اکتیس دسمبر 2021


ایک پوسٹ گردش میں ہے جس میں دوسرے سیارے کے دو افراد کی خیالی تصویر ہے۔ ایک دوسرے سے پوچھتا ہے کہ یہ زمین والے تہوار کیا منا رہے ہیں۔ دوسرا جواب دیتا ہے کہ ان کے سیارے نے اپنے ستارے کے گرد ایک اور طواف آج مکمل کر لیا ہے۔ پہلا کہتا ہے، ”دیکھا، میں نے کہا تھا نا کہ زمینی مخلوق ذہین نہیں ہے“ ۔ بات کوئی اتنی غلط بھی نہیں کہی دوسرے سیارے کے خیالی فرد نے۔ اسے شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ زمینی مذاہب نے تو اپنے اپنے مقدس دن بھی طے کیے ہوئے ہیں کسی نے اتوار تو کسی نے ہفتہ اور کسی نے جمعہ۔

مگر بات یہ ہے کہ کسی بھی شے کو ناپنا تو ہوتا ہے چاہے وہ ہوا کا جھکڑ ہو جسے طوالت کے لیے طے اکائی سے ماپا جائے یا بدن کی تپش جسے فضا کی حرارت ناپنے والے آلے سے۔ ایک زمانہ تھا جب گھڑیاں کم ہوا کرتی تھیں۔ گرمیوں میں میری ماں دیوار کے سائے سے نماز کے وقت کا تعین کرتی تھی کیونکہ تب لاؤڈ سپیکر نہیں ہوتے تھے اور دور سے کہی اذان کان نہ پڑتی تھی۔

یوں ہم نے گھنٹے، دن، مہینے، سال طے کیے ہوئے ہیں اپنے لیے۔ وقت تو ساکت ہے ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیے۔ آگے ہماری زندگی چلتی ہے اپنے خیال میں وقت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے۔ وقت کو ہم اپنی زندگی کے اطمینان یا بے اطمینانی کے دورانیے کو آنکنے کی خاطر یا وابستہ لوگوں کی زندگیوں، شہر، ملک یا دنیا میں ہوئے واقعات، ترقی یا ابتذال کو جاننے کی خاطر ناپتے ہیں۔

آج ایک اور سال جسے ہم نے 2021 جانا گزر جانے کو ہے۔ یہ سال بھی عالمی وبا سے بچتے بچاتے گزرا۔ اس برس بھی اس عالمی وبا سے لاکھوں لوگ اس جہاں سے چلے گئے۔ بیشتر وہ جو وبا کو مانتے ہی نہیں۔ مانتے ہیں تو سازش کے طور پر۔ کل ہی نیدرلینڈ کے کورونا مخالف گروپ کا ایک اگوان کورونا ہی سے لقمہ اجل بنا ہے۔

البتہ اس برس مختلف طرح کی کورونا مخالف ویکسینیں آ گئیں جن کے استعمال سے بہت سوں کا بھلا ہوا۔ ایسا نہیں کہ ویکسین استعمال کرنے والے مریض نہیں ہوئے یا مرے نہیں مگر وہ جنہوں نے بوسٹر ڈوز نہیں لی تھی کیونکہ پہلے ویکسینوں کو ایک سال کے لیے موثر کہا گیا تھا جو بعد میں معلوم ہوا کہ موثر پن پانچ ماہ گزرنے پر خاصا ماند پڑ جاتا ہے۔

ذاتی طور پر میرا یہ سال بستر پر دراز ہوئے لیپ ٹاپ پہ فلم دیکھتے یا کچھ پڑھتے بیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ صبح چھ سات کلو میٹر کی سیر کر لی یا جمعہ پڑھنے مسجد چلا گیا یا شاذ و نادر ہوئی کسی تقریب میں شرکت کر لی۔

بستر دراز شخص کے ساتھ ارد گرد کے لوگ اچھا، بھلا کیا پیش آئیں گے۔ بچے آخر بچے ہیں، شور کریں گے، لڑیں گے، کھیلیں گے۔ مجھ سے بچوں کا شور تب بھی برداشت نہیں ہوتا تھا جب میں خود بچہ تھا۔ بے حد سنجیدہ بچہ۔ چنانچہ بچوں اور بچوں کی ماں کے ساتھ اختلاف کم کیسے ہوتے؟

بچوں کی یاد میں گزشتہ برس کی یکم اکتوبر کو بیوی بچوں کے ہاں آ دھمکا تھا۔ مختلف المزاجی کے سبب بیشتر وقت نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق رہا ایسے جیسے اللہ کی طرف سے آزمائش ہو۔ مگر وہ کہتے ہیں نہ اللہ امتحان میں ڈالتا ہے تو کٹھنائی سہنے کی ہمت اور صبر بھی عطا کرتا ہے جسے دنیاوی حوالے سے ڈھٹائی کہا جائے گا۔

کچھ دوست اس برس دنیا چھوڑ گئے بلکہ ایک مہربان عابد عمیق تو رات ہی اس جہان سے گزرے ہیں۔ بہت بھلے آدمی تھے اگرچہ ملاقات ہوئے عشرے بیتے۔ پاکستان میں لوگوں کے حالات خراب سے خراب تر ہوئے۔ ایک تو دنیا پر وبا کے سبب اضمحلال دوسرے ہمارے حکمران کی وہی رٹ کہ گھبرانا نہیں، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ باوجود دشوار حالات کے بہت سے لوگ اب بھی عمران خان کے حامی ہیں۔ کیوں اور کس لیے؟ میری سمجھ میں تو شخصیت پرستی کا اسطورا ہی آتا ہے۔

افغانستان کے حالات خراب سے خراب تر ہوئے۔ امریکہ نے سرد جنگ کے زمانے کی اپنی ذہنیت سے چھٹکارا حاصل نہ کیا یوں پھر سے روس کے خلاف کمر بستہ ہے اور روس بھی خم ٹھونک کے کھڑا ہوا ہے۔ ہندوستان میں بنیاد پرستی اسی طرح زیادہ ہو رہی ہے جس طرح مسلمانوں کے ہمسایہ ملکوں میں اپنی طرح کی بنیاد پرستی۔ چین معاشی طور پر مسلسل ترقی کر رہا ہے جبکہ یورپ کو اگر روس کی گیس پہنچنے میں بندش آ جائے تو وہاں ترقی کا پہیہ سست پڑ سکتا ہے یہ یورپ کو روس امریکہ مخاصمت کے بڑھنے سے خدشہ ہے۔

آج رات ہر جگہ کے بارہ بجے ہم ایک اور فرضی سال 2022 میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ کرے وہ سب کے لیے سعد ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments