امریکہ کا چکر: روانگی کی دیوانگی


ہوا یوں کہ حکومت آپا نے جو ایک امریکی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں، دعوت دی کہ ہم ان کی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کریں۔ ان کی دعوت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دعوت قبول کرنی ہے یا فساد۔ دعوت کو جزوی طور پر قبول کر لیا گیا یعنی برخوردار خان اور خانم کو بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ ہم نے اپنے ویزے کے لیے اپلائی ہی نہیں کیا۔ خیر کرنا پڑ گیا۔ اور یوں یوں تین ہفتے کے لیے جانے کی تیاری شروع ہوئی۔ ہمارا اصول ہے کہ ملک سے باہر جانے سے پہلے حجامت یہیں بنوا لیتے ہیں۔ تجربہ کہتا ہے کہ غیر ملکی نائی بال کے علاوہ کھال بھی اتار لیتے ہیں۔

اب بال کٹوانا ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے۔ ہمارے خاندان کے بچے ایک ایسے نائی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں جو بارہ پندرہ سو روپے میں بال کاٹتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محلے کے نائی جو دو تین سو روپے میں بال کاٹتے ہیں، وہ احتیاط سے حجامت نہیں کرتے۔ بظاہر وہ درست کہتے ہیں کیونکہ جب وہ بال کٹوا کر آتے ہیں تو وہ اتنی زیادہ احتیاط سے کٹے ہوتے ہیں کہ بچے سے تصدیق کرنا پڑتی ہے کہ بال کٹوا لیے ہیں نا؟ دیکھنے سے بالکل اندازہ نہیں ہو پاتا۔

خیر ہم پرانے خیال کے لوگ ہیں۔ حجامت بنوائیں تو ایسی بنواتے ہیں کہ دنیا کو پتہ چلے۔ اسی لیے محلے کے نائی کا رخ کیا۔ وہاں نیا لڑکا تھا جس نے پچھلی مرتبہ بہت اچھے بال کاٹے تھے۔ اس مرتبہ اس نے زیادہ ہی اچھے کاٹ دیے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس مرتبہ ایک کی بجائے دو مہینے نکل جائیں گے۔ خیر صبر شکر کیا۔ ویسے بھی اس کے علاوہ دوسری آپشن فل ٹنڈ کروانے کی رہ گئی تھی تاکہ کامل یکسوئی ہو جائے لیکن یہ آپشن بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے مسترد کر دی گئی۔

اس کے بعد ٹکٹ کا مرحلہ تھا۔ گزشتہ چند برس سے دسمبر اور جنوری لاہور کی فضا کو اتنا پراسرار بنا دیتے ہیں کہ یہاں آنے والے جہازوں کو علم ہی نہیں ہو پاتا کہ ائرپورٹ ہے کہاں۔ وہ بچارے ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اور گھنٹوں بھٹکنے کے بعد تنگ آ کر اسلام آباد یا کراچی اتر جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ دھند میں پرواز کرنے کا نظام لاہور ائرپورٹ پر کئی برس قبل نصب کر دیا گیا تھا مگر اس کی ٹیسٹنگ کرنے سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کترا رہی ہے۔

ساڑھے سات بجے کی فلائٹ محض دس گھنٹے کی تاخیر سے لاہور سے روانہ ہوئی۔ اگلی کنیکٹنگ فلائٹ استنبول سے سات گھنٹے بعد تھی۔ یوں وہاں دو تین دن قیام کا قدرت کی طرف سے بندوبست ہو گیا۔ اب ایک معمولی سا مسئلہ درپیش تھا۔ گریجویشن کی تقریب میں محض ایک دن باقی تھا۔ حکومت آپا نے بھاگ دوڑ کر کے ہمارے لیے ڈیلاس کی بجائے ہوسٹن کے ٹکٹ کا بندوبست کر دیا جو استنبول میں ایک دن قیام کے بعد مل جاتی۔ اگر ائرپورٹ پر قیام کا وقفہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ ہو تو ایاٹا قوانین کے مطابق ائرلائن مسافر کے قیام طعام کا بندوبست کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ مگر اب زمانہ خراب ہے تو ائرلائن اپنی مرضی سے چلتی ہے۔ ترک ائرلائن نے فیصلہ سنایا کہ اگر قیام 12 گھنٹے سے زیادہ ہو تو ہوٹل دیں گے۔ ہمارا قیام تیرہ گھنٹے کا تھا۔ وہ ہوٹل دینے کو راضی ہو گئے اور کہا کہ ترک ائرلائن کا ہوٹل کاؤنٹر ہے، وہاں پہنچ جائیں تو ہوٹل مل جائے گا۔

استنبول کا نیا ائرپورٹ بنا ہے۔ یہاں پہلی مرتبہ آنا ہوا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ نہایت وسیع و عریض ہے۔ اس کا اندازہ ترک ائر لائن کا ہوٹل کاؤنٹر تلاش کرتے ہوئے ہوا۔ جس سے پوچھتے وہ بتاتا کہ اس راہداری کے آخر تک جائیں اور وہاں سے دائیں یا بائیں ہو جائیں۔ ترکوں نے ائرپورٹ تو بہت بڑا بنایا ہے مگر انفارمیشن ڈیسک بنانا بھول گئے ہیں۔ اس لیے چلتے چلتے جب تھک جاتے تو کسی وردی والے سے پوچھتے کہ بھیا یہ ترک ائر لائن کا ہوٹل ڈیسک ہے کہاں۔ وہ وہی نسخہ بتاتا کہ اس راہداری کے آخر میں دائیں بائیں ہو جائیں۔ کامل ایک گھنٹے سامان کو گھسیٹنے کے بعد ایک انفارمیشن ڈیسک ملا تو اس نے نشاندہی کی کہ فلاں جگہ پاسپورٹ کنٹرول ہے، اس سے نکلیں تو ائرپورٹ کے باہر ہوٹل ڈیسک مل جائے گا۔

پاسپورٹ ڈیسک پہنچے۔ وہاں جا کر علم ہوا کہ ویسے تو ترک پاکستانیوں کے بھائی ہیں، اور یہ دو ملک اور ایک قوم ہیں، مگر ہوٹل لینا ہے تو پاکستانی پاسپورٹ پر نہیں ملے گا کیونکہ ویزا درکار ہے اور آن ارائیول ویزا پاکستانی پاسپورٹ پر نہیں ملتا۔ ہاں ای ویزا مل سکتا ہے۔ واپس پلٹے۔ ایک جگہ انٹرنیٹ ڈھونڈا۔ وہاں ہمارا پاکستانی کریڈٹ کارڈ چلنے سے انکاری ہو گیا جو دنیا بھر کی ویب سائٹس پر چلتا ہے۔ فون پر امریکہ سے کارڈ کا بندوبست کرنے کی کوشش کی۔ سو دقت اٹھا کر بہت سے ڈالر دیے اور ای ویزا لیا۔ پھر پاسپورٹ کنٹرول پہنچے۔ اہلکار کو بتایا کہ ای ویزا لے لیا ہے تو اس نے ویزا دیکھے بغیر ہی باہر جانے کی اجازت دے دی۔ بندہ پوچھے کہ اتنا بڑا ائرپورٹ بنا دیا ہے تو ٹرانزٹ مسافروں کے لیے ائرپورٹ کے اندر ہی ہوٹل بنا دیتے، کیوں خوار کرتے ہو؟ خیر ہماری خواری کر کے ترک حکومت نے قریباً دو سو ڈالر کما لیے۔ دل خوش ہوا کہ پاکستانی سرکاری محکموں کی رسم وہاں بھی جاری و ساری ہے جہاں شہری کو خوب خوار کیا جائے تو وہ راضی خوشی ہدیہ دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

اب ہم پاسپورٹ کنٹرول سے باہر پہنچے تو ایک وسیع علاقہ پھر سامنے تھا اور انفارمیشن ڈیسک ندارد۔ اہلکاروں سے پوچھنا شروع کیا۔ وہی راہداری کے آخر سے دائیں یا بائیں کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا جاتا۔ آخر کار ایک نیک بی بی ملی، اس نے کہا کہ راہداری کے آخر میں سیڑھیاں چڑھو تو دوسری منزل پر ٹرانزٹ ہوٹل وہاں مل جائے گا۔ وہاں پہنچے تو دوسری منزل پر جانے کا راستہ تو نہ ملا مگر انفارمیشن ڈیسک مل گیا۔ وہاں بیٹھی بی بی نے بتایا کہ جس طرف سے آپ پندرہ منٹ چل کر آئے ہیں الٹے پاؤں وہیں واپس پلٹیں اور پندرہ منٹ مزید چل کر راہداری کے آخر میں دائیں طرف ترک ائرلائن کا ہوٹل کاؤنٹر پائیں۔ واقعی وہاں تھا۔

ہوٹل مل گیا۔ بتایا گیا کہ سامنے بیٹھ کر انتظار کریں تو کچھ دیر میں بس آپ کو ہوٹل لے جائے گی۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ ہم نے منصوبے باندھنے شروع کر دیے کہ صبح دس بجے تک ہوٹل میں ٹھہر سکتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر استنبول کی کچھ سیر کریں گے اور وہیں کسی ریڑھی سے گرما گرم ترک ناشتہ کریں گے۔ بس آئی۔ ہم بیٹھے۔ اور بس چلنا شروع ہو گئی۔ لق دق ویرانہ۔ لمبی سڑک۔ سفر ختم ہونے کا امکان ہی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گھبرا کر گوگل میپ کھولا تو علم ہوا کہ ائرپورٹ استنبول سے بہت باہر بنا ہوا تھا اور بس استنبول سے مزید دور لے جا رہی ہے۔ آدھا گھنٹہ گزرا۔ پونا گزرا۔ خانم نے خدشات ظاہر کرنے شروع کر دیے کہ شاید ہم ترک بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں اور اب ہمیں اغوا کر کے تاوان لیا جائے گا۔ لیکن ایک گھنٹے بعد بس ایک ویرانے میں موجود ہوٹل کے سامنے رک گئی۔

مزید ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد کمرہ بھی مل گیا۔ یوں استنبول ائرپورٹ پر اترنے کے سات آٹھ گھنٹے بعد ہم کسی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اب سوال رات کے کھانے کا تھا جو اصولاً ائرلائن کی ذمہ داری تھا مگر ائرلائن نے بتایا کہ وہ بہت ہی مہربان ہوئے تو ناشتہ دے دیں گے، باقی کوئی امید مت رکھیں۔ ہوٹل کے ریسپشن نے بتایا کہ 24 گھنٹے روم سروس موجود ہے اور اس کا یہ نمبر ہے۔ کمرے میں پہنچتے ہی روم سروس کال کی اور پوچھا ”ڈو یو ہیو اینی تھنگ ٹو ایٹ؟“ آگے سے جواب ملا ”وٹ؟“ یاد آیا کہ ہم ترکی میں ہیں جہاں انگریزی سمجھنے کا رواج نہیں۔ خوش قسمتی سے کسی زمانے میں ترکی سیکھی تھی۔ اس کا کچھ زنگ ائرپورٹ پر ہی جھاڑ دیا تھا تو وہی آزمائی۔

ایکمک وار ما؟ کھانا ہے؟
آہ۔ فوڈ۔ ۔ ۔ وی ہیو فوڈ۔
واٹ ڈو یو ہیو؟
وی ہیو چکن بورگر۔ اینڈ ۔ ۔ ۔اینڈ ۔ ۔ ۔ اینڈ ۔ ۔ ۔
اوکے۔ پلیز سینڈ تھری چکن برگرز ٹو روم نمبر 123۔
واٹ؟
دوبارہ ترکی پر منتقل ہوتے ہوئے فرمایا ”اوچ چکن بورگر لطفاً“ ۔
”تمام“ ، یعنی اچھا۔ جواب ملا۔

اس کے دس منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی۔ ایک نیا بندہ تھا جو پوچھ رہا تھا کہ ہم نے کیا آرڈر دیا۔ اسے بھی اوچ چکن بورگر لانے کا کہا۔ دس منٹ مزید گزرنے پر تیسرے بندے سے بھی یہی بات ہوئی۔ خیر اس کے پندرہ منٹ بعد اوچ چکن بورگر آ گئے۔ ویٹر محترم ساتھ کارڈ مشین بھی لائے تھے۔ اس میں کارڈ ٹھونسا تو علم ہوا کہ انہیں مشین چلانی نہیں آتی۔ اب انہیں علم نہیں تھا کہ انہوں نے پیسے چارج کر لیے ہیں یا نہیں۔ وہ واپس پلٹے کہ کسی ماہر سے پوچھیں۔ ماہر صاحب نے دو گھنٹے بعد ہمیں سوتے سے جگایا اور کہا کہ اپنے فون پر دیکھیں کہ پیمنٹ کا میسیج آیا ہے یا نہیں۔

اب قسمت ایسی تھی کہ فون وارد کا ہے جو اب جاز نے خرید لی ہے۔ متواتر تین دن اس سے کال سینٹر پر رابطہ نہیں ہوا اور فرنچائز جانے کا وقت نہیں ملا۔ کال سینٹر کے نمبر سے ایک بی بی دس منٹ تک ہمیں بتاتی کہ اگر آپ کا بیلنس نہیں اور آؤٹ گوئنگ بند ہو گئی ہے تو جاز آپ کو دس روپے کا بیلنس دے دے گا۔ بندہ پوچھے کہ کیا آپ کے سسٹم کو پتہ نہیں کہ جاز کے بیلنس میں ہزاروں روپے پڑے ہیں جو آپ بیلنس نہ ہونے کا رو رہی ہیں۔ دس منٹ انتظار کرنے کے بعد کال ٹرانسفر کی گھنٹی بجتی اور پھر دوبارہ وہی بیلنس بی بی نازل ہو جاتی۔ ساتھ ساتھ کومپنی بتاتی بھی کہ آپ اتنے اچھے کسٹمر ہیں کہ آپ کو گولڈ نمبر سے سپورٹ دی جا رہی ہے۔ ٹویٹر سپورٹ پر جاز سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کال سینٹر پر کال کریں۔ آخر کار اس معصوم کو جہنم میں جانے کا مشورہ دیا تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ کہنے لگا کہ پلیز آپ خوش اخلاقی سے بات کریں۔ اسے دوبارہ جہنم میں جانے کا مشورہ دے دیا۔ جاز کی سپورٹ پر ایمیل کی کہ عالمی رومنگ آن کریں۔ مزید تین دن ایمیلیں کیں۔ ترکی پہنچنے تک رومنگ آن نہیں ہوئی تھی اس لیے میسیج آنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ ویسے یہ پی ٹی اے والوں نے کیا کبھی موبائل کمپنیوں سے پوچھا ہے کہ صارف کال سینٹر کو کال کرے تو کسی ایجنٹ سے بات کرنے کے لیے کتنا انتظار کرنا پڑتا ہے اور بات ہوتی بھی ہے یا نہیں؟

خیر ہوٹل کے معصوم عملے کو کہا کہ خود اپنے بینک سے پوچھو ٹرانزیکشن ہوئی ہے یا نہیں۔ صبح سویرے ان کا فون آیا کہ نہیں ہوئی۔ ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے، بل بتا دو کیش دے دیتے ہیں۔ کتنا بنا؟ جواب ملا ٹویلو ہنڈرڈ لیرا۔ چودہ طبق روشن ہوئے کہ بارہ لیرا کا ایک ڈالر ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم سو ڈالر کے تین چکن بورگر کھا گئے ہیں؟ لیکن پھر یاد آیا کہ ہم سرزمین ترکی پر ہیں۔ ان سے ترکی زبان میں پوچھا کتنے ڈالر بنے؟ بولے دس ڈالر۔ دس ڈالر دیے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

بہترین ناشتہ کیا۔ ائرپورٹ پہنچے۔ جہاز میں بیٹھے اور تیرہ گھنٹے بعد بخیر و عافیت ہوسٹن اترنے میں کامیاب ہو گئے۔ بندہ پانچ چھے گھنٹے سے زیادہ طویل پرواز سے گھبراتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ آنے سے بھی انکاری تھا۔ لاہور ائرپورٹ پر دس گھنٹے کا انتظار ملا کر ہم کوئی پچاس گھنٹے میں امریکہ پہنچے۔

ترک ائرلائن کا معیار اب بہت گر چکا ہے۔ عالمی پروازوں پر مسافروں کو بے تحاشا کھلایا پلایا جاتا ہے۔ مگر چھے گھنٹے کی لاہور استنبول فلائٹ اور پھر چودہ گھنٹے کی استنبول ہوسٹن فلائٹ میں ایک مرتبہ کھانا دیا گیا تھا اور ایک مرتبہ ایک ننھا سا سینڈوچ جس میں دو توسوں کے درمیان پنیر کا ایک ٹکڑا دبا ہوا تھا۔ ہاں ہوسٹن کی فلائٹ میں بندہ خود کچن جا کر جتنے مرضی سینڈوچ کھا لے اس کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ بس ائر ہوسٹس کو بلانا منع تھا کیونکہ طلب کرنے کا بٹن دبانے پر بھی وہ نہیں آتی تھی۔ لاہور سے استنبول کے جہاز کی حالت ایسی تھی کہ کئی مرتبہ ارادہ ہوا کہ کھڑکی سے سر باہر نکال کر دیکھ لوں کہ جہاز پر وڑائچ طیارہ تو نہیں لکھا ہوا۔ سیٹیں اپنی مرضی سے آگے پیچھے ہوتی تھیں۔ ائرکنڈیشننگ فین کا وجود ہی نہیں تھا۔ ہیڈ فون کا صرف ایک کان چلتا تھا۔ ٹچ سکرین کو خوب دبانے پر ہی وہ تعاون پر آمادہ ہوتی تھی۔

سوچا کہ شاید برادر پاکستانیوں کو یہ خصوصی سروس دی جا رہی ہو گی۔ استنبول سے امریکہ کا جہاز شاید نارمل ہو۔ واقعی کچھ بہتر تھا۔ اس کی ٹچ سکرین ہلکا سا اشارہ کرنے پر ہی مان جاتی تھی۔ بس ایک مسئلہ تھا۔ بیشتر سکرینوں کی یو ایس بی پورٹ کام نہیں کرتی تھی۔ یعنی فون چارجنگ کا کوئی وسیلہ نہیں۔ اور لیپ ٹاپ بھی اتنا ہی استعمال کرنا ممکن تھا جتنا آپ کی بیٹری میں چارج ہے۔ ایک امریکی بابا تو اتنا سیخ پا ہوا کہ خروج پر ہی تیار ہو گیا۔ جہاز کا عملہ جو باقی مسافروں کے بلانے پر بھی نہیں آتا تھا، اس بابے کی شعلہ بار انگریزی سن کر ایسا نروس ہوا کہ پانچ چھے بندے بیک وقت اسے ٹھنڈا کرنے پر مامور ہوئے۔ کوئی دس مختلف سیٹیں بدل کر بالآخر ایک ایسی سیٹ مل گئی جس کی یو ایس بی پورٹ چلتی تھی تو آدھے پونے گھنٹے بعد بابے کو قرار آیا اور ہنگامہ فرو ہوا۔

 

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےامریکہ کا چکر: کچھ حال یونیورسٹی کا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments