جن نکالنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟


’آ تیرے جن کڈھاں‘ کا محاورہ عمومی ثقافتی پس منظر میں شدید مار پیٹ سے متعلق ہے کہ ہمارے خطے میں جن نکالنے کا یہی موثر طریقہ کار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کیا جن نکالنے کا اس کے علاوہ بھی کوئی مناسب طریقہ کار ہو سکتا ہے؟

ایک دوست کا فون آیا کہ اُن کے خاندان میں ایک لڑکی ہے، جو کہ پی ایچ ڈی کر رہی ہے، اس کی کچھ ویڈیوز آپ کو بھیج رہا ہوں لیکن یہ ویڈیوز ذاتی نوعیت کی ہیں اور انہیں اپنے تک ہی رکھیے گا۔ کچھ دیر بعد واٹس ایپ پر ویڈیوز موصول ہوئیں، جن میں ایک لڑکی کی بری حالت ہے۔ خاندان کے لوگ اس کو قابو کیے ہوئے ہیں اور وہ لڑکی مردانہ صیغہ میں کلام کر رہی ہے، ”میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، میں تم کو تباہ کر دوں گا وغیرہ وغیرہ۔‘‘

لڑکی کے کانوں میں زبردستی ہینڈ فری لگائی ہوئی ہے اور خاندان کے لوگ اس کو سورہ یاسین سنوا رہے ہیں۔ لڑکی شدید اذیت میں ہے اور جیسے ہی ہینڈ فری لگا کر تلاوت سنوائی جاتی ہے، وہ اور زیادہ مزاحمت کرنے لگتی ہے، جس سے اس کی ماں یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ یہ جن یقیناﹰ غیر مسلم ہے اور اس کو تلاوت سننے سے اذیت ہو رہی ہے۔

اس لیے لڑکی کو طاقت کے ذریعے قابو کر کے تلاوت سنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ماں کی آواز مسلسل آ رہی ہے، ”تم معافی مانگو اور کہو کہ آئندہ ادھر نہیں آو گے۔‘‘ لڑکی تھوڑی دیر بعد کہتی ہے، ”میں نہیں آؤں گا، مجھے جانے دو۔‘‘

ماں کہتی ہے، ”تمہیں کس نے بھیجا ہے؟

تو لڑکی کا جن کہتا ہے، ”مجھے فلاں تمہاری رشتہ دار عورت نے بھیجا ہے۔‘‘

اس پر لڑکی کی ماں مثبت انداز میں سر ہلاتی ہے کہ جیسے پہلے سے ہی جانتی ہو کہ اس کمینی کے علاوہ ہو ہی کون سکتا ہے؟

یہ ویڈیو کے مختلف کلپس تھے، جن میں کم و بیش یہی سرگرمیاں تھیں۔ تھوڑی دیرکے بعد دوست کا فون آیا اور کہنے لگا، ”دیکھ لیے ہیں یہ ویڈیو کلپس؟ اب بتائیے آپ کا علم نفسیات کیا کہتا ہے؟ جن حقیقت ہیں یا نہیں؟ اب تو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، کیا اب بھی آپ انکار کریں گے؟ آپ کو مزید یہ بھی بتا دوں کہ لڑکی کے تمام میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے ہیں اور تمام رپورٹیں بالکل نارمل ہیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے بھی کہہ دیا ہے کہ یہ معاملہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کیا اب بھی آپ انکار کریں گے؟‘‘

میں نے دوست کو کہا کہ آپ ایک تعلیم یافتہ انسان ہے۔ آپ نے اس پورے واقعے سے، جو نتیجہ نکالا ہے، اس کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہیں لیکن کیونکہ آپ نے یہ ویڈیو کلپ مجھے بھیجے ہیں تو اب یہ معاملہ میرے علم میں آ چکا ہے اور میرے اوپر ایک اخلاقی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے کہ میں کسی بھی طرح اس مظلوم کی مدد کروں۔

 لیکن کیونکہ یہ آپ کے خاندان کا معاملہ ہے تو میں شاید براہ راست تو مدد نہیں کر سکتا لیکن کیا آپ مجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اس لڑکی کی مدد کرنے میں آپ میری مدد کریں گے؟ اگر آپ میری مدد نہیں کریں گے تو آپ ایک جرم کے مرتکب ہوں گے۔ جب تک یہ معاملہ میرے علم میں نہیں تھا، اس وقت تک یہ میری ذمہ داری کے دائرے سے باہر تھا لیکن اب جب کہ آپ نے یہ ویڈیوز مجھے دیکھا دی ہیں تو اگر یہ لڑکی ٹھیک نہیں ہوتی تو اس پر ہونے والے ظلم کا وبال ہم دونوں پر بھی ہو گا۔ اس طویل تقریر کے بعد دوست نے حامی بھر لی۔

میں نے دوست کو کہا کہ آپ کی سب سے پہلے ذمہ داری یہ ہے کہ اس لڑکی کو کسی پیر فقیر یا عامل وغیرہ کے پاس نہیں لے جانے دینا۔ دوسرا میں آپ کو اسلام آباد میں ایک نجی ہسپتال میں اپوائٹمنٹ لے کر دیتا ہوں اور آپ نے بروز ہفتہ اس لڑکی کو اُس ہسپتال میں لے کر جانا ہے، جہاں نیوروفیڈ بیک کی سہولت موجود ہے۔

 تیسرا یہ لڑکی بہت جلد صحت یاب ہو جائے گی تو اس کے گھر والوں کو سمجھا کر جلد از جلد لڑکی کی رضامندی سے شادی کروا دینی ہے۔ لیکن ان تینوں کاموں کا آپ نے مجھ سے وعدہ کرنا ہے کیونکہ اب اخلاقی ذمہ داری کا بوجھ ہم دونوں پر ہے۔

دوست نے وعدہ کر لیا لیکن متجسس ہو کر پوچھنے لگا کہ کیا اب بھی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جن نہیں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جی یقیناﹰ جن نہیں ہے۔

 تو پھر کیا ہے؟ دوست نے پوچھا!

میں نے کہا، ”دیکھیے! کسی بھی شدید نفسیاتی انتشار کی صورت میں کنورژن ڈس آرڈر کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ معاملہ ان تین صورتوں میں زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اگر مریض پہلے ہی کسی جسمانی عارضے میں مبتلا ہو یا ڈس ایسوسی ایٹو ڈس آرڈر کا شکار ہو یا اگر وہ کسی شخصیت کے عدم توازن یعنی کسی پرسنیلٹی ڈس آرڈر کا شکار ہو۔‘‘

کنورژن ڈس آرڈر عموماﹰ نوجوانوں میں اور ہمارے جیسے پسماندہ معاشروں میں زیادہ تر نوجوان لڑکیوں میں نمودار ہوتا ہے۔ شدید جذباتی دباؤ، جس کو کسی ذریعے سے باہر نکلنے کا موقع نہ ملے، تو مجتمع ہو کر ایسی علامات ظاہر کرتا ہے، جو مکمل طور پر حقیقی ہوتی ہیں۔

 مثال کے طور پر مریض اپنا بازو نہیں ہلا سکتا جبکہ بازو بالکل ٹھیک ہے۔ اگر آپ ہر طرح کی میڈیکل رپورٹیں بھی کروا لیں تو بھی ثابت ہو گا کہ بازو بالکل نارمل ہے۔ اس طرح کے مریض میں حیرت انگیز طاقت کا مظاہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ عارضہ موٹر یعنی حرکی نیورانز اور حسیات کو براہ راست متاثر کرتا ہے، جس سے عجیب و غریب علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو بالکل حقیقی ہوتی ہیں لیکن جسمانی معائنے میں وہ حقیقی نظر نہیں آئیں گی۔

 اس نفسیاتی عارضے میں جسمانی علامات بہت نمایاں ہوتی ہیں لیکن کسی طرح کی میڈیکل رپورٹوں میں اس کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ جب بھی تمام رپورٹیں نارمل ہوں لیکن جسمانی علامات نمایاں ہوں تو سمجھدار ڈاکٹر فوراﹰ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس مریض کو ماہر نفسیات کا پتہ بتایا جائے۔

بچہ ایک سراپا جذبات کا پیکر مخلوق ہے۔ آہستہ آہستہ ہم معاشرتی حدود اور تقاضوں سے اپنے جذبات کو قابو کر کے ہم آہنگ کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر معاشرتی روایات و تقاضے سرے سے غیر عقلی ہوں تو یہ دباؤ اندر ہی اندر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر اظہار کے تمام راستے مفقود ہوں تو طوفان کے آگے آپ کس قدر بند باندھ سکتے ہیں؟

 پیاس اور بھوک کے بعد جنس اہم ترین جسمانی و ذہنی تقاضا ہے جبکہ جنس پر بات کرنا ہی معاشرے میں ممنوع یا ٹیبو ہو تو وہا ں ایسے معاملات کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اور خواتین اس کا زیادہ شکار کیوں ہوتی ہیں اس کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

 جنس کے بارے میں خیال بھی اگر کسی فرد کو احساس جرم میں مبتلا کر دے تو اس کا دوش آپ غیر عقلی معاشرے کو دے سکتے ہیں لیکن جنسی خواہش کی صورت میں فطرت اپنا کام کرتی رہے گی۔ جنس کی تحریک کیونکہ ایک طاقتور تحریک ہوتی ہے، اس لیے اس کی مثال دی ہے لیکن مسلسل ناقابل برداشت ذہنی دباؤ، جس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، بھی اس عارضے کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک وقت آئے گا، جب یہ بند ٹوٹے گا اور جذبات سے متعلقہ قدیم طاقتور دماغ، ارتقائی عمل کے نتیجے میں بعد میں آنے والے نوزائیدہ دماغ کو شدید طور متاثر کر ے گا۔ موٹر اور سینسری کارٹیکس براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ مریض حیرت انگیز طاقت کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ مریض جسم کے کسی حصے کو حرکت دینے سے قاصر ہو جاتا ہے تو تصور کیا جاتا ہے شاید کوئی فالج کا حملہ ہے۔

مریض وقتی طور پر اندھا ہو سکتا ہے جبکہ آنکھیں بالکل ٹھیک کام کر رہی ہیں۔ قوت گویائی سلب ہو سکتی ہے۔ سونگھنے کی حس سے وقتی طور محروم ہو سکتا ہے۔ مریض مختلف نوعیت کی آوازیں سن سکتا ہے، جو کہ حقیقت میں یعنی ماحول سے نہ آ رہی ہوں بلکہ خود دماغ کی پیداوار ہوں۔

 مریض عجیب و غریب چیزیں دیکھ سکتا ہے اور اس کو ایسے ہی لگتا ہے، جیسے وہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے جبکہ اصل میں یہ شکلیں یا کردار اس کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ لاشعور کے وقتی غلبے کی صورت میں مریض عجیب و غریب باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بار بار جن کا ذکر سننے کی صورت میں وہ جن بن کر گفتگو کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تو ان تمام علامات کے بعد جب یہ طے ہو جاتا ہے کہ یہ کنورژن ڈس آرڈر ہے تو اس کا مکمل علاج علم نفسیات میں موجود ہے۔

قصہ مختصر کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس لڑکی کا کیا بنا؟ میں نے ایک ہفتے کے بعد فون کیا اور دوست سے پوچھا کہ آپ کو جو اپوائنٹمنٹ لے کر دی تھی تو کیا آپ لڑکی کو لے کر گئے تھے؟

فرمانے لگے، ”میں نے تو گھر والوں کو کہا تھا لیکن انہوں نے کہا تم اندھے ہو، نظر نہیں آ رہا کہ یہ جن ہے اور اس کلموہی نے کسی عامل کے ذریعے کروائے ہیں۔ ہم اس کو فلاں والے عامل کے پاس لے کر جا رہے ہیں، وہ کلام اور کرنٹ کے ذریعے علاج کرتا ہے اور اس کے بعد جن اسی کو چمٹ جاتا ہے، جس نے بذریعہ عامل یہ جن بھیجا ہوتا ہے۔‘‘

ویسے معلوم انسانی تاریخ میں جاہلیت سے قد آور جن کہیں دیکھا ہے آپ نے؟

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments