طلاق مسئلہ نہیں، خوش آئند مستقبل کی طرف پہلا قدم ہے


\"\"آئے روز ایسے تبصرے اور تجزیے پڑھنے اور سننے میں آتے ہیں، جن میں یہ رونا رویا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے کیونکہ طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی ہے اور طلاق یافتہ خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا واقعی طلاق ہونا یا طلاق کا دیا جانا ایسا ہی سنگین معاشرتی مسئلہ ہے جیسا کہ باور کروایا جاتا ہے؟

اس پر بحث سے پیشتر ایک چیز جس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی وہ یہ ہے کہ طلاق تو میاں بیوی دونوں کے درمیان ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ خواتین ہی کیوں ہوتی ہیں، یہ ان کے بالمقابل طلاق یافتہ مرد کیوں نہیں ہوتے؟ طلاق کا دھبہ صرف عورت کے ماتھے پر کلنک کیوں بنتا ہے؟

طلاقیں بڑھتی جا رہی ہیں، یہ شور تو بہت کیا جاتا ہے لیکن اس کی وجوہات پر آج تک کوئی سنجیدہ گفتگو پڑھنے کو یا سننے کو نہیں ملی، ہاں اس بنی بنائی بغیر سوچی سمجھی سوچ کی جگالی ہر جگہ ضرور نظر آتی ہے۔ طلاق کی سب سے بڑی وجہ وہ بے جوڑ شادیاں ہیں جن میں دونوں فریقین کی جانب سے لڑکا لڑکی کی باہمی ذہنی ہم آہنگی کے علاوہ باقی سب کچھ مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ شادی کی شاہانہ رسومات، لڑکی کا بھاری بھرکم جہیز اور لڑکے کا بینک بیلنس بھلا کسی شادی کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ ایسے میں جب بات چھوٹے موٹے اختلافات سے ہوتی ہوئی طلاق تک پہنچتی ہے تو اس پر الگ معاشرتی پریشر کہ جیسے تیسے گزارا کرو لیکن طلاق نہیں ہونی چائیے۔ لڑکی کئی دفعہ سسرال سے مار کھا کر ماں باپ کی طرف پہنچتی ہے اور ہر دفعہ \”آئیندہ ایسا نہیں ہو گا\” یا \”اب وہی تیرا گھر ہے\” کے جذباتی ڈائیلاگز کے سہارے نئے امتحان دینے واپس سسرال پہنچ جاتی ہے کیونکہ طلاق کو ایسا کلنک بنا دیا گیا ہے جو عورت کی ساری زندگی کو برباد کرتا ہے اور اس بلیک میلنگ میں زندگیوں کی زندگیاں دونوں طرف سے برباد ہوتی ہیں۔

اس سب کے باوجود کہیں طلاق تک نوبت آتی ہے تو اس پر یہ چیخ و پکار کہ بڑھتی طلاقیں مسئلہ ہیں، صرف خود کو دھوکہ دینا ہے۔ مسئلہ بڑھتی طلاقیں نہیں بلکہ وہ فرسودہ خاندانی روایات ہیں جو آج بُری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ جن میں زور زبردستی اور مجبور ہو کر ساتھ رہنے سے زندگیاں تو برباد ہو سکتی ہیں لیکن باہمی الفت ہرگز پیدا نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ مسئلہ طلاق کا نہیں بلکہ طلاق کو معاشرتی سطح پر قبول کرنے کا ہے کہ یہ کوئی انہونی یا بُری چیز نہیں ہے۔ اگر طلاق یا علیحدگی کے فیصلہ کو اسی طرح قبول کیا جائے جیسا کہ شادی کو کیا جاتا ہے تو اس ٹیبو سے جُڑے بہت سے مسائل خودبخود ختم ہو سکتے ہیں۔ اگر دو لوگوں کا آپس میں شادی کے تعلق مین جُڑنا صحیح تھا تو ان کی علیحدگی کو بھی ان کا حق تسلیم کیا جانا چاہئے۔

ایک سیدھی سی سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جن میاں بیوی کے درمیاں بھی طلاق ہوتی ہے وہ خوشی سے نہیں ہوتی بلکہ نوبت اس حد تک آ جاتی ہے کہ راستے الگ کرنا پڑتے ہیں۔ بھلا جو دو لوگ آپس میں خوش ہوں وہ کیوں ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں گے؟ لہٰذا طلاق کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک خوش آئیند چیز ہے کہ دو ایسے لوگ جو ساتھ رہنا نہیں چاہتے انہوں نے ساتھ رہ کر ایک دوسرے کی زندگیاں برباد کرنے کی بجائے اپنے راستے علیحدہ کر لئے۔ تعلیم اور شعور کی بہتری کے ساتھ طلاقوں میں اضافہ ہوا ہے اور ہوگا بھی کیونکہ یہ سوچ فرسودہ اور زیادہ نقصان دہ تھی کہ جیسے تیسے گزارہ کرو مگر ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہو۔ اس وجہ سے طلاق تو نہیں ہوتی تھی لیکن دونوں میاں بیوی ساری زندگی ایک دوسرے کی جان عذاب کئے رکھتے تھے یا کم از کم جیون ساتھی بننے کی بجائے جیون بھر کا بوجھ بنے رہتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ یہ شعور پیدا ہو رہا ہے کہ ایسی صورت میں ایک دوسرے کو برباد کرنے کی بجائے طلاق اور علیحدگی کا راستہ زیادہ بہتر ہے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بہتر مستقبل کی نئی کوشش کی طرف پہلا قدم ہے۔

اگرچہ یہ بات ایک الگ تفصیل طلب بحث کی متقاضی ہے کہ ایسی صوت میں بچوں کا کیا ہو؟ حقیقت بھی یہ ہے کہ بچوں کی وجہ سے بھی طلاق نہیں ہو پاتی لیکن یقین جانئے ایسے ماں باپ جو آپس میں محبت و الفت سے نہیں رہ پاتے، لڑتے جھگڑتے ہیں، ان کے زبردستی ساتھ رہنے سے ان بچوں کا نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو ایسے ماں باپ کی علیحدگی کی صورت میں جتلایا جاتا ہے۔ اس تحریر پر سب سے پہلا اعتراض کچھ اسی قسم کا متوقع ہے اس لئے مختصر اس طرف اشارہ کر دیا ہے ورنہ طلاق کے بعد بچوں کے حوالے سے جو مسائل ہیں ان کے لئے ایک علیحدہ تفصیل طلب بحث مطلوب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments