جگر ٹرانسپلانٹ اور قران پر حلف


ساری زندگی قرآن پر حلف لینے کو مناسب نہیں سمجھا۔ حتی کہ قسم کھانے پر بھی دل پریشان ہوجاتا ہے۔ کہ ایسی بھی کیا بے یقینی کہ قسم کھائی جائے۔ اور کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ عدالت جانا پڑے اور قرآن پر حلف دینا پڑے۔

جگر کے علاج کے سلسلے میں مختلف ٹیسٹ اور مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کچھ تکلیف دہ ہیں اور کچھ آسان ہیں سب مرحلے بہت ہمت کے ساتھ گزار دیے۔ کسی بھی مقام پر شکوہ نہیں کیا اور نہ ہی یہ سوچا کہ مجھے یہ بیماری کیوں ہوئی۔ تاحیات نہ سگریٹ پیا، نہ شراب پی اور نہ ہی کسی قسم کا نشہ کیا۔ حتی کہ کھانسی کا شربت بھی بہت ہنگامی حالات میں پیا ورنہ ادھر ادھر گرا دیا۔

احتیاط میں ہی زندگی گزار دی۔

میں انٹیریئر ڈیزائن کے پروجیکٹ کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے کارپینٹر کو پولیس والے پکڑ کر لے گئے۔ مجھے آئی 9 تھانے سے فون آیا میں چلا گیا پتہ چلا کہ استاد شاگرد کا کوئی لین دین کا معاملہ تھا۔ شاگرد کہہ رہا تھا میں نے قرض ادا کر دیا ہے۔

استاد بضد تھا کہ نہیں ادا کیا۔ اس کا پولیس والا واقف تھا وہ اس کا فائدہ لے کر بدلہ لینا چاہ رہا تھا۔ استاد کہہ رہا تھا کہ یا پیسے دو یا پھر قرآن ہر حلف دو۔ میں تو خوف سے کانپ گیا کہ کچھ پیسوں کے لئے قرآن پر حلف۔

کیا قرآن کا یہی استعمال رہ گیا ہے۔ میں نے درخواست کی کہ حلف رہنے دیں پیسے میں دے دیتا ہوں اور یوں میں نے وہ پیسے ادا کر دیے حالانکہ استاد جھوٹ بول رہا تھا اس کو غصہ اس کے کام چھوڑ کر جانے ہر تھا۔ اور وہ اس کو تھانے بند کروانا چاہ رہا تھا لیکن میں نے معاملہ ختم کروا دیا۔ باقی اللہ کی اللہ جانے۔

میں بتا رہا تھا کہ جب سب ٹیسٹ مکمل ہو گئے تو انھوں نے بتایا کہ اب فائل ہوٹا جائے گی اور پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی آپ کا انٹرویو لے گی اور پھر اجازت ملے گی۔

کارپینٹر استاد کا بھی دس ہزار کا رولا تھا اور ہوٹا کی فیس بھی دس ہزار ہی تھی۔ جو کہ بینکر چیک کی شکل میں جمع کروا چکا تھا۔

منگل 28 دسمبر اس انٹرویو کے لئے صبح 9 بجے وقت مقرر پر میں اور بیٹی ان کے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی آفس پہنچ گئے۔

سوا گیارہ بجے ہمیں انٹرویو کے لئے بلایا گیا اس مقصد، کے لئے ہم 8 اسٹام پیپر پیلے ہی جمع کروا چکے تھے۔ ساری کاغذی کارروائی مکمل تھی۔ ہم انٹرویو والے کمرے میں داخل ہوئے دو ڈاکٹر صاحبان زوم پر آن لائن تھے لاہور سے اور دو ہی اس کمرے میں موجود تھے۔

میں اور میری بیٹی کو بیٹھنے کے لئے کہا گیا ہم بیٹھ گئے۔

ہمارے سامنے یزدان میں لپٹا قرآن مجید رکھا ہوا تھا۔ جی اس پر آپ دونوں ہاتھ رکھیں اور حلف دیں۔ یہ کیا ہے۔ جی یہ قرآن مجید ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔

میں زندگی میں پہلی دفعہ اپنی بیٹی سے شرمسار ہوا کہ ہم نے کون سا جرم کیا ہے یا کرنے جا رہے ہیں جو اتنا بڑا حلف لیا جا رہا ہے۔ کہاں ڈاکٹر نجم الحسن شاہ صاحب کہتے ہیں علیزے بیٹی ڈونر سیدھا جنت میں جاتا ہے اور جنت میں جانے والوں ہر بھی یقین نہیں ہے ان کو۔

میرا دل کیا کہ معذرت کر کے اٹھ جاؤں ایسے مرنے سے بہتر ہے بیماری سے مر جاؤں۔ بیٹی نے میرا کانپتا ہاتھ پکڑا اور قرآن ہر رکھ دیا۔ ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے۔ میں حلف دیتا ہوں جو کہوں گا درست کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ اور مجھے نہیں پتہ چل رہا تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا۔ پھر بیٹی کو ان فرشتوں نے ساتھ والے کمرے میں بیٹھنے کو کہا اور انھوں نے مجھ سے سوال شروع کر دیے۔ یہ کون ہیں جی میری بیٹی کتنی بیٹیاں ہیں چار نام بتائیں۔ بتا دیے۔ اب مجھے ساتھ والے کمرے میں بھیج کر فرشتوں نے بیٹی سے سوال کیے یہ کون ہیں جی میری ابا۔ کتنے بہن بھائی ہیں چار بہنیں۔ نام بتائیں اس نے بھی بتا دیے۔ اپنی مرضی سے ڈونر بن رہی ہیں جی الحمدللہ۔

حالانکہ ہم کاغذات کے ساتھ نادرا کا فیملی ریکارڈ لے کر جمع کروا چکے تھے۔

مجھے یہ حرکت سمجھ نہیں آئی۔ کہ کیا تھی شاید یہ ٹرانسپلانٹ سے مشکل کام تھا اس کے زخم بھر جائیں گے اس حرکت کے نہیں بھریں گے۔

پولیس جب بھی کسی مرد اور عورت کو گرفتار کرتی ہے تو اس طرح کے ہی سوال کرتی ہے۔ بس انھوں نے یہ نہیں پوچھا کہ صبح ناشتہ کیا کیا تھا۔ باقی سوال وہی مشکوک والے تھے۔

پھر فرشتوں نے ہمیں اجازت دے دی اور کہا کہ ہم حکم نامہ ہسپتال کو بھیج دیں گے۔ آپ کا سارا انٹرویو ریکارڈ کر لیا ہے تاکہ ضرورت پڑھنے پر کام آ جائے۔

باہر آئے تو میری شکل دیکھ کر ایک صاحب صفائیاں دینا شروع ہو گئے کہ لوگ بہت فراڈ کرتے ہیں ہم نے علماء سے مشورہ کر کے یہ اس کا حل نکالا ہے۔ اس میں بادشاہی مسجد کے خطیب بھی شامل تھے۔

لوگ غریب رشتے داروں کو پیسے دے کر ڈونر بنا لیتے ہیں۔ اب ہم نے یہ سب روک لیا ہے۔

ہوٹا ٹرانسپلانٹ کرنے والے اداروں کا باپ ہے۔ میرے دل میں خیال آیا یہ کیسا باپ ہے جو بیٹی کے سامنے باپ کی تذلیل کرتا ہے۔

قرآن مجید ایک مکمل کتاب ہے جو سمجھنے اور ہدایت حاصل کرنے کے لئے نازل ہوئی ناکہ اس کام کے لئے جس استعمال میں لائی جا رہی ہے۔

2021 میں دنیا کمپیوٹرائزڈ ہے آپ ہر طرح کا ڈیٹا لمحوں میں حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کو نادرا کے ڈیٹا سے منسلک کر دیا جائے تو اس ادارے کے لئے کافی آسانی ہو جائے گی۔ جب فائل ہوٹا پہنچتی ہے یہ سب کاغذات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس سے قرآن مجید جس کام کے لئے نازل کیا گیا ہے اس کے لئے استعمال ہو گا۔

ٹرانسپلانٹ گردے کا ہو یا جگر کا مریض کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کریں اور ڈاکٹر آ کر ناشتہ بھی دفتر میں ہی کریں۔

مہربانی فرما کر ٹیکنالوجی کو استعمال کیجئے اور مریضوں کے لئے سہولت مہیا کیجئے۔ جب مریض فیس ادا کر رہا ہے تو ہوٹا کے نمائندے متعلقہ ہسپتالوں میں تعینات کیجئے۔ کچھ ہی تو ہسپتال ہیں جو ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں۔

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن پر حلف دے کر کوئی جھوٹ نہیں بولے گا تو سارا عدالتی نظام دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کیا غلطی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان بہت اچھے تھے گفتگو بھی بہت اچھی رہی۔ پر یہ حلف سمجھ نہیں آیا۔

مجھے آج پہلی دفعہ اپنے رب سے شکوہ ہوا کہ مجھے ایسی بیماری کیوں لگائی جس کے علاج کے لئے پوری فیس جمع کروانے کے بعد قرآن پر حلف دینا پڑے۔ شاید میں بیمار نہیں چور ہوں اور روز قیامت کٹہرے میں کھڑا ہوں۔ اور انصاف کا منتظر ہوں۔ میری ڈونر بیٹی جو جنت میں جانے کے ٹکٹ ہر خوش ہے اب شک میں مبتلا ہو گئی ہے کہ شاید ہم کچھ غلط کر رہے ہیں۔ جو ہمیں قرآن پر حلف دے کر یقین دہانی کروانی پڑ رہی ہے کہ ہم جو بول رہے ہیں سچ بول رہے ہیں۔ آج ہم دونوں اداس ہیں۔ صاحب اختیار سے درخواست ہے۔ اس نظام کو درست کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments