والدہ، بھائی کی جدائی اور معذوری بھی حوصلے پست نہ کر سکے


اقراء بہاولپور کے چھوٹے سے گاؤں ڈیرہ مستی سے تعلق رکھتی ہیں۔ پولیو کا شکار ہیں۔ راولپنڈی کی رفاء یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں بی۔ ایس کر رہی ہیں۔ اقراء مشہور سماجی کارکن ڈاکٹر نوشابہ کے ریہیبلیٹیشن سینٹر میں رہتی ہیں، جو ان کی فیس اور دیگر اخراجات بھی برداشت کرتی ہیں۔

چھوٹی سی عمر میں اقراء کو بڑے بڑے صدمے برداشت کرنا پڑے۔ لیکن ہمت نہ ہاری۔ سپورٹس میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ 2021 ء میں خیبرپختون خواہ میں ہونے والے سپورٹس فیسٹول میں خواتین کی ویل چیئر ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔ کرکٹ اور بیڈمنٹن کھیلنے کی شیدائی ہیں۔ اقراء وی۔ لاگر بھی ہیں۔ ان کے ویڈیو لاگز میں خصوصی لڑکیوں کو ورزش، کھیل اور آزادانہ جینے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔

والد صاحب نجی سیکورٹی کمپنی میں گارڈ تھے۔ نوکری ختم ہو جانے کے بعد کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ والدہ صاحبہ چار سال پہلے وفات پا چکی ہیں۔ بارہ سال قبل بڑے بھائی کی وفات اپنڈکس پھٹنے کی وجہ سے ہوئی۔

اقراء ایک سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہوئیں۔ ابتداء میں بیٹھ نہیں سکتی تھیں۔ خود کو سنبھال نہیں سکتی تھیں۔ والدہ صاحبہ اور نانی جان نے بہت بھاگ دوڑ کی۔ مالشوں اور فزیوتھراپی نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل کر دیا۔

اقراء کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ بڑے بھائی اور کزنز کی کتابیں اٹھا کر پڑھنے کی کوشش کرتیں۔ اقراء کے شوق کو دیکھتے ہوئے بھائی بہت متاثر ہوئے۔ سوچا کیوں نہ اقراء کا داخلہ سکول میں کروا دیا جائے۔ ایک دن کندھوں پر اٹھا کر سکول لے گئے۔ اقراء کو سکول میں بہت مزہ آیا۔ تھوڑے دنوں میں والدین بھی قائل ہونا شروع ہو گئے۔ پھر والدہ صاحبہ نے بھی اقراء کے ساتھ جانا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ مڈل تک چلتا رہا۔

والدین نے بڑے بھائی کو سائیکل دلا دی۔ سائیکل نے اقراء کے لئے مزید آسانی پیدا کر دی۔ بھائی سائیکل پر سکول لے جاتے۔ پھر کندھوں پر اٹھا کر کلاس تک چھوڑ آتے۔ اقراء کے یہ مزے زیادہ دن نہ چل سکے۔ چند ماہ بعد ہی بھائی کا انتقال ہو گیا۔ بھائی کی وفات نے والدین کو توڑ کر رکھ دیا۔

بھائی کی وفات کے بعد اقراء کی تعلیم میں خلل پڑنے لگا۔ لیکن اقراء نے کسی بھی صورت ہار نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا۔ اقراء کی ضد پر والدین نے سکول کے لئے رکشہ لگوا دیا۔ اقراء نے بڑی بہادری سے اپنے آپ کو مینیج کیا۔ سکول قابل رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کلاس اوپر تھی۔ اساتذہ کرام اقراء کی قابلیت کی وجہ سے ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ٹیچرز ہی اقراء کو اٹھا کر دوسری منزل تک لے جاتیں۔ چھٹی ہونے پر اتار دیتیں۔ اس دوران اقراء کئی تلخ تجربات سے بھی گزرنا پڑا۔ لیکن اقراء نے ہمت نہ ہاری۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب اقراء امتیازی نمبروں سے میٹرک کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

میٹرک کے بعد کا دور مشکل ترین تھا۔ رزلٹ سے چند روز قبل والدہ محترمہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔ جس کے بعد اقراء دنیا میں بالکل تنہا رہ گئیں۔ ہر طرف مایوسی کا عالم تھا۔ لیکن آگے بڑھنے کا جذبہ کچھ کرنے کو مجبور کر رہا تھا۔ گرلز کالج گھر سے کافی دور تھا۔ دوسرا مسئلہ رسائی کا تھا جو کسی کالج میں میسر نہ تھی۔

پھر سپیشل ایجوکیشن کے ڈگری کالج کا پتہ چلا۔ کالج دیکھنے کے بعد اقراء نے فیصلہ کیا کہ انھوں نے اسی کالج سے پڑھنا ہے۔ یہ کالج بھی گھر سے کافی دور تھا والد صاحب کے لئے لانا لے جانا ممکن نہ تھا۔ اقراء کے بہتر مستقبل کے لئے والد صاحب نے اقراء کو ہاسٹل میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

سپیشل ایجوکیشن کے اس کالج میں اقراء نے بہترین وقت گزارا۔ ہر چیز قابل رسائی ملی۔ کالج کی تعلیم کے دوران اقراء نے کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔

کالج کے بہترین ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ اقراء اچھے نمبروں سے ایف۔ اے کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد اقراء کی خالہ نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ ان کا حوصلہ بڑھایا اور والد صاحب کو بھی موٹیویٹ کرتی رہیں۔

ایف۔ اے کے بعد اقراء کے لئے پھر سارے دروازے بند ہو گئے۔ کسی نے ڈاکٹر نوشابہ کے ادارے کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اقراء سے بات کی تو کہنے لگیں کہ آپ راولپنڈی آجائیں۔ آپ کی تعلیم اور رہائش کے تمام اخراجات ہم اٹھائیں گے۔

ڈاکٹر نوشابہ کا ”سن شائن“ ہاسٹل راولپنڈی کے پشاور روڈ پر واقع ہے۔ یہاں مختلف شہروں کی آٹھ خصوصی لڑکیاں رہتی ہیں۔ لڑکیوں کے تمام اخراجات ڈاکٹر صاحبہ کا ادارہ اٹھاتا ہے۔ راولپنڈی آنے کے بعد اقراء اسی ہاسٹل میں رہتی ہیں۔ رفاء انٹرنیشنل سے انگریزی ادب میں بی۔ ایس کر رہی ہیں۔ یونیورسٹی کی فیس، رہائش اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات ڈاکٹر صاحبہ برداشت کرتی ہیں۔

اقراء مستقبل میں انگریزی ادب میں پی۔ ایچ۔ ڈی کرنا چاہتی ہیں اور کھیلوں کی دنیا میں اپنا نام بنانا چاہتی ہیں۔

اقراء کہتی ہیں کہ اگر انھیں ڈاکٹر نوشابہ کا ادارہ نہ ملتا تو شاید آج یہ گاؤں میں ہوتیں اور ان کی صلاحیتیں رفتہ رفتہ مانند پڑ جاتیں۔ اقراء کی، حکومت سے اپیل ہے کہ ملک بھر میں ”سن شائن“ کی طرز کے بحالی سینٹر قائم کیے جائیں۔ تاکہ افراد باہم معذوری بھی سر اٹھا کر جی سکیں اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

گھروں میں بیٹھے مایوسی کا شکار خصوصی افراد کے لئے اقراء کا پیغام ہے کہ انسان ہمت ہار جائے تو اسے چھوٹی سی چھوٹی مشکل بھی پہاڑ جیسی لگتی ہے۔ ویل چیئر پر زندگی کے سارے امور با آسانی سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔ جب آپ کچھ کرنے کا عزم کرلیتے ہیں تو پھر مشکلات خودبخود حل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments