دستور ساز اسمبلی توڑ دینے پر سیاسی اور صحافتی ردعمل بڑا مایوس کن تھا۔ بیشتر سیاسی لیڈر تو منقار زیرلب ہی رہے۔ حسین شہید سہروردی جو ملک

سے باہر قیام پذیر تھے، ان کا جناب زیڈ اے سلہری یہ بیان پہلے ہی لے آئے تھے کہ دستور ساز اسمبلی عوام کا اعتماد کھو بیٹھی ہے، اسے فوراً تحلیل کر دیا جائے۔ 24 ؍اکتوبر کی رات ایمرجنسی کا اعلان ہوتے ہی مسلح دستے کراچی میں گشت کرنے لگے اور دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیزالدین خاں کی رہائش گاہ پولیس نے تحویل میں لے لی۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سول سوسائٹی کی طرف سے مولانا ظفر احمد انصاری جو سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ایک انتہائی قابل اعتماد ہم سفر تھے، انہوں نے امید کا چراغ روشن کیا اور اپنے گھر پر چند قریبی دوست مدعو کیے۔

ان میں امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد، مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری منظر عالم، کراچی کی معزز سماجی شخصیت ڈاکٹر حبیب الرحمٰن الٰہی علوی (صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کے والد بزرگوار) اور کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر شامل تھے۔ لاہور سے قیم جماعت اسلامی میاں طفیل محمد مولانا انصاری کی دعوت پر کراچی پہنچے تھے۔

اس وفد نے بڑی رازداری سے مولوی تمیزالدین سے ملاقات کی۔ وہ انتہائی دل شکستہ اور بہت سہمے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک طرح سے حراست میں ہیں۔ وفد نے کہا کہ آپ ہمت سے کام لیں، پوری قوم آپ کا ساتھ دے گی۔ ہم سیاسی جماعتوں، وکلا برادری اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میاں طفیل محمد نے مقدمے پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے دس ہزار روپے ان کی خدمت میں پیش کیے جو وہ اپنے عزیز سے لے کر آئے تھے۔ ان دنوں ایک تولہ سونے کی قیمت ایک سو روپے تھی۔

مولوی تمیزالدین گورنر جنرل کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق برقع پہن کر گھر سے نکلے اور رکشے میں بیٹھ کر سندھ چیف کورٹ پہنچے۔ عدالت کے احاطے میں نوجوان وکیل سید شریف الدین پیرزادہ نے ان کا استقبال کیا اور انہیں سیدھا ڈپٹی رجسٹرار کے کمرے میں لے گئے۔ انہوں نے رٹ پٹیشن چیف جسٹس کی خدمت میں پیش کی جس پر فوری سماعت کے احکام صادر ہوئے۔ چند روزہ سماعت کے بعد سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے اقدام کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے دستور ساز اسمبلی بحال کر دی۔

اس فیصلے کے خلاف حکومت نے وفاقی عدالت میں اپیل دائر کر دی۔ گورنر جنرل پہلے ہی ایک سازش کے ذریعے جونیئر جج محمد منیر کو اس کا چیف جسٹس لگا چکے تھے۔ اب انہیں اس احسان کا بدلہ چکانا تھا۔ فیڈرل کورٹ میں چیف جسٹس کے علاوہ چار جج کام کر رہے تھے۔ ان میں جسٹس شہاب الدین غیرمعمولی اہمیت کے حامل تھے جو جسٹس اکرم اور جسٹس کارنیلئیس پر اثرانداز ہو کر چیف کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرنے کی اہلیت رکھتے تھے، چنانچہ چیف جسٹس نے انہیں بینچ سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔

اس بار بھی گورنر جنرل نے وہی ڈرامہ رچایا جو جسٹس اے ایس اکرم کو چیف جسٹس کے منصب سے دستبردار کر دینے کے لیے کھیلا تھا۔ جسٹس شہاب الدین ملاقات کے لیے بلائے گئے اور ان سے کہا گیا کہ وسیع تر قومی مفاد میں آپ کو مشرقی بنگال کا گورنر لگانا اشد ضروری ہے۔ وہاں جگتو فرنٹ نے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور آپ جیسا غیر جانب دار اور دیانت دار شخص ہی امن قائم کر سکتا ہے۔ جسٹس شہاب بار بار یہی کہتے رہے کہ مجھے سیاسی اور انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں، مگر گورنر جنرل نے اپنی بات پر اس قدر اصرار کیا کہ انہیں یہ پیشکش قبول کرنا پڑی اور وہ بینچ سے آؤٹ ہو گئے۔ ان کی جگہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس اے رحمٰن ایڈہاک جج کے طور پر تعینات کیے گئے جو لامحالہ چیف جسٹس کی رائے سے اختلاف نہیں کر سکتے تھے۔

اس اہم ترین مقدمے کی روزانہ سماعت ہوئی اور چیف جسٹس نے فیصلہ رقم کیا جس سے تین جج صاحبان نے اتفاق کیا، البتہ فاضل جسٹس اے آر کارنیلئیس نے انتہائی مضبوط دلائل سے اس ٹیکنیکل گراؤنڈ کی آئینی اور قانونی حیثیت مکمل طور پر منہدم کر دی جس کی بنیاد پر فیڈرل کورٹ نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ 21 مارچ 1955 کے اس عدالتی فیصلے میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ملکی پارلیمنٹ کا منظور کردہ کوئی بھی بل، جب تک اسے گورنر جنرل کی منظوری حاصل نہ ہو، قانون کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتا۔ دستور ساز اسمبلی نے اپنے 20 ستمبر 1954 کے اجلاس میں 1935 کے ایکٹ میں ترمیم کر کے اعلیٰ عدالتوں کو مختلف نوعیتوں کی رٹ جاری کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اس ترمیم پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ چیف کورٹ نے بلا اختیار رٹ جاری کی تھی۔

اعلیٰ ترین عدالت کا یہ پہلا فیصلہ تھا جس میں عدالتی بدنیتی بڑی واضح تھی۔ اس نے عدلیہ کے اعتبار اور وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور فوجی ٹیک اوور کا راستہ ہموار کیا۔ بعد ازاں نظریۂ ضرورت ایجاد ہوا جس نے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیے رکھا۔ اس فیصلے کی زد میں پانچ درجن کے لگ بھگ قوانین آئے۔ ان میں وہ انڈمنٹی ایکٹ بھی شامل تھا جس میں مارشل لا کے تحت دی ہوئی سزاؤں کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی حق اور انصاف کی آواز بلند کرنے کے ’جرم‘ میں عمرقید کی سزا بھگت رہے تھے، لیکن وہ 26 مہینوں کے اندر ہی رہا ہو گئے۔ غیرجمہوری اور دین بیزار طاقتوں نے انہیں طویل مدت کے لیے جیل میں رکھنے کے لیے جو تدبیریں کی تھیں، وہ الٹی ہوتی گئیں۔ رہائی کے بعد سید صاحب نے 1956 کے دستور کو بنیادی انسانی حقوق اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے میں زبردست عوامی جدوجہد کی۔ ملک غلام محمد نے اپنی پسند کے افراد پر مشتمل دستوری کنونشن کے انعقاد کے تمام بندوبست کر لیے تھے، لیکن اسی فیڈرل کورٹ کو یہ حکم صادر کرنا پڑا کہ ایک نئی دستور ساز اسمبلی منتخب کی جائے۔ اس نومنتخب دستور ساز اسمبلی کو آئین کی تدوین کا شرف حاصل ہوا، جبکہ گورنر جنرل غلام محمد ایک انتہائی عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ اللہ رب العزت نے شر سے خیر برآمد کیا اور مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دیا تھا۔