مارکس ازم میں تشدد کا مقام


\"\"مارکس ازم انیسویں اور بیسویں صدی میں دنیا کی عظیم ترین انقلابی تحریک تھی۔ آج بھی کروڑوں انسان مارکس ازم کو دنیا میں تبدیلی کی امید سمجھتے ہیں۔ مارکس ازم کو مساوات، خوشحالی، امن اور آزادی کی تحریک سمجھا جاتا ہے۔ تاہم تاریخی طور پر اشتراکیت کی تاریخ میں تشدد، جبر اور قتل و غارت کے بدنما ابواب شامل ہیں۔

مارکس ازم کے حامی کہتے ہیں کہ اشتراکیت ایک انسان دوست فلسفہ ہے۔ تاہم اس کے کچھ رہنماؤں سے تعبیر اور تشریح کی غلطی ہوئی جس کے باعث معاملات قابو سے باہر ہوتے چلے گئے۔ دوسری طرف مارکس ازم کے مخالفین کا موقف ہے کہ اشتراکیت کا فلسفیہ واضح طور پر تشدد اور قتل و غارت کے راستے کی تلقین کرتا ہے .

آئیے امن۔ عدم تشدد اور ردوادای کے حوالے سے مارکس ازم کے عظیم اساتذہ کے افکار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس جستجو کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ تشدد مارکس ازم کے بنیادی آصولوں میں شامل ہے یا تاریخی حادثات کے نتیجے میں تشدد نادانستہ طور پر مارکس ازم کا حصہ بنا؟

نومبر 1848ء میں \”ویانا میں رد انقلاب کی فتح\” کے عنوان سے کارل مارکس نے لکھا

\”پرانی دنیا کو اس کے تکلیف دہ عالم نزع سے نجات دلانے اور نئی دنیا کی پیدائش کے عمل کو مختصر، سادہ اور جامع بنانے کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ راستہ ہے انقلابی دہشت گردی کا۔۔۔\”

ایک انٹرویو میں مارکس سے پوچھا گیا کہ کیا اشتراکیت کے حامی اپنے اصولوں کو آگے بڑھانے کے لئے قتل و غارت اور تشدد پر یقین رکھتے ہیں؟

مارکس کا جواب سادہ تھا\"\"

\”کوئی عظیم تحریک خون خرابے سے خالی نہیں ہوتی۔ امریکہ کی آزادی خونی جنگ کے نتیجے میں ہوئی۔ نیپولین نے تشدد کے ذریعے فرانس پر قبضہ کیا۔ اور نیپولین کو تشدد کے ذریعے ہی اقتدار سے ہٹایا گیا۔ اٹلی، انگلینڈ، جرمنی، ہر قوم کی تاریخ میں تشدد موجود رہا ہے ۔۔۔ اور مجھے یہ کہنے کی شاید ضرورت ہی نہیں کہ تشدد کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔\”

1849 ء میں فریڈرک اینگلز نے لکھا

\”اگلی عالمی جنگ کے نتیجے میں نا صرف رجعت پسند طبقے اور بادشاہتوں کا نام و نشان کرہ ارض سے مٹا دیا جائے گا بلکہ رجعت پسند قوموں کو بھی نیست و نابود کر دی اجائے گا۔ یہ (قتل و غارت) مستقبل کی طرف ایک اہم قدم ہو گا\”

1917 میں لینن نے کہا، \”ریاست جبر کا ہتھیار ہے۔ ہم مزدوروں کے مفاد  میں تشدد کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔۔۔\”

 1920 میں لینن نے کہا \”ایک اچھے کمیونسٹ کارکن کو چیکا کا ایک اچھا کارکن بھی ہونا چاہیے۔۔۔\” (چیکا Cheka  سوویت یونین میں سیاسی تشدد کے لئے قائم کیا جانے والا خفیہ ادارہ تھا۔ یہی ادارہ بعد ازاں این کے وی ڈی NKVD اور پھر کے جی بی KGB  کے نام سے جانا گیا)

چیکا کے سربراہ دژیزنسکی  نے 1918 میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا

\”عوام اور صحافی ہمارے ادارے کے کردار اور اہداف کو درست طور پر نہیں سمجھ رہے۔  ہم منظم دہشت قائم کرنا چاہتے ہیں جو کہ موجودہ انقلابی حالات میں بالکل ناگزیر ہے۔ اس بات کو واضح طور پر بیان کرنا چاہیے۔\”

ٹراٹسکی نے 1940 میں سٹالن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا

\”معاملہ کوئی بھی ہو، سٹالن کا خیال ہوتا ہے کہ تشدد کے ذریعے مسئلہ حل کرنا سادہ ترین حکمت عملی ہونی چاہیے۔\”

چیئرمین ماؤ نے طبقہ اور طبقاتی جدوجہد کے عنوان سے لکھا\"\"

\”انقلاب ڈنر پارٹی نہیں ہوتا۔  انقلاب برپا کرنا کوئی مضمون لکھنا نہیں ہوتا یا مصوری کرنے جیسا نہیں، انقلاب لانا کشیدہ کاری کرنا نہیں کہ تکیئے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، وضع داریاں ہو رہی ہیں، ادب آداب سے کام لیا جا رہا ہے۔ انقلاب مہربان نہیں ہوتا۔ اس میں تحمل، ضبط ، شرافت اور فراخدلی کو دخل نہیں ہوتا۔ انقلاب ایک بغاوت ہے جس میں ایک طبقہ دوسرے طبقے کا دھڑن تختہ کرتا ہے۔\”

فیدل کاسترو نے کیوبا کے انقلاب کی دوسری سالگرہ کے موقع پر ایک تقریر میں کہا تھا

\”انقلاب پھولوں کی سیج نہیں ہوتا۔ انقلاب پرانی اور نئی دنیاؤں کے درمیان زندگی اور موت کی لڑائی ہے۔\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments