ٹوپیوں والے حکمران سے عہد شغلیہ تک


اورنگزیب عالمگیر دین اور دنیا دونوں پر گہری نظر رکھنے والا بہت لائق اور متدین بادشاہ تھا۔ قرآن پاک کی خطاطی اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرنے کی داستانوں کے ذریعے اسے درویش بادشاہ کے روپ میں بھی پیش کیا گیا۔ اس نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی اور کسی بھائی کو زندہ نہ چھوڑا۔ یہ ضروری تھا، اس لئے کہ اس کے سب بھائی نالائق تھی جیسا کہ ہر بادشاہ کے ہوتے ہیں۔ نالائق نہ ہوں تو خود پہل کر کے بادشاہ کو قتل نہ کر دیں؟

اورنگزیب کی وفات کے بعد ہندوستان میں مغل خاندان کا زوال شروع ہوا اور آہستہ آہستہ بادشاہ کی ذات جو طاقت اور قوت کا سرچشمہ تھی، گھٹنا شروع ہوئی اور امراء کی سیاست میں وہ بالآخر کٹھ پتلی بن کر رہ گیا۔ اس کے ساتھ خود مغل امراء جو اب تک ایک جماعت کی حیثیت تھے، تقسیم ہو کر کئی گروپوں میں بٹ گئے اور اقتدار میں آنے کے لئے انہوں نے سازش اور گٹھ جوڑ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا جس میں خانہ جنگی اور تخت نشینی کے جھگڑے شامل تھے۔ ان میں سے جو گروپ بھی برسر اقتدار آ جاتا، اس کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرے اور اپنے مخالفین کو جس قد نقصان پہنچا سکے وہ پہنچا لے۔

اس پورے عمل میں معاشرہ کی اخلاقی قدریں اور روایات اس طرح سے پروان چڑھیں کہ ظاہری طور پر معاشرہ پرسکون دکھائی دیتا مگر اس کے اندر ہی اندر تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ اس دور کی ایک اور سب سے اہم خصوصیت منافقت تھی کہ امراء کے گروہوں میں دکھاوے کے طور پر وار کرنے کا رواج نہیں تھا بلکہ اس کے لئے ہمیشہ سازش کی جاتی اور خفیہ طریقوں سے ایک دوسرے کو زک پہنچائی جاتی۔ ہر گروپ کی یہ کوشش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی حمایت حاصل کرے، اس لئے ہر امیر اس مدد کے عوض جاگیر حاصل کرنا چاہتا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے پاس جو خالی جاگیریں تھیں وہ بہت جلد نئے امیروں میں تقسیم ہو گئیں لیکن امراء کی تعداد برابر بڑھتی رہی۔ اس عہد کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ امراء ظاہری شان و شوکت پر بہت زیادہ توجہ دیتے، کوشش کرتے کہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ اور شاندار خطابات اختیار کریں، مگر ان خطابات کے حامل ان اوصاف سے خالی ہوتے۔ اس لئے بہت جلد ان خطابات کی اہمیت جاتی رہی اور یہ بے معنی ہو کر رہ گئی، یہی حال منصبوں کا ہوا کہ جن کا عزت و احترام ختم ہو گیا۔

جب امراء کی سماجی حیثیت آہستہ آہستہ ختم ہو گئی اور لوگوں میں ان کی عزت نہیں رہی تو انہوں نے لوگوں سے تعلقات ختم کرلئے اور اپنی حویلیوں میں گوشہ نشین ہو گئے، وہ اس لئے باہر نہ نکلتے کہ ان کے پاس نہ تو ایسا لباس رہا کہ جس کے پہننے کے یہ عادی تھے، نہ سواری اور نہ خدام کی فوج جو ان کے ساتھ ساتھ چلا کرتی تھی۔ کیونکہ انہوں نے ملازمتیں اختیار کرنا اپنے سے کم تر جانا۔ اس لئے ان کی آمدنی کے ذرائع گھٹتے گئے یہاں تک کہ غربت اور مفلسی کے ہاتھوں تباہ حال ہو گئے۔

اٹھارہ سو ستاون کا ہنگامہ ان کے لئے موت ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد یہ معاشرہ سے غائب ہو کر عام لوگوں میں مل گئے۔ عہد مغلیہ کے آخری زمانہ میں جب بادشاہ اپنی سیاسی طاقت کھو بیٹھا اور اس کے مصاحبین سمیت اشرافیہ کے پاس دولت و اقتدار نہ رہا تو اس کے ساتھ ہی معاشرہ میں ان کا سماجی مقام اور مرتبہ بھی گر گیا۔ چنانچہ انہوں نے لوگوں سے اپنی عزت کرانے کے لئے مراعات اور آداب پر زور دینا شروع کر دیا۔ مغل بادشاہ جو انگریزوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گیا تھا، اپنی ظاہری آن بان اور شان برقرار رکھنے کے لئے اس بات پر اصرار کرتا کہ انگریز ریذیڈنٹ اسے تسلیم کرے اور کورنش بجا لائے لیکن اس کی یہ خواہش اس لئے بیکار ثابت ہوتی کہ اس کے پاس طاقت تھی نہ کوئی مضبوط حیثیت، اسی لئے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مراعات اور رعب و دبدبہ کم ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اس مرحلہ پر آ گیا کہ جہاں اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

مغل امراء کا بھی یہی حال تھا، جیسے جیسے ان کی سیاسی اور معاشی حالت بگڑ رہی تھی، اسی طرح وہ اپنے سماجی مرتبہ کے سلسلہ میں حساس ہوتے جا رہے تھے اور ادب آداب کے معاملہ میں زیادہ خیال رکھنے لگے تھے۔ اس کی دلچسپ مثال مرزا غالب کی ہے جنہوں نے کالج میں محض اس لیے ملازمت نہیں کی کہ پرنسپل ان کے استقبال کے لئے کیوں نہیں آیا۔ چنانچہ انہوں نے یہ گوارا کر لیا کہ وہ ملازمت نہ کریں، مہاجنوں سے سود پر قرضہ لیتے رہیں مگر اپنا سماجی مقام کم نہ ہونے دیں۔

انگریزی عہد میں مغل عہد کے امراء طاقت اور دولت کھونے کے بعد اپنے خاندانی فخر پر زندہ تھے اور اسی بنیاد پر لوگوں سے اپنی عزت کروانا چاہتے تھے۔ ان میں سے بعض تو اپنی غربت اور مفلسی کے باوجود نچلے طبقوں سے نفرت کرتے رہے اور ان کے ساتھ میل ملاپ کے لئے تیار نہ ہوئے۔ مغل بادشاہ اور امراء جس بات کونہ سمجھ سکے وہ یہ کہ جب وہ اپنے عوام کو بیرونی اور اندرونی خطرات سے محفوظ رکھ سکے اور نہ ہی ان کے جان و مال کو بچا سکے تو اس صورت میں لوگوں میں ان کی کوئی عزت نہیں رہی اور جب ان کا خاتمہ ہوا تو کسی کو ان کی موت کا افسوس تک نہ ہوا۔

کچھ اسی صورت حال سے ہمارا آج کل کا حکمران طبقہ اور امراء دوچار ہیں، ہر ایک کی کوشش ہے کہ بدعنوانیوں کے ذریعہ جس قدر دولت اکٹھی کی جا سکے وہ کرلی جائے اور اپنے مخالفین کو سازشوں کے ذریعہ نقصان پہنچایا جائے۔ دوسری طرف مغل امراء کی جماعتوں کی طرح اب ہر حکومت اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں پلاٹ دیے جائیں، بینکوں سے قرضے دلوائے جائیں اور ہر قسم کی مراعات دی جائیں۔ جس کے نتیجہ میں ملک میں خالی پلاٹوں اور زمینوں پر تیزی سے قبضہ ہو رہا ہے اور ذرائع گھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ہندوستان میں مغل بادشاہ اور امراء کے ساتھ کیا ہوا۔

بدقسمتی سے ان میں نہ تو ذہانت ہے نہ ایمانداری اور نہ ہی عمل و ادب سے ان کا واسطہ، اور اس پر ستم یہ کہ یہ لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی وہ محض اس لئے عزت کریں کہ ان کا سماجی مرتبہ بدعنوانیوں کے ذریعہ کمائی ہوئی دولت اور طاقت کی وجہ سے بلند ہے۔ یہ خود کو لوگوں سے علیحدہ کرتے ہوئے اپنے لئے وی آئی پی اور وی وی آئی پی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے چہرے مہرے، چال ڈھال اور ظاہری شکل سے یہ قطعی کوئی جدا مخلوق نظر نہیں آتے لیکن جب یہ مراعات طلب کرتے ہیں تو اس وقت ان کے سماجی مرتبہ کا پتہ چلتا ہے، اس طرح یہ اپنے ذہنی کھوکھلے پن اور اس کمتری کو مراعات کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ اس بات کا بڑا حیال رکھتے ہیں کہ کون انہیں سلام کرتا ہے اور کون ان کے آگے جھکتا ہے۔ ہم نے تاریخ کا انتقام مغل امراء کے ساتھ دیکھ لیا اور اب اس انتظار میں ہیں کہ یہی تاریخ پاکستان کے حکمران طبقوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، یعنی عہد مغلیہ سے عہد شغلیہ تک۔ انتظار فرمائیے، بس تھوڑا سا انتظار۔ مکافات عمل شروع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments