حرکت میں برکت


ارتقاء کا عمل کسی بھی جاندار کو بقا کی جنگ کے لئے مضبوط بناتا ہے تاکہ وہ ماحول کا مقابلہ کر سکے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوئی پودا بھی اگر دھوپ یا جگہ نہ ہو تو اپنی شکل موڑ کر کسی نہ کسی طریقے سے دھوپ تک پہنچنے کے لئے اپنی بقا کو برقرار رکھتا ہے۔ ہمارے آبا و اجداد کی زندگی ساری بقا کی جنگ تھی۔ بھوک کے لئے شکار کرنا پڑتا اور ہر قسم کے خطرے سے بچنے کے لئے چوکنا رہنا پڑتا تھا۔ ہمارا سیدھا کھڑے ہو کر چلنا، معاشرتی زندگی اختیار کرنا یہ سب بقا کے لئے ضروری ہے۔

اگر ہزاروں سال قبل ان کو ہر دم بھاگنا پڑتا تھا تو ضروری ہے کہ ان کے عضلات مضبوط ہوتے ہوں گے، ان کی صحت اچھی ہوتی ہوگی اور مٹاپا کم ہوتا ہو گا۔ تو کیا ہردم کی بھاگ دوڑ ہماری ارتقا کا حصہ ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہمارے اجداد کو اگر بلا ضرورت محنت کرنی پڑتی تو اس کے بعد اسے بھاگ دوڑ کر کھانے کے لئے بندوبست بھی کرنا ہوتا ہو گا تاکہ جو توانائی خرچ ہو چکی تھی وہ واپس بدن میں پہنچ جائے۔ اس لئے غیر ضروری بھاگ دوڑ یعنی ورزش ارتقا کا حصہ کبھی نہیں رہا۔

آج اگر ہم اک میل پیدل چلتے ہیں تو کوک کی ایک گلاس وہ ساری توانائی دوبارہ جمع کر سکتی ہے۔ جب خوراک کم تھی تو بھاگ دوڑ کافی مہنگی پڑتی تھی۔ اسی لیے انسان بنیادی طور پر سہل پسند اور سست واقع ہوا ہے، الا ماشا اللہ کہ کوئی کھیل ہو یا بچوں کی بھاگ دوڑ ہو۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ ہم ورزش چھوڑ دیں؟ ہر گز نہیں۔ تاہم چونکہ ہماری فطرت میں سہل پسندی موجود ہے اس لئے کسی کو ورزش نہ کرنے پر القابات سے نوازنا بے جا ہے۔ ہاں البتہ ان کو ورزش کے فوائد ضرور سکھانے چاہئیں۔

دوسرا اہم پہلو نیند کا ہے۔ ہم سے پہلی نسلیں دس گھنٹے روزانہ سوتی تھیں۔ تاہم اس صنعتی دور میں اب ہمارے نیند آٹھ گھنٹے اوسط تک رہ گئی ہے۔ اب تک یہ مشہور تھا کہ کم از کم نیند آٹھ گھنٹے کی ہونی چاہیے۔ تاہم یہ کسی سائنسی تحقیق کا نتیجہ نہیں تھا۔ بلکہ مزدوروں کی بیداری کی تحریک سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے نعرہ لگایا تھا کہ آٹھ گھنٹے مزدوری، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے ذاتی کاموں کے لئے۔ تنزانیہ میں اب بھی ایک قبیلہ ہے جو غاروں میں رہنے والے آبا و اجداد کی طرح رہتے ہیں۔ ان پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ روزانہ اوسطاً ساڑھے چھ گھنٹے روزانہ سوتے ہیں۔ یعنی اگر ہم آٹھ گھنٹے سے کم سوتے ہیں تو اس میں قباحت نہیں۔ (کرونا کی وبا سے قبل میں کبھی چوبیس گھنٹے میں پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا) ۔

ہمارے اجداد اگر موٹاپے سے دور تھے تو اس کی بنیادی وجہ ان کا ہر وقت متحرک ہونا تھا۔ ہمارے جسم کو ہر ہر وقت توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ہم ویسے ہی بیٹھے رہیں تو بھی ہماری توانائی کا پچیس فیصد صرف دماغ کھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں سستی توانائی والے کھانے بسیار ہیں۔ اگر ہمارے اجداد کو دو میل چلنے کے بعد ایک خرگوش پکڑنا پڑتا تھا تو اب وہی توانائی ہم کوک کی ایک گلاس پی کر پوری کر سکتے ہیں۔ ہمارا لائف سٹائل ہمیں توانائی خرچ کرنے سے روکتی ہے۔

جبکہ ہمارا کھاجا پہلے سے زیادہ توانائی لئے ہوتا ہے۔ یہ توانائی بدن میں چربی کی شکل میں سٹور ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہماری بری صحت کا سبب بنتی ہے۔ اگر ہم یہ اضافی توانائی ورزش میں خرچ کریں تو چربی پگھل کر مسلز مضبوط بناتی ہے۔ یاد رہے کہ مسلز مخصوص ورزش کے بغیر کبھی نہیں بڑھتے۔ آپ کسی جسمانی محنت کرنے والے مزدور کے دونوں بازوؤں کی پیمائش کریں تو معلوم ہو گا کہ اگر وہ داہنا ہے یعنی دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے تو وہ بازو موٹائی میں زیادہ ہو گا۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ورزش اور زیادہ اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ تنزانیہ کے جنگلی قبائل اور امریکی باشندوں کی اوسط عمر میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کے لوگ عمر کا دوسرا آدھا حصہ مختلف قسم کی بیماریوں کے شکار رہتے ہیں جبکہ تنزانیہ کے متذکرہ لوگ آخری عمر تک فٹ رہتے ہیں۔ اور ان کی عمر کے آخری لمحے ہماری طرح بستر اور معذوری کا شکار نہیں ہوتے۔ بس وقت پورا ہوتا ہے اور مر جاتے ہیں۔

پلاسٹک سرجری کے آپریشن نہ صرف طویل ہوتے ہیں، بلکہ خوردبین یا طاقتور لینزز کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ جھک کے کام کر پڑتا ہے۔ اس سے دوسروں کی طرح میری گردن اور کمر میں جوڑوں کی تکلیف شروع ہو گئی۔ اتنی کہ میں گاڑی ریورس کرتے وقت پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اور رات کو سوتے وقت کمر کی درد کے لئے گولی لئے بغیر چارہ نہ تھا۔ تاہم جیم میں انسٹرکٹر کے کہنے پر میں نے گردن اور کمر کے مسلز کی ورزش شروع کی۔ جونہی وہ مسلز طاقت پکڑ گئے، میرے گردن اور کمر کا عذاب ختم ہوا۔ مقصد یہ کہ ورزش ہی مخصوص مسلز کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اس لئے بیشک آپ کام پر آٹھ گھنٹے کی جسمانی محنت کریں، آپ کے مسلز نہیں مضبوط ہوں گے۔

کئی لوگ محض چہل قدمی کو بھی ورزش سمجھتے ہیں۔ ارتقائی طور پر ہم نے چلنے میں توانائی کی بچت کے طریقے اپنا لئے ہیں۔ اس لئے اسے باقاعدہ ورزش نہ سمجھئے۔ اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ جاگنگ یا ٹریڈ مل پر چلنے سے گھٹنوں کے جوڑوں کی نرم ہڈی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی ہے۔ تاہم اگر آہستہ آہستہ رفتار اور فاصلہ بڑھایا جائے تو جوڑوں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ اس قسم کی ایک سٹڈی میں پچاس لوگوں کو لیا گیا جو روزانہ دوڑتے تھے۔ ان کو بیسیوں برس تک آزمایا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے جوڑوں کو بہت کم نقصان پہنچا تھا۔

ورزش کے ساتھ ساتھ کھانے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک اور ریسرچ میں معلوم ہوا کہ جو لوگ ڈائٹنگ سے اپنا وزن کم کرتے ہیں، ان میں سے آدھے کچھ ہی عرصہ بعد دوبارہ موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس تحریر کا ایک ہی پیغام ہے۔ جب تک زندگی ہے، متحرک رہئیے۔ یہ نہ صرف آپ کو معذوری سے بچائے گی بلکہ آپ کو زندگی کا لطف اٹھانے کے قابل بنائے گی۔ اس تیز تر دنیا میں اب خاندان کا ہر شخص مصروف ہو گیا ہے۔ اس لئے اپنے بچوں سے توقع نہ رکھئیے کہ وہ سب کام چھوڑ کر آپ کے سرہانے بیٹھیں گے۔ اولڈ ایج ہوم بھی نہیں ہیں۔ اس لئے معذوری سے بچے اور حرکت میں برکت پر یقین رکھئیے۔

یہ تحریر جزوی طور پر درج ذیل کتاب سے ماخوذ ہے۔

Exercised by Daniel E Lieberman


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments