کہنہ مشق صحافی اقبال دل کی رحلت


سندھی صحافت کا ایک روشن ستارہ بلکہ یوں کہیے کہ ایک سورج 12 دسمبر 2021 کو اپنی آخری کرنیں بکھیرتا ہوا غروب ہو گیا۔ کہنہ مشق صحافی اقبال دل کی دنیا سے رخصت ہو گئے۔

اقبال دل یکم ستمبر 1942 میں عمرکوٹ ضلع کے تعلقہ پتھورو کے ایک گاؤں سومار دل میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1963ء میں سندھ یونیورسٹی میں سے کامرس میں گریجویشن کیا۔ انہوں نے شعبہ صحافت میں اپنے کام کی ابتدا 1961ء میں تعلیم کی تکمیل سے قبل اس وقت کر دی تھی، جب انہوں نے ایک سندھی روزنامہ خادم وطن میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں وہ 1972ء سے 1988 کے عرصہ تک روزنامہ ہلال پاکستان میں سب ایڈیٹر اور اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جب کہ 1988ء سے وہ اپنی وفات تک اسی اخبار کے ایڈیٹر رہے۔

ہلال پاکستان سندھی صحافت کا ایک بڑا نام ہے۔ یہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے شائع ہونے والا اخبار ہے۔ روزنامہ ہلال پاکستان 1946 سے اشاعت پذیر ہے۔ کراچی سے پہلے یہ اخبار 5 نومبر 1946 کو حیدرآباد سے جاری کیا گیا۔ اگرچہ ایک وقت میں یہ اخبار بند بھی ہو گیا تھا، لیکن جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اسے 1972 میں بحال کیا اور ان کے دور میں اس اخبار نے سرکاری سندھی اخبار کے طور پر بھی کام کیا۔ لیکن بعد میں اس کا سرکاری تعلق ختم کیا گیا تو یہ اخبار ادارے کے کارکنوں نے خرید لیا۔ اور یوں برصغیر کا اور سندھی کا پہلا ایسا اخبار قرار پایا جو کہ کارکن صحافیوں اور عملے کا اخبار تھا۔ تاہم یہ تجربہ بوجوہ ناکام رہا اور اس وقت یہ اخبار ایک نجی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔

اقبال دل ایک اچھے صحافی، ایک اچھے انسان اور ادیب تھے۔ ان کا ملک شام کا سفر نامہ ”شام ولایت میں“ شائع ہو کر مقبولیت کی سند ہی نہیں بلکہ ان کی کتاب کو 1995 میں سندھ کلچر سوسائٹی کی طرف ”مولوی دین محمد وفائی لٹریچر“ ایوارڈ بھی حاصل کر چکا ہے۔

جب کہ ای پی این ایس کی طرف سے انہیں بہترین اداریہ نویسی پر 1998 میں ایوارڈ پیش کیا گیا اور کراچی پریس کلب کی طرف سے 2009 میں لانگ ممبر شپ اور بہترین کارکردگی کا ایوارڈ بھی ملا۔ وہ 12 دسمبر کو کراچی میں فوت ہو گئے۔

وہ ان بڑے انسانوں میں سے ایک تھے کہ جن کے ساتھ کام کرنے کو ہم سعادت کہ سکتے ہیں اور ہمیں کئی سال تک ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل رہی۔ ہم نے انہیں ہمیشہ ایک سادہ اور خاموش طبع انسان پایا۔ پہلی بار جب ہم نے ان کو دیکھا تو ان کی سادگی کے باعث پتہ ہی نہ چل سکا کے ہمارے آس پاس موجود درمیانہ قد اور سادہ لباس انسان اسی اخبار کا ایڈیٹر ہے جس میں ہم بطور پروف ریڈر کام کرتے رہے اور بعد ازاں نہ صرف سب ایڈیٹری پر فائز ہوئے بلکہ بچوں، خواتین اور ادبی صفحات کے علاوہ عرصے تک ادارتی صفحہ کے بھی انچارج رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔

بہت کچھ جاننے کے باوجود وہ کبھی کسی کارکن کے لیے ”ہدایت نامہ“ بن کر پھرنے والی شخصیت نہ تھے۔

اگرچہ ہماری پہلی سندھی کہانی ”ننڈھڑو کھوجی“ (ننھا کھوجی) بھی ہلال پاکستان کے بچوں کے صفحات میں جون 80 یا 81 میں چھپی تھی تاہم ہماری اخبار سے وابستگی اور دل صاحب سے تعلق 1998ء سے 2008 تک تین وقفوں سے رہا۔ جب تک کے ادارے کی کارکن انتظامیہ نے مالی اور انتظامی معاملات کے باعث ہمیں سبک دوش نہ کر دیا۔

اقبال دل کام کے عادی ہی نہیں بلکہ لتی تھے۔ ہم نے انہیں کبھی فارغ کھڑا یا بیٹھا کم ہی دیکھا ہو گا۔ سگریٹ بہ دہن اور قلم بدست لکھتے ہی رہتے تھے۔ ہمارے حافظے کے مطابق وہ شام کو آتے اور سب سے پہلے اپنے دفتر میں اخبارات کو دیکھ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اداریہ لکھتے۔ اور اس کے بعد نیوز ایڈیٹر کے طور پر نیوز ڈیسک پر آ کر بیٹھتے اور اسی انہماک سے خبروں اور رپورٹوں سے نبرد آزما ہو جاتے۔

ان کی تحریر بہت خوبصورت اور زبان دلکش، سہل اور رواں ہوا کرتی تھی۔ اور یہ تحریر ان کے خیالات کے تسلسل اور روانی کا بھی عکس و علامت تھی۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ صرف ”لکھے لکھے“ نہیں بلکہ کسی ”پڑھے لکھے“ انسان کی تحریر ہے۔ ہماری طرح کہیں سے مٹی اور کہیں سے روڑا قسم کی تحریریں یا آج کے دور کے مطابق کہ لیں تو ”کٹ پیسٹ“ کی شعبدہ بازی نہیں کیا کرتے تھے۔

لکھے لکھے کی اصطلاح دراصل ہم نے ایک پاکستان فلم میں سنی اور دیکھی تھی۔ کہ اس فلم میں ندیم (نذیر بیگ) ایک لکھاری ہیں اور کویتا ان کی ”سادہ لوح“ بیوی۔ وہ ان سے ایک منظر میں پوچھتی ہیں، ”میں نے جب بھی دیکھا ہے آپ لکھتے ہی رہتے ہیں۔ پڑھتے کبھی نہیں۔ آپ لکھے پڑھے ہیں یا صرف“ لکھے لکھے ”؟

سو آج کل بہت سے لوگوں کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی ہماری طرح سے صرف لکھے لکھے ہیں۔

ہمارے لیے دل صاحب کی تحریر اس لیے بھی قابل رشک تھی کہ وہ سادہ اخباری کاغذ کے اوراق پر سیدھی سطریں اس طرح سے لکھتے جاتے تھے جیسا کہ مسطر سے لکھا گیا ہو۔ کاٹ چھانٹ یا لفظ پر لفظ یا سطر پر سطر کبھی نہیں چڑھاتے بٹھاتے تھے۔ ایسی کسی چیز کا ان کی تحریر میں نشان یا شائبہ نہیں ملتا تھا۔ جب کہ ہماری تحریر بھی اگرچہ اچھی تھی لیکن کمپیوٹر نے ہماری تحریر کا وہی حال کیا جو کہ امریکی بچوں اور بڑوں کی ہینڈ رائٹنگ کا کیا، کہ بگاڑ کے رکھ دیا۔ ہم سے قلم سے سیدھی سطر کبھی نہیں لکھی جاتی۔ جب کہ کاٹ چھانٹ لفظ پر لفظ اور سطروں کے اوپر نیچے سطروں کا دبانا/جمانا بھی ہماری عادت ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب پروف ریڈنگ کے علاوہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں زیادہ تر کی بورڈ کی مدد سے لکھتے ہیں۔

اگرچہ وہ ترقی پسند تھے لیکن ان کی کتاب شام ولایت میں، جس کی ہمیں اعزازی کاپی بھی عطا کی گئی تھی، اس میں ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ ایک ابراہیمی زیارت گاہ (ہمیں نام اور مقام یاد نہیں آ رہے ) پر انہوں نے انتظامیہ سے اپنے طریقے (اسلامی طریقے؟ ) سے دعا کرنے کی اجازت مانگی لیکن ان کو وہ نہیں دی گئی۔ جب کہ ان کے ایک فرزند بھی کچھ دینی رجحانات کے حامل ہیں۔ جو اس بات کی دلیل بھی ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو اپنے عقائد اور نظریات کا پابند نہیں بنایا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ صحافت اور خصوصی طور پر پاکستانی و سندھی صحافت کی تاریخ میں ان کو اور ان کی خدمات کی بڑی اہمیت ہے۔

تاہم ان کی وفات اور اس سانحے کو جس طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے وہ عمل افسوسناک ہے۔

ہم سندھی میں ان جیسا کبھی نہیں لکھ سکتے۔ وہ مروج معیاری اور صحافتی زبان میں لکھتے تھے۔ اور ہم اخباری کارکن ہوتے ہوئے بھی صحافی کم ادیبوں (جرنلسٹ کم آتھرس) کی صحبت اور محبت میں ادبی زبان لکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اور اس پر مستزاد خالص زبان۔ ہم نے ایک بار ایک ایسا ہی خالص سندھی ادبی زبان والا مضمون ہلال پاکستان کے ادارتی صفحے کے لیے کسی قلمی نام سے لکھا تو ایک قاری نے فون کر کے تعریف کی کہ، ”بھئی واہ، آپ نے بڑی پیاری اور خالص زبان استعمال کی ہے۔ مزہ آ گیا!“ ہم بڑے خوش ہوئے۔ لیکن جب شام کو اقبال دل صاحب نے کسی سے ہمارے مضمون کے بارے میں ہنس کر پوچھا ”ارے بھئی یہ“ جناتی زبان ”کا مضمون کس نے لکھا ہے؟“ تو ہماری خوشیوں پر اوس پڑ گئی۔ ظاہر ہے ایک قاری کی تعریف ایک کہنہ مشق صحافی کی اس تنقید کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی۔ اس کے بعد ہم نے کوشش کی کہ ہم انسانی زبان میں لکھیں تاہم:

” چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments