لاہور محبت ہے


کتنا ہی اچھا ہو اگر سال کے اختتام کے ساتھ ہی ہمارا بھی اختتام ہو جائے۔

کبھی کبھی مجھے زندگی سے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب زندگی کی مہربانیاں خاموش ہو جائیں۔ ایسے لمحات میں۔ زندگی مجھے بادشاہی کے تخت سے اتار کر غلامی کی ڈور تھما دیتی ہے اور پھر میں حسرت بھری نگاہوں سے بادشاہی پر رشک کرتی ہوں اور پھر اس فقیری کا درد میری زندگی میں لہو کی مانند رقص کرتا رہتا ہے۔

بہار کا موسم بھی میرے لیے خزاں بن جاتا ہے اور دن کے اجالے میں بھی میں رات کی تاریکی سے باہر نہیں نکل پاتی۔

یہ اتوار کا دن تھا اور میں پرانی انارکلی بیٹھی ہوئی تھی اس دن سورج کی دھوپ مجھے ایسی لگ رہی تھی جیسے برسوں کے بعد کسی بچھڑے کو۔ اپنے پیارے ملے ہوں۔ اس لمحے دھوپ انتہائی کڑک تھی لیکن مجھے تو مہربان لگی تھی۔ بالکل اپنی محبت کی طرح لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے بھی آنکھ مچولی کھیلنا شروع کر دی۔

میں سڑک کے کنارے بیٹھی اس دن کی مہربانیاں دیکھ رہی تھی۔ میرے ارد گرد سڑک کے اس پار اور اس پار کتابیں فروخت کرنے والے اپنی روزی کا اڈا لگائے بیٹھے تھے یہ چھٹی کا دن تھا لہذا میں نے یہاں ہی بیٹھنے کا سوچا۔ میرے قریب سے بہت بار بس گزری کیوں کہ میں بس اسٹاپ کے قریب ہی تھی۔ اور سامنے ہی پرانی انارکلی کا باب تھا جہاں سے ہر تھوڑی دیر بعد لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو ملتا۔ لڑکیوں کا لباس دیکھ کر تو یوں لگتا تھا جیسے ہم لاہور میں نہ ہوں بلکہ یورپ کے کسی ترقی یافتہ شہر میں ہوں لونگ کوٹ اور جینز اور رنگ برنگے شوز۔ اور اس کے ساتھ ہی لڑکوں کے ملبوسات بھی اپنی مثال آپ تھے۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا ہے ہی یہاں
چھٹی کا دن اس طرح منایا جا رہا تھا جیسے باغ میں بہار آئی ہو یا پھر صدیوں کے بعد لوگ آزاد ہوئے ہوں
یا پھر کسی پرندے کو رہائی ملی ہو
یا پھر یہ وہ لوگ تھے جو کہیں بھی جاتے اپنے اندر کی خوشیاں بھی ساتھ لے کر جاتے۔
انسان کے جو اندر ہوتا انسان وہ ہی ساتھ لے کر چلتا ہے۔
آپ دیکھیں گے اگر آپ کے اندر منفی سوچ ہے
آپ منفی سوچ کے ساتھ ہی دنیا فتح کریں گے
اور اگر آپ میں مثبت سوچ ہے آپ مثبت سوچ کے ساتھ ہی دنیا فتح کریں گے
اس ہی طرح اگر آپ میں محبت ہے آپ کی محبت آپ کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے

اور اگر آپ کے اندر نفرت ہے تو آپ کی نفرت آپ کا کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی بلکہ آپ کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے

اس طرح میرے اندر احساس رہتا ہے میں بھی احساس کے ساتھ ساتھ زندگی کا سفر کرتی ہوں دنیا فتح کرتی ہوں۔
اس وقت مجھے چلتی پھرتی دنیا دیکھ کر احساس ہو رہا تھا دنیا چلتی رہتی ہے۔

لونگ کوٹ جیسے ملبوسات پہننے والے لوگ لاہور مال روڈ کی زینت ہیں کسی لکھنے والے کے الفاظ تھے اس ملک کا مستقبل کیسا ہو گا جہاں کتابیں سڑک پر اور جوتے شیشے کی دکانوں سے ملیں۔

مجھے اس وقت کتابوں پر بہت ترس آ رہا تھا میرا دل چاہ رہا تھا ساری کی ساری کتابیں اٹھاؤں اور ان کو اپنے گھر لے آؤں لیکن جب اپنی جیب کی طرف دیکھا تو دو سے تین کتابیں ہی گھر لا سکی اور باقی کتابوں سے معذرت کی۔

اور اب تو یہ سڑک اتوار کے روز کتابوں سے منسوب ہو چکی ہیں یہاں صدیوں پہلے ہمارے بہت سے بزرگوں نے اپنی لائبریری تعمیر کی۔ اس سڑک پر اتوار کے روز کتابوں کا ہونا بہت اہم سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کا ہجوم بھی ایسے ہوتا ہے جیسے ”کتابیں سانس لینے سے زیادہ اہم ہے“

لیکن افسوس یہ ہجوم دس فیصد کتابوں کے پاس اور 90
فیصد پرانی انارکلی فوڈ سٹریٹ میں نظر آتا ہے۔
اور یہاں سے ہر وہ کتاب بھی مل جاتی ہے جو بڑی سے بڑی جگہ سے بھی نہیں ملتی۔
مجھے ہمیشہ نئی کتاب خرید کر پڑھنے کا شوق تھا لیکن اس روز میں نے بھی کافی پرانی کتابیں خرید لی تھی۔

میں نے اپنا سامان شیرو کے پاس رکھوایا اور کتابیں ڈھونڈنے نکل گئی کچھ پہلی نظر میں ہی دیکھ لیں اور کچھ کتابیں تو ایسے ملیں جیسے میں نہیں وہ مجھے صدیوں سے تلاش کر رہی تھی

چلتے چلتے میں کتاب بازار کے دوسرے کونے سے جا ملی جہاں پہنچتے ہی میرے اور پاک ٹی ہاؤس میں فاصلے ختم ہو گئے تھے اور سامنے لکڑی کا دروازہ اور پرانی عمارت دیکھ کر میں کہیں کھو سی گئی تھی

ایک دم سے میرے لبوں نے فیض صاحب کی غزل گنگنانے کی جرات کی
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
بہت دیر تلک میں یوں محسوس کرتی رہی جیسے سعادت حسن منٹو کی روح یہاں کہیں میرے آس پاس ہی۔

مجھے اس جگہ سے پروین شاکر کی خوشبو بھی آ رہی تھی اور ہر وہ ادیب جس کی تصویر پاک ٹی ہاؤس کی دیواروں پر نظر آتی ہے۔ واپسی کے قدم بڑھاتے ہی مجھے ایسا لگا یہ پرانی عمارت مجھے پکار رہی ہو

آج جانے کی ضد نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
ہائے مر جائیں گے، ہم تو لٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمہیں
جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہو تم
تم کو اپنی قسم جان جاں
بات اتنی مری مان لو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
وقت کی قید میں زندگی ہے مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
ان کو کھو کر مری جان جاں
عمر بھر نا ترستے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
کتنا معصوم رنگین ہے یہ سماں
حسن اور عشق کی آج معراج ہے
کل کی کس کو خبر جان جاں
روک لو آج کی رات کو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو

لیکن میں پھر بھی فیض صاحب کے نسخہ وفا کا سہارا لیا اور شیرو کی جانب روانہ ہو گئی یہ سفر جتنا چھوٹا تھا دیکھنے میں۔

میرے لیے پار کرنا اتنا ہی طویل تھا۔
یہ اتوار کی صبح تھی۔
کتابوں کا بازار تھا۔
دسمبر کے آخری ایام تھے۔
سردیوں کی دھوپ تھی۔
نئے سال کا انتظار تھا۔
میرے کچھ ان کہے درد تھے۔
میری کچھ یادیں تھی۔
ایک کپ چائے تھی اور ڈھیر سارے درد تھے۔
بس اور تو کچھ نہیں بس۔
گہرا درد تھا۔
اور سرد ہوا چلنے لگی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments