کرسمس کی مبارک باد اور ایمان کو لاحق خطرہ


عیسائی برادری کے مذہبی اور سماجی تہوار سے کچھ دن قبل میرے ایک دیرینہ، تعلیم یافتہ اور مہربان دوست نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ایک ویڈیو کلپ بھیجا، جس میں وہ اپنے مخصوص اسلوب اور لب و لہجے میں ہیپی کرسمس کہنے والوں کو دین اسلام سے خارج ہونے کی سخت وعید سناتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس تہنیتی جملے کا جو مفہوم اخذ کرتے ہیں وہ واقعی ہمارے عقائد اور مذہبی تعلیمات سے نہ صرف متصادم ہے بلکہ سنگین ہے۔ ڈاکٹر ذاکر مصر ہیں کہ ہیپی کرسمس کا مطلب ہے ”نعوذ با اللہ اللہ نے بیٹا جنا“ ۔

ہم نے اپنے مہربان دوست سے اس مفہوم کے ماخذ کے بارے میں پوچھا تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ پھر ڈکشنری دیکھی تو وہاں بھی ایسا کوئی مطلب لکھا ہوا نہ ملا۔ گوگل کیا تو وہاں اس جملے کا مفہوم حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کی خوشی لکھا ملا۔ ہم نے گوگل والا مفہوم ان کو بھیج دیا۔ بعد میں ایک خاتون کی پوسٹ نظر سے گزری جنہوں نے اس دن کی مناسبت سے ”جشن عید میلاد النبی“ لکھا تھا۔ ہمیں یہ مفہوم بھی مناسب لگا کیونکہ پچیس دسمبر بھی ایک صاحب کتاب نبی کی ولادت کا یوم ہے اور اس لحاظ سے عیسائی برادری کو خوشی منانے کا حق ہے۔

تھوڑی دیر بعد ہم نے بھی فیس بک پر عیسائی برادری کو اس دن کی مناسبت سے ہیپی کرسمس کہنے کے لیے پوسٹ لگا دی۔ اکثریت نے تو ہضم کر لی مگر کچھ دین کے ٹھیکیدار اور اجارہ دار لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے اور ہمارے عقائد اور دین و ایمان کی اصلاح کا بیڑا اٹھا لیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہمیشہ دین و ایمان اور اسلام خطرے میں نظر آتا ہے۔ ان کو اپنے دین و ایمان سے زیادہ دوسروں کا دین و ایمان کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ یہ ہر وقت یہود، ہنود اور نصاریٰ کی درپردہ اور علانیہ سازشوں کا واویلا کر کے خود کو گھلاتے اور دوسروں کو ورغلاتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایسے من گھڑت اور خود ساختہ قصے کہانیاں گھڑ رکھی ہیں کہ الحفیظ و الامان۔

بچپن میں ہمیں ایک قصہ بتایا گیا تھا کہ چوبیس گھنٹے میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا کہ جب یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال نہ بچھاتے ہوں۔ یہی کہانیاں اور من گھڑت قصے پڑھ اور سن کر جوان ہوئے۔ ایسے ہی ”مولاناوٴں“ کی صحبت کا اثر تھا کہ پیشۂ پیغمبری میں آنے کے بعد بھی کافی عرصے تک ہم کلاسز میں بھی برملا یہود و نصاریٰ کی مکروہ سازشوں کا حوالہ دے کر اللہ تعالٰی سے دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ انہیں نیست و نابود کرے۔ ”جذبۂ ایمانی“ ، ”غیرت ملی“ اور جوش خطابت میں یہ بھی بھول جاتے تھے کہ اسی کلاس میں ہمارے کچھ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے شاگرد بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ جب جوش کی جگہ ہوش، جذبے کی جگہ تعقل، مغالطے کی جگہ مطالعے اور ہیجان کی جگہ غور و فکر کے خوگر ہوئے تو ہمیں اپنے رویے پر شرمندگی ہوئی۔ ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ جس قوم کے ”جید علما“ نونہالان ملت کو یہ تعلیم دیں کہ زمین ساکت اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے، جو معجز نما خطیب اور مبلغ اسلام ستر فٹ کی حوروں کی بشارت دے، جو پیر طریقت اور رہبر شریعت ہزاروں کے مجمعے میں دعویٰ کریں کہ میرا بائی پاس حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بہ نفس نفیس خود آ کر کیا، جو عارف بے بدل اپنی معرفت الہٰی کے راز یوں منکشف کریں کہ وہ ایک اللہ والے کی معیت میں سات مرتبہ عرش الہٰی پر جا چکے ہیں اور جو ولی اللہ اپنے مرشد پاک کی کرامات کا ذکر کرتے ہوئے حاضرین مجلس کو یہ بتائیں کہ ہمارے غوث پاک نے منکر نکیر کو اس وقت دبوچ لیا تھا، جب وہ قبر میں ان سے حساب کتاب لینے آئے تھے اور یہ باتیں سن کر ہزاروں کے مجمعے عش عش کر اٹھیں، اس علم دشمن قوم کے خلاف یہود و نصاریٰ کو سازشیں کر کے وقت اور وسائل برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

جس ملک میں آج تک پولیو کا خاتمہ نہ ہوسکا، جہاں ہر سال لاکھوں بچے کم خوراکی اور بھوک کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بن جاتے ہوں، جہاں ہزاروں خواتین غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہوں، جہاں ستر فیصد آبادی کو پینے کا صاف پینے نہ ملے، جہاں سیکڑوں شہری مذہب اور ناموس رسولﷺ کے نام پر بے دردی سے مارے جاتے ہوں، جہاں پچاس فیصد شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہوں، جہاں ڈھائی کروڑ بچے سکول نہ جا سکتے ہوں، جہاں آزادی کے چوہتر سال میں کوئی سائنسدان نہ پیدا ہوا ہو، جہاں کی عدلیہ ایک سو تیس ملکوں میں سے ایک سو چوبیسویں نمبر پر ہو، جہاں آبادی کا بم پھٹنے کو تیار ہو اور جہاں تمام ادارے عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت میں ہوں اس ملک کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

ہیپی کرسمس کہنے سے دین و ایمان کی بربادی کی بات سن کر ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا یہ اسی نبی ﷺ کی امت ہے جس نے عیسائی وفد کے اراکین کو مسجد نبویﷺ میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی پیشکش کی تھی؟ جس نبیﷺ نے خانہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی میں نمازیں ادا کی تھیں؟ آج اس نبی ﷺ کی نام لیوا امت کا اسلام، دین و ایمان اور عقیدہ اتنا تنگ نظر اور سطحی ہو گیا ہے کہ ہیپی کرسمس کہنے سے ختم ہو جاتا ہے؟

میں نے اپنی تشفی اور تسلی کے لیے عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی اپنی رفیق کار پروفیسر حنیہ غزل سے جب کرسمس کے لغوی معنی پوچھے تو انہوں اس کے معنی بدن، جسم، گوشت پوست بتائے۔ اب بتائیے کہ ان میں وہ معنی کہاں سے نکلتے ہیں جو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اخذ کیے ہیں؟ مجھے یہ بات بہت افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ طارق جمیل کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک وہ دوسرا آدمی ہے جس نے اصل اور حقیقی اسلام کی صورت مسخ کر کے پیش کی۔

اتنے پیروکار جاوید غامدی جیسے کسی مفکر اسلام و انسانیت کو دستیاب ہو جاتے تو کیا ہی بات تھی۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ مسلمان کسی بھی مذہبی یا سماجی تہوار میں نہ صرف تہوار منانے والوں کو مبارک باد دے سکتے ہیں بلکہ ان کی خوشیوں میں شریک بھی ہو سکتے ہیں۔ بس یہ خیال رہے کہ وہ ان کی عبادات میں شامل نہ ہوں اور اخلاقی حدود و قیود کو پائمال نہ کریں۔ معلوم نہیں یہ لوگ ایسی اصطلاحوں کے من گھڑت معانی و مفاہیم کس ڈکشنری سے اخذ کرتے ہیں؟ شاید جس ڈکشنری میں PEPSI کا مطلب ( Pay each penny for Israel ) ہے اور Nike کا ٹک مارک یونانی دیوی کا نشان ہے اور کوکا کولا کا لفظ الٹ پڑھنے سے مفہوم نکلتا ہے ”کوئی مکہ نہیں ہے“ ہے اسی ڈکشنری میں لکھا ہے کہ میری کرسمس کا مطلب ”اللہ نے بیٹا جنا“ ہے۔

جہاں ”حلیم“ کو حلیم کہنے لکھنے سے گستاخی ہو جاتی ہو۔ اور مومنین دلیل کا ڈنڈا پکڑ کر کہیں کہ حلیم تو خدا کا نام ہے اسے ”دلیم“ کہو، جہاں بے پردہ عورت کی مثال ننگے لالی پاپ کی تصویر سے دی جائے، جہاں سموسہ الومناٹی کا نشان بن جائے وہاں آپ کا سر اگر دوش پہ سلامت ہے تو رب کائنات کا شکر مناؤ، خوش رہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments