جرمنی میں پاکستانیوں کے دھتکارے ہوئے بچے


وہ انیس برس کی ترک لڑکی تھی۔ بچہ پیدا ہو چکا تھا اور اس کے والدین میرے دوست کے پاس آئے بیٹھے تھے کہ رضوان سے کہو کہ ہم سے رابطہ کرے، ہم خود سارے انتظامات کریں گے اور اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کر دیں گے۔

کہانی کچھ یوں تھی کہ رضوان (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) ڈنکی لگا کر یورپ پہنچا تھا اور اس کے پاس رہائشی کاغذات نہیں تھے۔ کاغذات یا جرمن پاسپورٹ حاصل کرنے کا آخری یا سب سے آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی جرمن پاسپورٹ ہولڈر خاتون سے شادی کر لی جائے۔

وہ ترک لڑکی فی الحال شادی کے لیے تیار نہیں تھی۔ عمر چھوٹی تھی، ابھی ابھی سکول ختم ہوا تھا۔ کبھی کبھار چھپ چھپا کر گھر میں پکنے والے کھانے بھی رضوان کے لیے لے آتی تھی کہ وہ تنہا ہے، اسے خود پکانا نہیں پڑے گا۔ دوسری جانب رضوان کی سب سے پہلی کوشش یہی تھی کہ اس لڑکی کو حاملہ کیا جائے تاکہ شادی کی راہ ہموار ہو اور اسے کاغذات مل سکیں۔

لیکن ہوا یوں کہ رضوان نے پرتگال میں بھی کاغذات جمع کروا رکھے تھے۔ اس ساری کہانی کا ترک لڑکی کے گھر والوں کو علم نہیں تھا۔ لڑکی چھ ماہ کی حاملہ تھی تو رضوان کے پرتگال کے کاغذات بن گئے۔ اس نے اس ترک لڑکی کو بھی نہ بتایا اور چپ چاپ اپنے والدین کو ملنے واپس پاکستان چلا گیا۔

رضوان میرے دوست تنویر سے رابطے میں تھا، دونوں ایک ساتھ جرمنی پہنچے تھے اور اسی وجہ سے اس ترک لڑکی کے ماں باپ میرے دوست کے پاس آئے تھے۔ تنویر نے ترک لڑکی کے والدین کو حوصلہ دیا کہ اس کی رضوان سے بات ہوئی ہے، اسے پاکستان میں ضروری کام نمٹانا ہیں اور وہ ضرور واپس آئے گا۔

تنویر ایک مرتبہ اس ترک لڑکی سے خود بھی ملنے گیا تھا۔ اس لڑکی کے آنسو رکتے ہی نہیں تھے کہ رضوان نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ وہ تو محبت کے دعوے کرتا نہیں تھکتا تھا اور انتہائی مشکل وقت میں وہ اُسے تنہا چھوڑ گیا تھا۔

اس لڑکی نے بھی تنویر کو یہی پیغام دیا کہ رضوان کو بتاؤ کہ یہ تمہاری اولاد ہے اور وہ اکیلی اسے نہیں سنبھال سکتی، وہ ابھی سے تھک چکی ہے۔ گھر والے الگ باتیں سناتے ہیں اور اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کرے تو کیا کرے؟

میں نے دو چار ہفتوں بعد دوبارہ تنویر سے پوچھا کہ رضوان واپس آیا کہ نہیں۔ تنویر کا یہی جواب تھا کہ وہ کہتا ہے کہ گھریلو مجبوریاں ہیں اور اسے مزید کچھ ماہ پاکستان میں لگ سکتے ہیں۔

تنویر کا تعلق میرے آبائی گاؤں پھمہ سرا سے تھا، زمیندار گھرانہ تھا لیکن یہاں تین تین ملازمتیں اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا۔ ایک دن اس نے واپس فلیٹ میں جانے کے بجائے اور وقت بچانے کے لیےگاڑی میں ہی ہیٹر آن کیا اور سو گیا۔ اگلی صبح پتا چلا کہ گاڑی میں گیس جمع ہونے کی وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ تنویر کی وفات کے بعد مجھے کبھی علم نہ ہو سکا کہ رضوان واپس آیا بھی تھا یا نہیں۔ اس ترک لڑکی اور اس کے بچے کا پھر کیا بنا؟

اسی طرح میں جس فلیٹ میں جرمن اسٹوڈنٹس کے ساتھ رہتا تھا، ان میں ایک مارسیل بھی تھا۔ مارسیل کی گرل فرینڈ دوسرے شہر میں رہتی تھی اور اکثر ویک اینڈز پر ہمارے فلیٹ پر آ جاتی تھی۔ دونوں ویک اینڈ وہاں گزارتے اور پھر سوموار کی صبح وہ واپس چلی جاتی۔ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے یہاں بون میں ”رائن اِن کلچر” کے نام سے سالانہ میوزک فیسٹیول ہوتا تھا۔ ہر سال جرمنی کے بڑے بڑے بینڈ اور راک اسٹار یہاں آتے تھے۔ اس دو روزہ فیسٹیول میں شرکت کے لیے نوجوان لڑکے لڑکیاں پہلے سے ہی بون آنا شروع ہو جاتے تھے۔

ایک مرتبہ اسی فیسٹیول میں شریک ہونے کے لیے مارسیل کی گرل فرینڈ کی پانچ چھ سہیلیاں بھی اس کے ساتھ آئیں اور انہوں نے بھی ہمارے فلیٹ میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ مارسیل نے مجھ سے گزارش کی کہ دو چار لوگوں کو تم اپنے کمرے میں سونے کی اجازت دے دو، باقی سارے کمرے بھر چکے ہیں۔ اصل میں اس دن ہارالڈ اور فلوریان کی دوست لڑکیاں لڑکے بھی ہمارے پاس ہی ٹھہری ہوئی تھیں۔

مارسیل کی گرل فرینڈ کی سہیلیوں میں سے ایک سبزی مائل آنکھوں والی لڑکی بھی تھی، جس نے اپنے سر کے  بال سرخ رنگے ہوئے تھے۔ ناک میں ایک موٹی سی نتھلی تھی اور اس نے کپڑے چمکیلے چمڑے پہنے ہوئے تھے۔

اس نے میرا تعارف سنتے ہی کہا کہ اس کا والد بھی ایک پاکستانی ہے لیکن اسے علم نہیں ہے کہ وہ اب کہاں رہتا ہے؟

میرا سوال تھا، ”تمہیں کیوں پتا نہیں کہ تمہارا والد کہاں رہتا ہے؟

اس کا جواب تھا، ”میں چھوٹی سی تھی۔ میرے والد کی میری والدہ سے لڑائی ہوئی اور پھر وہ کبھی پلٹ کر نہیں آیا۔ ہمارے پاس اس کا ایک رابطہ نمبر تھا۔ میں نے اس نمبر پرکئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن اس نمبر سے کوئی جواب ملتا ہی نہیں۔

وہ لڑکی بئیر بھی پی رہی تھی، دیوانہ وار قہقہے بھی لگا رہی تھی، اپنے والد کو گالیاں بھی دے رہی تھی لیکن نم آنکھوں سے اس خواہش کا اظہار بھی کر رہی تھی کہ وہ اپنے والد سے ایک مرتبہ ملنا چاہتی ہے، اسے دیکھنا چاہتی ہے۔

وہ لڑکی دو راتیں ہمارے فلیٹ پر رکی لیکن اس کے بعد میرا اس سے کبھی رابطہ نہیں ہو سکا۔ میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ شاید وہ اب بھی بئیر کی بوتل لے کر بیٹھتی ہو تو اسی طرح اپنے ‘گمشدہ پاکستانی باپ’ کو گالیاں دیتی ہو اور ساتھ ہی ساتھ نم آلود آنکھوں سے اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار بھی کرتی ہو!

اسی طرح بون یونیورسٹی میں پہلے ہی ہفتے میری ملاقات مارٹن سے بھی ہوئی تھی۔ بہت معصوم سا چہرہ تھا اور وہ ہیری پوٹر جیسی گول شیشوں والی عینک لگاتا تھا۔ اس کا مجھ سے پہلا تعارف ہی کچھ یوں تھا، ”میں مارٹن ہوں اور میں انڈین ہوں۔” اس کا والد ایک انڈین تھا، جو اس کو اور اس کی والدہ کو چھوڑ کر دوسری بیوی بھارت سے لایا تھا اور اب انہی کے ساتھ رہتا تھا۔

میں نے یونیورسٹی میں چار سال مارٹن کے ساتھ گزارے۔ یقین کیجیے، اس کا یہ دکھ ختم نہیں ہوتا تھا کہ اس کا والد نہ تو اس کے میسجز کا کوئی جواب دیتا تھا اور نہ ہی ملنے آتا تھا۔ مارٹن اپنی ‘شناخت کے بحران’ کا شکار ہو چکا تھا۔  میرا سال میں کبھی کبھار اب بھی مارٹن سے رابطہ ہو جاتا ہے۔ اس کی اب بھی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ وہ ہندی سیکھے اور اپنے والد کے ساتھ کچھ وقت گزارے۔

بالکل مارٹن کی کہانی سے ملتی جلتی کہانی ایک پاکستانی نژاد لڑکی کی بھی ہے۔ وہ اپنی والدہ کی طرف سے بھی دکھی تھی۔ لڑکی کی والدہ بچپن میں ہی اسے اس کے پاکستانی باپ کے پاس چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ باپ نے دوسری شادی پاکستان میں کی اور نئی بیوی کو بھی جرمنی لے آیا۔ پاکستان سے آنے والی سوتیلی والدہ نے اس لڑکی کو نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سوتیلی والدہ کے ہاں اپنی اولاد ہوئی، تو یہ تشدد مزید بڑھ گیا۔

ایک دن اس لڑکی نے تمام حالات اپنی ٹیچر کو بتائے۔ ایک دو مہینے تک حالات کا جائزہ لینے کے بعد لڑکی کو بچوں کی فلاح و بہبود کے محکمے کے ساتھ مل کر کسی دوسرے شہر منتقل کر دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن وہ لڑکی پھر کبھی اپنے والد اور سوتیلی ماں سے مل نہیں پائی۔ اپنے والد کو پھر بھی وہ اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہے لیکن اپنی سوتیلی ماں کا نام سنتے ہی کانپنا شروع کر دیتی ہے۔

ایسی درجنوں کہانیاں جرمنی میں بکھری پڑی ہیںم جن میں پاکستانیوں نے شادیاں تو کر لیں لیکن پھر وہ اپنی اولاد کو قبول نہ کر پائے۔ شروع سے ہی مقصد یہ تھا کہ اصل شادی تو پاکستان میں ہی کرنی ہے، یہ تو بس کاغذات کے لیے کی جانے والی شادی ہے۔

میں نے پاکستان میں بھی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہاں شادی کر لو، بعد میں ‘انگریز عورت’ کو چھوڑ دینا، اس سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟

لیکن یقین جانیے، فرق پڑتا ہے۔ اس اولاد کو فرق پڑتا ہے، جو ساری عمر اپنے والد کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہے۔ ان لڑکے لڑکیوں کو فرق پڑتا ہے،جن کی شناخت گم ہو جاتی ہے،جن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا مذہب کون سا ہے، خاندان کون سا ہے، وہ خود کو پاکستان سے جوڑیں یا پھر جرمنی سے؟ بعض اوقات حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ والد اور بچے مشترکہ خواہش کے باوجود مل نہیں پاتے یا ایک ساتھ رہ نہیں سکتے۔

بعض اوقات فرق ان جرمن خواتین کو بھی پڑتا ہے، جو ”سچی محبت” پر یقین کر بیٹھتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک مرتبہ مجھے جرمنی اور ہالینڈ کے درمیان سرحدی علاقے فیئرسن میں ایک بزرگ خاتون ملی تھیں۔ بات چیت کے آغاز میں ہی انہوں نے بتایا تھا کہ وہ آج تک اپنے پاکستانی شہر گجرات سے تعلق رکھنے والے شوہر کو بھول نہیں پائیں۔ میں کوئی پندرہ منٹ تک ان کے پاس بیٹھا رہا تھا اور اس بزرگ خاتون نے اپنے پاکستانی شوہر کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ وہ کتنا اچھا تھا۔

پھر خود ہی کہنے لگیں کہ انہیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ وہ انہیں اچانک چھوڑ کر چلا کیوں گیا تھا؟ آخر کیوں وہ اچانک ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تھا؟

میرا دل کیا کہ میں انہیں بتاؤں کہ اُسے مستقل رہائشی ویزا مل گیا ہو گا، اس کی محبت آپ سے نہیں آپ کے پاسپورٹ سے تھی۔ میں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ پاسپورٹ کے لیے شادی کرنے والوں کے ذہن میں ایک چیز ہمیشہ چُھپی رہتی ہے کہ وہ پاکستان سے کسی ‘باکرہ’ لڑکی کو بیاہ کر لائیں گے، جو ان کی دین دار اولاد کو جنم دے سکے۔

لیکن میں تب خاموش ہی رہا تھا، میں اس بزرگ خاتون کی یادوں میں کوئی تلخی گھولنا نہیں چاہتا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments