بانو قدسیہ : ایک لازوال تخلیق کار


\"\" حرام کیا ہے؟ وہ جس سے منع کیا گیا ہے۔۔۔۔ اچھے اور برے کا سوال نہیں۔ صرف جو چیز منع فرمائی ہے اللہ نے وہ حرام ہے۔ اسی لئے حرام و حلال کا جھگڑا سب سے پہلے جنت میں پیدا ہوا۔ جب حضرت آدم نے شجرِ ممنوعہ سے توڑ کر کھایا۔ اچھے برے کا سوال نہیں تھا۔ بس وہ جو منع تھا اپنے پر حلال کیا۔۔۔۔ پھر چل سو چل ہوا۔ ایک جنریشن سے دوسری پود تک ہم یہی ورثہ دیتے آئے ہیں۔۔۔

کہیئے مندرجہ بالا سطور پڑھ کرذہن میں کیا خیال آیا؟

بخدا یہ تمام ترفلسفہ میرے ناقص ذہن کی پیداوارتو بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ بلکہ آپ سے کیا پردہ میری تو یہ بساط بھی نہیں کہ اس کی خاک کو بھی پہنچ پاوؑں۔

’’اکتوبر کا دن تھا۔ جس طرح بھٹی سے نکل کر مکئی کے دانے سفید پھولے ہوئے بڑے اور ٹھنڈے نظر آتے ہیں، اسی طرح اکتوبر کا یہ دن تھا۔ بڑا، پھولا ہوا اور سفید۔ کچھ دنوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ گھڑیوں کے تابع نہیں ہوتے، اپنی گنجائش اور سمائی کے مطابق گزرتے ہیں۔‘‘

4 فروری 2017 بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب ٹی وی پر چلتی ایک یک سطری خبر نے ساری توجہ اپنی جانب کچھ یوں مبذول کرائی کہ باقی ہر منظر گویا پس منظر بن گیا۔ ’داستان سرائے کا آخری مکین بھی چلا گیا‘۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔۔

پر صاحبو ذرا سے اختلاف کی جراؑت یہاں کرنا چاہوں گی گو کہ اختلافِ رائے رکھنے والے کو ہمارے مہذب معاشرے میں واجب القتل ہی سمجھا جاتا ہے بس زبان سے کہنے میں کچھ عار ہے پر ہنوز گستاخی معاف۔۔۔۔۔

بانو قدسیہ جیسے ادیب بلاشبہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں تو کیا یہ ایک بے مہر سانس کا ہی رشتہ ہے جو ہمیں ان نادر و نایاب لوگوں سے جوڑ کر رکھتا یے؟ قطعی نہیں۔۔۔۔ ایک تخلیق کار تو امر ہوتا ہے اور وہ رہتی دنیا تک ہر بدلتے زمانے میں موجود رہتا ہے اپنی لازوال تخلیقات کی شکل میں۔ بانو آپا کبھی ہم سے بچھڑ ہی نہیں سکتیں وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی اپنی تحریروں میں۔۔۔۔

چھوٹا منہ بڑی بات پر ذرا راجہ گدھ جیسا شہرہ آفاق ناول اٹھائیے۔ پڑھنا شروع کیجیئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہر سطر آپا کی خوشبو سے معطر نہیں ہے؟ کیا ان کے آس پاس ہونے کا احساس جاگزیں نہیں ہوتا؟

شہرِ بےمثال، توجہ کی طالب، حوّا کے نام، مردابریشم، موم کی گلیاں، تماثیل، آتش زیرپا اور ایسی بےشمار لافانی تصنیفات کا خزانہ جو داستان سرائے کی آخری مکین آپ کے لئے چھوڑ گئیں ہیں، کبھی کھول کر پڑھیئے اور جانئیے کہ ادیب کیسے امر ھوتے ہیں۔

آپا کی ہر تصنیف عورت کے گرد نہیں بلکہ عورت کی محبت کے گرد گھومتی ہے۔ یہی محبت اس کے پاوؑں کی بیڑی بھی ہے اور یہی محبت اس کی طاقت بھی اور سمجھوتو ہتھیار بھی۔ یہی محبت عورت کی کمزوری ہے جو اس کو بے بس کر دیتی ہے پر محبت کے ہاتھوں پسپائی عورت کا مقدر نہیں بلکہ یہ وہ ہار ہے جو عورت بڑے فخر سے تسلیم کرتی ہے کیونکہ وہ محبت کے بغیر نہیں رہ سکتی اسکا خمیر ہی محبت سے اٹھا ہے، صرف محبت۔۔۔۔

اور بانو آپا نے اس محبت میں ضم ہو کر اپنی بات کو ثابت کیا۔ اشفاق احمد صاحب سے ان کی محبت بلکہ عقیدت آپ کے یا میرے دلائل کی محتاج نہیں، بلکہ ایک تاریخ ہے۔ مجہے یاد ہے کہ کافی عرصہ پہلے میں ٹی وی پر ان کا ایک انٹرویو دیکھ رہی تھی جس کی ایک بات ذہن میں رہ گئی۔۔۔ ایک سوال کے جواب میں بانو آپا نے کہا تھا کہ میرے اندر کے ادیب کو نکارنے والا، مہمیز دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ اشفاق احمد تھے۔ ہر شام گھر آنے کے بعد کبھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا پکایا ہے پر یہ ضرور پوچھتے تھے کہ آج کچھ لکھا کہ نہیں؟ بس یہی محبت ہے جو زندگی کا احاطہ کر لے تو انسان بانو قدسیہ کی طرح امر ہو جاتا ہے۔

اگر کسی سے کچھ مانگنا ہے تو محبت مانگو۔۔۔۔

محبت مل جائے تو سب کچھ مل جاتا ہے۔

محبت کے بغیر ہر چیزایسے ملتی ہے۔۔جیسے مرنے کے بعد کفن ملتا ہے مگر۔۔۔۔۔

محبت بھی نہ مانگو

کیونکہ مانگی ہوئی محبت کا مزہ

بگڑی ہوئی شراب جیسا ہوتا ہے۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments