا تو مشرقی روم محفوظ رہا۔ اس کی تباہی 1453 میں سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں ہوئی۔ (رومی سلطنت کی ایک طویل تاریخ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور نہایت ہی سبق آموز اور دلچسپ ہے ) ۔

قرآن پاک میں سورۃ روم میں رومیوں اور مجوسیوں کی جنگ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ پہلے پہل رومیوں کو شکست ہوئی جس پر کفار مکہ نے بے حد خوشی کا اظہار کیا کیونکہ رومی اہل کتاب تھے اور اس لیے ان کی شکست مسلمانوں کی شکست تصور کی جاتی تھی۔ اس پر قرآن نے کہا کہ رومی عنقریب دوبارہ غلبہ حاصل کریں گے۔ یہ سن کر کفار مکہ نے مسلمانوں کا مذاق اڑایا۔ اسی دوران حضرت ابوبکرؓ کا مکہ کے ایک کافر سے سو اونٹوں کی شرط کا واقعہ بھی پیش آیا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اجازت سے ہوا تھا۔

مولانا مودودی (رحمۃ اللہ علیہ) نے سورۃ روم کے دیباچے میں اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ فارس کی فوج میں یہود بھی ایک کثیر تعداد میں شامل تھے۔ ان کی مدد سے مجوسیوں نے ایک مرتبہ رومی فوجوں کی شکست دی اور ایک بڑے علاقے پر قبضہ بھی کیا۔ پھر 627 میں کئی جنگوں کے بعد رومی جیت گئے اور اس طرح قرآن کی پیش گوئی بھی سچ ثابت ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ بھی شرط جیت گئے۔

دور سوم: فلسطین، حضرت عمرؓ کے دور سے انگریزوں کی فتح تک

اس سے پہلے کہ میں آپ کو فلسطین کی فتح کے بارے میں کچھ بتاؤں میں چاہوں گا کہ بازنطینی سلطنت اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے بارے میں کچھ عرض کروں۔

اگر آپ سعودی عرب کے نقشے کو دیکھیں تو آپ کو واضح طور پر یہ معلوم ہو گا کہ اس کے دو اطراف ( مشرق اور مغرب ) میں سمندر ہے اور جنوب میں یمن اور عمان واقع ہیں جبکہ اس کے جنوب مشرق میں عرب ریاستیں موجود ہیں۔ باقی دنیا سے اس کا زمینی رابطہ شمال میں واقع عراق، اردن، شام اور لبنان کے ذریعے ہی ہے۔

جب رومیوں اور ایرانیوں کی آپس میں جنگ ہوتی تھی تو بازنطینی، ترکی سے نیچے جنوب اور جنوب مشرق میں اور ایران کے لوگ اوپر شمال کی جانب جاتے تھے۔ عراق اور شام کے علاقے ہی ان دونوں بڑی سلطنتوں کے درمیان میدان جنگ بنتے تھے۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ نو ہجری کو غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا تھا اور مسلمانوں کی فوج نبی محترم ﷺ کی قیادت میں تبوک گئی تھی۔ یہ مسلمانوں کی پہلی بین الاقوامی لڑائی تھی۔ اس کے بعد ہی ایران پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں نے بازنطینی سلطنت پر حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ بازنطینیوں نے حملہ کرنے میں پہل کی تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مدینہ منورہ میں ایک اسلامی ریاست اپنے قدم جما رہی ہے تو انہوں نے اسے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس لیے ہی غزوہ تبوک کا واقعہ بھی پیش آیا۔

تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ عرب کے غسانی خاندان (جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا) نے بھی قیصر روم کو مدینہ پر فوج کشی پر ابھارا تھا۔ اس کے علاوہ مدینہ میں موجود یہودی بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ وہ بھی کسی غیر ملکی طاقت کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہچانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے جنگ خندق کے موقع پر کفار مکہ کی مدد بھی کی تھی۔ اگر بازنطینی مدینہ پر حملہ آور ہوتے تو یقینی طور پر یہودی بھی ان کے لیے مددگار ثابت ہوتے۔ یاد رہے مدینہ سے تبوک کا فاصلہ چھ سو کلومیٹر سے زائد ہے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب یہ معلوم ہوا کہ بازنطینی افواج تبوک کی طرف سے حملہ کرنے کے لیے جمع ہو رہی ہیں، تو انہوں نے آگے بڑھ کر ان کا راستہ روکنے کا فیصلہ کیا۔ اس کام کے لیے مسلمان فوج شمال کی طرف روانہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تبوک میں بیس دن گزارے۔ لیکن بازنطینی فوج مقابلے پر نہیں آئی۔ اس سے یہ ہوا کہ بازنطینی سلطنت کا خوف مسلمانوں کے دل سے نکل گیا۔ یہ ایک طرح سے بازنطینی سلطنت کا مدینہ کی ریاست سے پہلا آمناس امنا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بازنطینی سلطنت کے زوال کا آغاز تھا۔

یرموک کی لڑائی بھی تاریخ میں ایک اہم لڑائی کے طور پر جانی جاتی ہے اور اس کے بعد بھی کئی جنگیں ہوئیں۔ پھر وہ دن آیا جب مسلمان فوج نے یروشلم کا محاصرہ کر لیا اور شہر میں موجود عیسائی، مسلمانوں کی فوجی طاقت دیکھ کر صلح پر آمادہ ہو گئے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا جس کا ذکر ضروری ہے۔

یروشلم کی فتح

عہد فاروقی میں خالد بن ولید ؓ اور ابوعبیدہ ابن الجراحؓ دو اہم ترین جرنیل مانے جاتے ہیں۔ ابوعبیدہ بن الجراحؓ ایک ماہر جنگی سپہ سالار تھے۔ آپ کی پرکشش شخصیت، سادہ اور پروقار زندگی کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ سے دوست تو کیا دشمن بھی بے حد متاثر تھے۔ ابوعبیدہ ابن الجراحؓ جنگ یرموک کے بھی فاتح ہیں جس میں ہرقل کو شکست ہوئی۔ آپ ہی کے ہاتھوں بیت المقدس بھی فتح ہوا۔ آپ نے بیت المقدس میں پہلی نماز وہاں پڑھی جہاں آج کل مسجد اقصیٰ ہے۔ آپ کی آخری جنگ حمص کی وہ خونریز جنگ ہے جس میں ہرقل نے شام واپس لینے کی جدوجہد کی لیکن ناکام ہوا اور اس کے بعد اس نے کبھی بھی شام کا رخ کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔

یروشلم تو فتح ہو گیا لیکن عیسائیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ان کی مقدس کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ شہر اس شخص کے حوالے کیا جائے جو مسلمانوں کا سب سے اہم فرد ہو۔ ان کی اس خواہش کے احترام میں حضرت عمرؓ ذاتی طور پر یروشلم آئے۔ تاریخ کی کتابوں سے یہ بھی ملتا ہے کہ کس طرح حضرت عمرؓ نے ایک ساتھی کی مدد سے بارہ سو سے زائد کلومیٹر کا فاصلہ باری باری اونٹ پر سوار ہو کر کیا تھا۔ یروشلم پہنچتے وقت اونٹ پر بیٹھنے کی باری ساتھی کی تھی۔ وہ اس شان سے یروشلم میں داخل ہوئے کہ ساتھی اونٹ پر سوار تھا اور آپؓ اونٹ کی نکیل پکڑ کر پیدل چل رہے تھے۔ یہ واقع 637 عیسوی کا ہے۔ اس کے بعد سے فلسطین کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔

مسلمان دسویں صدی عیسوی تک فلسطین پر حکمران رہے۔ اس دوران یہاں کئی مسلمان خاندانوں نے حکومت کی جن میں خلفائے راشدین، اموی حکمران، عباسی، فاطمی اور سلجوقیوں کے علاوہ بھی کئی لوگ شامل ہیں۔ اس دوران عیسائی اپنی طاقت جمع کرتے رہے اور یورپی علاقوں میں ان کی کئی مضبوط ریاستیں بھی معرض وجود میں آئیں۔ پھر ایک وقت آیا جب انہوں نے فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا اور 1099 میں پہلی صلیبی جنگ کے نتیجے میں یروشلم کا محاصرہ کر لیا۔

تاریخ میں اس حملے کی تفصیل ناقابل بیان سمجھی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ عیسائی فوجوں نے یروشلم کی فتح کے بعد تقریباً ساٹھ ہزار یہودیوں اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس جنگ میں یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر عیسائی فوج کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ صلیبی جنگوں کا سلسلہ تقریباً نوے سال تک چلتا رہا۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ 1187 میں سلطان صلاح الدین نے صلیبیوں کو شکست دی اور یروشلم سمیت تمام فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح کی خاص بات یہ تھی کہ صلاح الدین ایوبی نے ایک حکم جاری کیا جس میں یہودیوں کو یروشلم میں واپس آنے اور آباد ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ ایک تاریخی بات ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہودی فلسطین میں آباد ہیں۔

یاد رہے یہودیوں کو پہلے فارس کے سائرس نے ملک بدر کیا، پھر ایک مرتبہ روم کے بادشاہ نے انہیں دیس سے نکال دیا تھا۔ اس بار ایک مسلمان حکمران نے انہیں واپس آ کر آباد ہونے کی دعوت دی تھی۔ اس سے پہلے حضرت عمرؓ عیسائیوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کا معاہدہ کر چکے تھے لیکن جب عیسائیوں نے اسے فتح کیا تو ایسا خون خرابہ کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب جب یہودی، عیسائی حکمرانوں کی مدد سے فلسطین پر دوبارہ قابض ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمان فاتحین نے کیسا رویہ رکھا جبکہ یہودی اور عیسائی لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا۔

حضرت عمرؓ کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کے انگریزی ترجمہ۔
Source: https://ilmfeed.com/how-caliph-umar-treated-christians-under-his-rule/

The following is how Islam ’s second caliph – Umar ibn al-Khattab (May Allah be pleased with him) treated Christians after the conquest of Jerusalem.

”In the name of God, the Merciful, the Compassionate. This is the assurance of safety which the servant of God, Umar, the Commander of the Faithful, has given to the people of Jerusalem. He has given them an assurance of safety for themselves for their property, their churches, their crosses, the sick and healthy of the city and for all the rituals which belong to their religion. Their churches will not be inhabited by Muslims and will not be destroyed. Neither they, nor the land on which they stand, nor their cross, nor their property will be damaged. They will not be forcibly converted.

The people of Jerusalem must pay the taxes like the people of other cities and must expel the Byzantines and the robbers. Those of the people of Jerusalem who want to leave with the Byzantines, take their property and abandon their churches and crosses will be safe until they reach their place of refuge. The villagers may remain in the city if they wish but must pay taxes like the citizens. Those who wish may go with the Byzantines and those who wish may return to their families. Nothing is to be taken from them before their harvest is reaped.

If they pay their taxes according to their obligations, then the conditions laid out in this letter are under the covenant of God, are the responsibility of His Prophet, of the caliphs and of the faithful. ”Tareekh At-Tabari 2/449

اس سیریز کے دیگر حصےبنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز قسط نمبر 2یہودیوں کی فلسطین میں آمد – قسط 5

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments