سر ظفر الله کی یادداشتیں: گاندھی جی اور اچھوت اقوام


حالیہ دنوں میں ہم سب پر حاشر ابن ارشاد اور یاسر لطیف ہمدانی کے مابین جاری ‘جگل بندی’ کے دوران اچھوتوں کے حوالے سے گاندھی جی کا ذکر ہوا تو خیال گزرا کہ پچھلے دنوں ہی سر ظفر اللّہ خان کی یادداشتیں پڑھنے کا موقع ملا جس میں دوسری گول میز کانفرنس میں مسلمان وفد اور گاندھی جی  کے مابین جاری گفت و شنید کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کا احوال سر ظفر اللہ خان کے الفاظ میں حاضر ہے نیز اس سے اچھوتوں کے سیاسی مطالبات پر گاندھی جی کے طرز عمل کے بارے میں سر ظفر الله خان کی گواہی بھی ملتی ہے۔ ملک عمید

سوال: آپ دوسری گول میز کانفرنس میں چلے گئے تھے۔ کانفرنس میں کیا کچھ ہوا؟

سر ظفر اللّہ خان: دوسری گول میز کانفرنس 1931 کے موسم خزاں میں ہوئی۔ اس کانفرنس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وائسرائے لارڈ ارون (جو بعد میں اپنے والد کی وفات کے بعد لارڈ ہیلیفیکس کے طور پر ان کے جانشین ہوئے) نے کانگریس کو اس کانفرنس میں شمولیت کے لئے راضی کر لیا۔ اس سلسلہ میں گاندھی اور وائسرائے میں جو معاہدہ ہوا وہ گاندھی ارون پیکٹ کہلاتا ہے۔ اس معاہدہ کے نتیجے میں گاندھی جی نے کانگریس سے یہ اختیار حاصل کر لیا کہ وہ دوسری گول میز کانفرنس میں کانگریس کے واحد نمائندہ ہوں گے۔ اس طرح کانفرنس کا افتتاح ہوا تو گاندھی جی لندن میں موجود تھے اور اس طرح تمام فریق اس کانفرنس میں شریک تھے۔ کانفرنس میں گاندھی جی کی شمولیت سے بڑی امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں کہ شاید دو بڑے فریقوں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں میں مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے گی اسی طرح ہندوستان اور برطانیہ کے مابین آزادی اور خود مختاری کے مسائل کا کوئی حل تلاش کر لیا جائے گا۔ مسز سروجنی نائیڈو نے جو دونوں جانب بڑی احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں اور مسٹر گاندھی کی ذاتی دوست بھی تھیں، یہ کوشش بھی شروع کی کہ گاندھی اور مسلم وفد کے درمیان ملاقات ہوجائے۔ چنانچہ ہز ہائی نس آغا خان کے رٹز ہوٹل پکاڈلی کے کمرہ میں ملاقات طے ہوئی۔ مسٹر گاندھی تشریف لائے تو ہم سب نے احتراماً اٹھ کر ان کا استقبال کیا۔ ہم سب لوگ بے تکلفی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہز ہائی نس آغا خان اور دوسروں نے انہیں کرسی پر بیٹھنے کی پیشکش کی مگر گاندھی جی نے مسکرا کر کہا کہ نہیں وہ فرش پر بیٹھنا پسند کریں گے۔ سب کے اصرار کے باوجود کہ وہ صوفہ پر یا آرام کرسی پر تشریف رکھیں مگر انہوں نے فرش پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور کہا کہ انہیں اسی طرح آرام ملتا ہے۔ چنانچہ وہ فرش پر بیٹھ گئے اور ہم میں سے کچھ لوگ بھی ان کے احترام میں فرش پر بیٹھ گئے۔ ان کے ہاتھ میں ساگوان کا خوب صورت سا بکس تھا لوگوں نے سمجھا کہ ان کے ہاتھ میں ریڈیو سیٹ ہے مگر ریڈیو سیٹ لانے میں تک نظر نہیں آتی تھی۔ سب لوگوں کے سلام و آداب کا جواب دے چکنے کے بعد گاندھی جی نے وہ بکس کھولا۔ اس میں سے ایک چھوٹا سا تہ کیا ہوا پیتل کا چرخہ نکلا۔ آپ نے بڑے اہتمام سے اسے کھولا۔ سب لوگ انہیں بڑی توجہ سے دیکھتے رہے۔ امید بندھی کہ شاید اس چرخہ سے ہی ہندو مسلم مفاہمت کا کوئی دھاگہ نکل آئے۔ آپ نے چرخہ کاتنا شروع کیا اور ایک دو تار کاتنے کے بعد عندیہ دیا کہ آپ گفتگو کے لئے تیار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے مسلمان بھائی بندوں سے مفاہمت کرنے کے لئے بڑے مشتاق اور بے چین ہیں اور مستقبل کے آئین اور ملک کی آزادی کے لئے وہ انہیں ہر ممکن تحفظ کی ضمانت دینے کو تیار ہیں مگر اس میں دقت یہ ہے کہ روانہ ہونے سے قبل وہ کانگریس کے نمایاں ترین مسلمان رکن ڈاکٹر انصاری سے یہ وعدہ کر کے آئے ہیں کہ وہ ان کی عدم موجودگی میں ان معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس لئے وہ پیش آمدہ مسئلہ پر ڈاکٹر انصاری کے صلاح مشورہ کے محتاج ہیں، آپ نے یہ حل تجوز کیا کہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے والا مسلمان وفد وزیر ہند سے درخواست کرے کہ وہ ڈاکٹر انصاری کو کانفرنس میں بہ طور مندوب مدعو کریں۔

یہ ٹیڑھا سوال تھا۔ لارڈ ارون اور گاندھی جی میں جب سمجھوتہ ہوگیا کہ کانگریس گول میز کانفرنس میں شریک ہوگی تو کانگریس نے گاندھی جی کو پورے اختیارات کے ساتھ اپنا واحد نمائندہ مقرر کر دیا۔ اس وقت غالباً کانگریس کی جانب سے یہ کوشش کی گئی تھی کہ ڈاکٹر انصاری کو بھی، جو بڑے نامور کانگریسی رہنما اور بڑی محترم شخصیت ہیں، بہ طور مسلم مندوب مدعو کیا جائے۔ اس پر بعض مسلمان رہنماؤں کو جو پہلی گول میز کانفرنس میں شریک ہوچکے تھے اور اب دوسری کانفرنس میں مدعو تھے، بڑا سخت اعتراض تھا۔ انہیں ڈاکٹر انصاری کے خلاف کوئی شکایت نہیں تھی نہ انہیں دوسرے کانگریسی مسلمانوں کے مدعو کئے جانے پر کوئی اعتراض تھا۔ اعتراض تھا تو یہ کہ وہ کانفرنس میں کانگریس کے نمائندہ کی حیثیت سے بے شک شرکت کریں۔ مگر انہیں کانگریس کا نمائندہ ہی سمجھا جائے عام مسلمانوں کا نمائندہ تصور نہ کیا جائے۔ ان لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ اگر ڈاکٹر انصاری کو بہ طور مسلمان نمائندہ مدعو کیا گیا تو اس وجہ سے بعض اہم معاملات میں مسلمانوں کے موقف کو نقصان پہنچے گا اور وہ یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس طرح ڈاکٹر انصاری کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ جو لوگ ڈاکٹر انصاری کی مخالفت کر رہے تھے ان کا علی الاعلان یہ موقف تھا کہ اگر کانگریس چاہے تو اپنے سو نمائندوں میں سے ننانوے کانگریسی مسلمانوں کو اپنا نمائندہ بنا لے تو بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں مگر کسی کانگریسی مسلمان کو عام مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر مدعو کئے جانے کا کوئی حق نہیں۔ اس لئے اب گاندھی جی نے اسی مشکل کو ذرا نئے انداز میں پیش کر کے مسلم وفد کے لئے بڑی مشکل پیدا کر دی کہ ایک بار ڈاکٹر انصاری کی شرکت کے خلاف اعتراض کرنے اور اسے رکوانے کے بعد وہ اب کیسے وزیر ہند سے کہیں کہ وہ ڈاکٹر انصاری کو کانفرنس میں مدعو کریں؟ یہ سلسلہ کوئی آدھ گھنٹے تک جاری رہا، گاندھی جی اصرار کرتے رہے کہ وہ ڈاکٹر انصاری کی عدم موجودگی میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے ان سے ایسا وعدہ کر رکھا ہے۔ اور مسلم وفد یہ کہتا رہا کہ ان کے لئے اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اس موقعہ پر میں نے بحث میں شامل ہونے کا سوچا۔ میں بڑا ناتجربہ کار سا کارکن تھا مگر ایک بات مجھے سوجھی۔ میں نے گاندھی جی سے کہا کہ کیا میں کچھ عرض کر سکتا ہوں؟ گاندھی جی نے بڑی فراخدلی سے اجازت دی تو میں نے کہا کہ ’’کیوں نہ ہم گفتگو جاری رکھیں اور جب ہم کسی سمجھوتے پر پہنچ جائیں تو اس وقت ہم سب یعنی گاندھی جی اور مسلم وفد کے اراکین مل کر ڈاکٹر انصاری کو مدعو کریں کہ وہ آ کر گفتگو میں شامل ہوجائیں اور سمجھوتہ کو آخری شکل دے دیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح مدعو کیا جانا ڈاکٹر انصاری کے لئے بھی کہیں زیادہ عزت افزائی کا موجب ہوگا بجائے اس کے کہ وہ اس حکومت کی جانب سے مدعو کئے جائیں جسے گاندھی جی کئی بار علی الاعلان شیطانی حکومت کہہ چکے ہیں۔‘‘ گاندھی جی مسکرائے اور گفت و شنید جاری رکھنے پر راضی ہوگئے۔ یہ گفت و شنید کوئی دو تین اجلاسوں تک جاری رہی خلاصہ یہ تھا کہ جو نکات ان دنوں جناح کے چودہ نکات کے نام سے جانے جاتے تھے ان میں سے تیرہ پر اتفاق ہوگیا۔ مسٹر جناح بھی اس گفت و شنید میں شریک تھے اور بحث میں باقاعدہ حصہ لے رہے تھے۔ گاندھی کو تیرہ نکات سے کوئی اختلاف نہیں تھا جس نکتہ سے اختلاف تھا وہ جداگانہ نیابت کا جاری رہنا یعنی ہندوستان کی اسمبلیوں کے انتخابات میں اقلیتی فرقوں کی نشستیں مخصوص کی جائیں اور ان کو ان کے اپنے ووٹروں کے ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندوں سے پر کیا جائے۔ گاندھی جی کو یہ بات مشکل نظر آتی تھی اور وہ اسے مضرت رساں سمجھتے تھے کیونکہ اس طرح دونوں فریق جدا جدا رہتے تھے اور دیگر قباحتیں پیدا ہوتی تھیں۔ اگر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسی طریق سے ان کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکتا ہے اور بہ فرض محال گاندھی جی اس سے متفق بھی ہوں تو بھی ڈاکٹر انصاری کے بغیر اس مسئلہ پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ تو کیا کیا جائے؟ میں نے پھر بولنے کی اجازت چاہئے اور گاندھی جی سے کہا کہ میں اس بات کو صاف طور پر سمجھنے کے لئے ایک دو وضاحتی سوال کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے از راہ کرم اجازت دی اور میں نے پوچھا جناب فرض کریں کہ ہم سب ڈاکٹر انصاری سے درخواست کریں کہ وہ یہاں آئیں اور وہ ہماری درخواست مان کر یہیں تشریف لے آئیں اور آپ ان سے کہیں کہ آپ وسیع تر مفاد میں سمجھوتہ کی خاطر ان نکات کو ماننے پر آمادہ ہیں، اس لئے وہ بھی انہیں ماننے پر آمادہ ہوجائیں، اور فرض کریں ڈاکٹر انصاری جواب میں کہیں کہ ’جناب میں آپ کا ادنیٰ خادم ہوں اور آپ کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوں، مگر یہ مسئلہ انفرادی نہیں، قومی مسئلہ ہے جس کو میں دیانت داری سے ملک کے اور مسلمانوں کے مفاد میں نہیں سمجھتا، جن میں سے میں بھی ایک ہوں، اس لئے میں دیانت داری سے اس کے حق میں نہیں ہوں تو آپ کا رویہ کیا ہوگا؟ گاندھی جی نے فرمایا اس صورت میں مَیں ڈاکٹر انصاری کے موقف کی حمایت کروں گا۔ میں نے سوال کیا ’فرض کیجئے اس دوران کانگریسی مسلمان اپنی رائے تبدیل کر لیں اور آپ کو تار دے کر مطلع کریں کہ ہم مفاہمت کی خاطر اس نکتہ پر اتفاق کرتے ہیں مگر ڈاکٹر انصاری اپنے موقف پر مصر رہیں تو آپ کا کیا رویہ ہوگا؟‘ گاندھی جی کہنے لگے میں پھر بھی ڈاکٹر انصاری کا ساتھ دوں گا۔ میں نے تیسرا سوال کیا ’جناب فرض کیجئے کہ صورت حال بالکل الٹ جائے ڈاکٹر انصاری آپ کے اور ہمارے کہنے سننے کے نتیجے میں ہمارے ساتھ اتفاق کرنے لگیں اور کہیں کہ وہ مفاہمت کی خاطر اسے تسلیم کرتے ہیں، مگر ہندوستان کے کانگریسی مسلمان آپ کو فوری پیغام بھیجیں کہ وہ ہر گز اس نکتہ پر مفاہمت نہیں کر سکتے تو آپ کس کا ساتھ دیں گے؟ گاندھی جی فرمانے لگے ڈاکٹر انصاری کا! اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخری فیصلہ گاندھی جی کو نہیں ڈاکٹر انصاری کو کرنا ہے اور گاندھی جی ڈاکٹر انصاری کو قائل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

ہم نے اس مسئلہ کو ایک طرف رکھ کر باقی تحفظات کے بارہ میں بات چیت جاری رکھی۔ انہیں کسی بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا اگرچہ انہیں بعض معاملات کے بارہ میں شبہ تھا کہ وہ درست نہیں مگر اس کے باوجود وہ پیش رفت پر راضی تھے۔ دو تین اجلاسوں کے بعد ہم اس مفاہمت پر پہنچے تو مسلمان وفد نے کہا کہ اب وہ ارشاد فرمائیں کہ مشترکہ معاملات میں مسلمان وفد کو اب کیا کرنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی تجویز بعد میں بھیج دیں گے۔ تین یا چار روز بعد آپ نے کاغذ کے ایک پرزہ پر پنسل سے دونوں طرف لکھا ہوا خط بھیجا جس کے بارہ میں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اس کا موضوع کیا ہے۔ اس کے پہلے پیراگراف میں لکھا تھا کہ کانگریس کا مطالبہ آزادی کا ہے جس میں فوج اور مالی امور پر مکمل اختیار شامل ہے، اس میں وضاحت کی گئی تھی کہ آزادی میں کوئی لگی لپٹی شامل نہ ہو۔ ہم نے سوچا کہ اگر ہمیں مناسب تحفظات مل جائیں تو ہمیں وضاحت کردہ صورت میں اس مطالبہ کی حمایت کرنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہئے۔ مسلم وفد کو آخری تجویز نے بہت پریشان کیا جو یہ تھی کہ اگر آئین میں اچھوت اقوام کو کوئی تحفظات دئے جائیں تو مسلم وفد اس کی تائید نہ کرے بلکہ ان کی مخالفت کرے۔ ہم نے آپس میں اس پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ بات قبول کرنا ہمارے بنیادی موقف کے خلاف ہوگا۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ مسلمان صنعت، تجارت، تعلیم، تربیت اور ہر دوسرے میدان میں ہندوؤں سے کمزور تھے مگر اچھوتوں کے مقابلہ میں تعداد میں زیادہ تھے، تعلیم میں بہتر تھے، رہن سہن میں بھی ان سے بدرجہا اچھے تھے، تجارت میں بھی ہمارا کچھ حصہ تھا، اگر ہمیں اپنے لئے بعض تحفظات پر اصرار تھا تو ہم کانگریس کے نمائندے گاندھی جی کے موقف کی کس طرح حمایت کر سکتے تھے کہ اس طبقہ کو تحفظات کی ضرورت نہیں جو ہم سے کہیں کمزور حیثیت رکھتا ہے؟ اس تجویز پر رد و قدح کے بعد ہم نے گاندھی جی کو یہ جواب بھیج دیا کہ ہمارے مطالبات قبول کر لئے جانے کی صورت میں ہمارا موقف یہ ہوگا کہ اچھوتوں کے حقوق کا مسئلہ ہندو سوسائیٹی کا اندرونی مسئلہ ہے اس لئے وہ جو فیصلہ بھی کریں گے مسلم وفد اس کی حمایت کرے گا مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اچھوتوں کو تحفظات کی ضرورت نہیں! آخر وہ بھی ایک علیحدہ حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں اس حیثیت سے متعلقہ معاملات میں سیاسی نمائیندگی بھی حاصل ہے۔ ہم یہ موقف کیسے اختیار کر سکتے ہیں کہ انہیں ہندو سوسائیٹی کا رکن ہی سمجھا جائے اور ان کے معاملات پر علیحدہ طور پر غور نہ کیا جائے؟ یہاں بات چیت میں تعطل پیدا ہوگیا۔ گاندھی جی اچھوتوں کی علیحدہ حیثیت تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔ یاد رہے کہ جولائی یا اگست 1932 میں جب فرقہ وارانہ فیصلہ یعنی کمیونل ایوارڈ شائع کیا گیا تو گاندھی جی نے مرن برت رکھ لیا۔ اس خوف سے کہ کہیں گاندھی جی سرگباش ہی نہ ہوجائیں، اچھوت پونا میں، جہاں وہ برت رکھے ہوئے تھے، جمع ہوئے اور وہاں آپس میں افہام و تفہیم ہوگئی اور اس طرح اچھوتوں کا مسئلہ حل ہوگیا۔ گاندھی جی اس معاملہ میں بڑے حساس تھے اس لئے ہمارے مابین کوئی مفاہمت نہ ہوسکی۔ وہ ہمارے مطالبات کے خلاف نہیں تھے (کم از کم وہ کہتے یہی تھے انہیں ان سے کوئی اختلاف نہیں اور وہ کانگریس کو ہمارے مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش بھی کریں گے)، مگر مفاہمت محض اس لئے نہ ہوسکی کہ انہیں اچھوتوں کو علیحدہ نمائیندگی دینے اور ان کے لئے خاص انتظامات کرنا کسی صورت میں قبول نہیں تھا۔

__________________

سر ظفر الله کی یادداشتیں، انٹرویو پروفیسر ولکاکس اور پروفیسر ایمبری

ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی، صفحہ 44 تا 49


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments