مخالف کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہوں


میرے سسرال والوں نے مجھے اور میرے کاموں کو کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ ہر کام میں مخالفت ان کی عادت ہے۔ بھئی سسرال والوں کا تو کام ہی مخالفت کرنا ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جو اپنے مخالف کو کبھی سکون سے جینے نہیں دیتی، جتنا بھی اچھا کام کر لو حرام ہے جو تعریف کے دو بول کہہ دیں۔ اور مجھ سے تو سمجھیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ میرے ہر اچھے کام میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نقص نکالنے کے عادی ہیں۔ سچی بات ہے میں ان کی باتوں کو دل پر نہیں لیتی۔ وہی کرتی ہوں جو میرا دل چاہتا ہے۔ اپنے مخالفوں کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہوں۔ سسرال والے لاکھ مجھے برا کہیں لیکن میرا شوہر تو میری تعریفیں کرتا نہیں تھکتا۔ وہ میری دانائی کا دل سے معترف ہے۔ اور سب کے سامنے اس کا اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ کیونکہ یہ میں ہی ہوں جو اس کے ہر دکھ درد کو سمجھتی ہوں، اس کا ساتھ دیتی ہوں۔ میرے شوہر کو جب بھی کبھی مالی مسائل کا سامنا ہوا، تو میں نے اس کا چٹکیوں میں حل نکالا۔
یہی دیکھ لیں میری نند کے گھر شادی تھی، اور مجال ہے میں نے شوہر کو پریشان ہونے دیا ہو۔ اس کے پاس صرف دو ہزار تھے اور مہنگائی کے اس دور میں جب ناک بھی اونچی رکھنی ہو تو دو ہزار روپے سے پوری شادی کا خرچہ تو نہیں نکل سکتا تھا۔ اڑتیس ہزار کے تو ہم ساری فیملی کےکپڑے بن رہے تھے، اور شادی بیاہ کے موقع پر دینا دلانا بھی تو تھا۔ بس اسی لیئے میں نے چالیس ہزار قرض لینے کا سوچا۔ جو کہ کوئی بڑی بات نہیں، کہ آخر بڑے بڑے کاموں کے لئے چھوٹے چھوٹے قرضے تو لینا ہی پڑتے ہیں۔ میں نے جب اپنے شوہر کو قرضہ ملنے کی خوشخبری سنائی تو خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے وہ فورا سجدے میں جا گرا، آخر قرضہ ملنے پر خدا کا شکر تو بنتا ہی ہے۔ قرض کتنا ہی ہو اس کو چکانے کے لیئے ہم نے کبھی فکر نہیں کیا۔ ہمارے چنٹو منٹو ہیں نا، جوان ہوکر خود ہی سارے قرض اتارلیں گے۔
آخر اسی لیئے تو انھیں پیدا کیا ہے۔ بھئی میں تو جس سے قرضہ لوں اس کو یقین دلاتی ہوں کہ میرے ساتھ وقت وفا کرے نہ کرے لیکن میری نسل یہ قرض ہر صورت اتارے گی۔ لیکن اگر قرض خواہ واپسی کے تقاضے پر تنگ کرنے لگے تو پھر کسی اور سے قرض لیکر رقم اس کے منہ پہ مارتی ہوں۔ ہمیں جب بھی کبھی مالی تنگی آئی ہم کبھی نہیں گھبرائے۔ یہی تیر بہدف نسخہ آزمایا جس میں اللہ کے فضل سے ہمیشہ کامیاب رہے۔ یوں کبھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اللہ سلامت رکھے قرض دینے والوں کو جو ہمیں وقت پر قرض دیتے ہیں۔ میں تو دن رات کے چھتیس گھنٹوں میں ان کے لیئے دعائیں کرتی ہوں کہ خدا ان کے رزق اور ہمارے بچوں میں برکت ڈالے۔ بھئی ان کے پاس ہوگا تو وہ ہمیں قرض دیں گے۔ اور ہمارے جتنے زیادہ بچے ہوں گے، اتنی جلدی مل کر یہ قرض اتار یں گے۔ لیکن ایسی باتیں میرے سسرال والوں کو کبھی سمجھ نہیں آنی، میں کسی سے قرض لوں تو ان کو موت پڑجاتی ہے۔ وہ بس باتیں ہی کرتے رہیں گے۔ کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ، بجٹ بناؤ اور اس کے مطابق چلو۔ بھلا بجٹ بنانے سے کیا ہوتا ہے۔ہماری حکومت بھی تو بجٹ ہی بناتی ہے، اور اس کے بعد پھر قرض مانگنے نکل پڑتی ہے۔ میں بنا بجٹ بنائے قرض مانگ لیتی ہوں۔ کہ جب مانگنا ہی ہے تو پھر بجٹ بنانے کا فائدہ۔
 بجٹ سے یاد آیا سنا ہے بجٹ کی پھر سے آمد آمد ہے۔ پہلے سال میں ایک بار بجٹ آتا تھا،لیکن دیکھو تو کیسی ہوا چلی ہے، اب تو بار بار آنے لگاہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اب تبدیلی آ چکی ہے، بھئی تبدیلی کے نام پر گھبرا کیوں گئے، تبدیلی پوری دنیا میں آئی ہے۔ دیکھا نہیں کیا حالات ہیں۔ شاید اسی لیئے دوبارہ سے بجٹ آنے لگا ہے۔ ہر سال بجٹ آتا ہے جسے مخالف پارٹی ہمیشہ خسارہ بجٹ کہتی ہے۔ سچی بات ہے عوام کے لیئے کوئی بھی بجٹ خسارہ ہوتا ہے نہ بہترین۔ وہ صرف حیرت کا سمندر ہوتا ہے جس میں عوام غوطے لگاتی ہے۔ ہر بجٹ میں عام آدمی کے لیئے ہمیشہ مسائل اور حکمرانوں کے لیئے وسائل ہوتے ہیں۔جن کا دونوں بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ بجٹ کیا ہوتا ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کے لیئے تو بجٹ لمبے چوڑے اعدادو شمار ہوتے ہیں، جس کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ سچ پوچھیئے تو میرے جیسے اربوں کھربوں کی رقم سن کر ہی باؤلے ہوئے جاتے ہیں اور سوچتے ہیں ہم کتنے امیر ہیں۔ اربوں کھربوں کا حساب بار بار ہو تو مطلب شاید ہم زیادہ امیر ہوگئے ہیں۔ لیکن سرکاری خزانہ تو غریب کی جیب کی طرح ہمیشہ خالی ہوتا ہے۔ دونوں مانگ تانگ کر گذارہ کرتے ہیں، اللہ اور  آنے والی نسلوں کے آسرے پہ چلتے ہیں۔ غریب تو کبھی نہیں بناتا پھر پتہ نہیں سرکار بجٹ کیوں بنا لیتی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments